تندرستی ہزار نعمت ہے اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں لیکن 80 فیصد نوجوان صحت مند رہنے کےلئے روزانہ ہلکی پھلکی ورزش بھی نہیں کرتے یہ انکشاف عالمی ادارے صحت (ڈبلیو ایچ او)کی ایک رپورٹ میں کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 11 سے 17 سال کی عمر کے ہر پانچ میں سے چار بچے صحت مند زندگی کے لیے درکار ورزش نہیں کر رہے۔
نوجوانوں کو شروع سے ہی ورزش کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لینا چاہیے، کیوں کہ یہ جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ دماغی صحت کے لئے بھی بہت ضروری ہے۔اگر گھر میں کوئی نوجوان اپنے کمرے میں کمپیوٹر اسکرین کے سامنے بیٹھا رہتاہے اورکھانے کے وقت بھی وہ اپنے کمرے میں ہی کھاناکھاتا ہے تو یہ حیرت کی بات نہیں کیونکہ کہ یہ تقریباََ ہر گھرکا حال ہے۔ ایسے نوجوان بیماریوں کو ازخوددعوت دے رہے ہوتے ہیں۔ روغنی غذائیں ، کمپیوٹر اور موبائل اسکرین پر دوستوں کے ساتھ پپ جی میںمصروف ، رات کو دیر تک جاگنا اور دوسرے دن دوپہر تک نیند پوری کرنا آج کے نوجوانوں کا مزاج بن چکا ہے جو صحت کے ماہرین اور ڈاکٹروں کی نظر میں اپنی صحت کو اپنے ہاتھوں سے تباہ کرنے کے مترادف ہے۔
ڈبلیو ایچ او کی جانب سے 146 مملک کی فہرست میں پاکستان کو 118واں نمبر دیا گیا، جہاں 86.9 فیصد نوجوان چوبیس گھنٹوں میں سے بمشکل ایک گھنٹہ متحرک رہتے ہیں۔
ماہرین نے دنیا میں نوجوانوں کے غیر متحرک ہونے کی وجہ اسمارٹ فونز اور دیگر ٹیکنالوجی کو قرار دیا ،جبکہ یہ بات بھی سامنے آئی کہ دیہی علاقوں کے نوجوان شہریوں سے زیادہ متحرک اور چست ہوتے ہیں۔
کھیل اور ورزش سے صحت مند قومیں تیار ہوتی ہیں۔ معاشرے میں غیریوگا سمیت دیگر کھیل اور اور ورزش کی سرگرمیوں کو فروغ دیا جانا چاہیے، جس سے نوجوان نسل مغربی ثقافتی یلغار کے منفی اثرات سے بچ سکتے ہیں ۔
بچوں میں ورزش کی عادت بچپن سے ڈالنی چاہیے۔ ایک وقت تھا کہ اسکولوں میںپی ٹی لازمی ہونی چاہیے اب عموماََ ایسانہیں ہے۔ ورزش کی صحیح تربیت سے کھڑے ہونے‘ چلنے‘ بیٹھنے کا انداز سیکھا جاتا ہے۔اگر ورزش کے ساتھ شوقیہ کھیلے جانے والےمنظم کھیل بھی معمول بنالیے جائیں توزندگی منظم انداز میں گزاری جاسکتی ہے ۔جسمانی تعلیم اور کھیل کود کو تعلیمی نصاب کا ایک جزو لاینفک قرار دیا گیا ہے۔ کھیل کود کے بغیر تعلیمی نصاب کو ادھورا کہا گیا ہے۔ مختلف قسم کے کھیل طلباء کی جسمانی اور ذہنی نشونما کے لیے بےحدضروری ہیں۔
ماضی میں ہاکی، فٹ بال اور کرکٹ کا شوق نوجوانوں کو میدانوں میں کھینچ کر لایا کرتا تھا، مگر اب وقت بدل گیا ہے، اب نوجوان کسی میدان میں نیٹ پریکٹس کی بجائے اپنے موبائل فون یا لیپ ٹاپ پر ”نیٹ“ پریکٹس کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ انٹر نیٹ کے ذریعے میسر آنے والی اس پریکٹس کی وجہ سے نئی نسل میں مہارت اگرچہ بہت زیادہ آگئی ہے لیکن وہ کام کاج کے قابل نہیں رہے۔ جہاں ٹیکنالوجی سے بے پناہ فائدے ہوئے ہیں وہیںاس نےہم سےہماری سب سے قیمتی چیز صحت چھین لی ہے۔
صبح کے وقت پارکس اور گراونڈز کا نظارہ کریںتو پارک میں ورزش کرتے نوجوان نہ ہونے کے برابرنظر آئیں گے۔ کھیلوں کے میدان ویران ہیں لیکن آپ کو اَن لائن گیمز کھیلتے ہوئے ہزاروں نوجوان نظر آئیں گے۔ باقاعدہ ورزش کرنا تو دور کی بات روزمرہ کے کاموں میں بھی نوجوان اپنے جسم کو تکلیف دینا پسند نہیں کرتے ۔ گھرسے ایک کلومیٹر بھی پیدل نہیں چلتے۔ بہت کم نوجوان باقاعدہ ’’جم‘‘ جاتے ہیں ۔ نہ صرف یہ بلکہ فاسٹ فوڈ کا بے تحاشہ استعمال اور ورزش کے بجائے اپنا سارا وقت ڈیجیٹل دنیا میں گزار کر خوش ہوتے ہیں۔
ایک ترقی یافتہ قوم بننے کے لیے ہمیں دن رات محنت کی ضرورت ہے جو صرف صحت مند جسم کے ساتھ ہی کر سکتے ہیں اور صحت مند جسم ہمیں ورزش سے ہی حاصل ہو گا۔