• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا بھر میں ہر سال 18اپریل کو اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ برائے تعلیم، سائنس و ثقافت (یونیسکو) کے زیر اہتمام یادگاروں اور تاریخی مقامات کا عالمی دن منایا جاتا ہے، جس کا مقصد مختلف قدیم تہذیبوں، ثقافتی ورثے اور تاریخی آثار کو محفوظ بنانا اور اس کے بارے میں آگاہی فراہم کرناہے۔ اپنے ماضی کو محفوظ رکھنے، اپنے مستقبل کو خوشحال بنانے کے لیے اہم تاریخی اور معاشرتی قدر سمجھے جانے والے مقامات کو ورثہ کی فہرست میں شامل کیا جاتا ہے۔ ثقافتی ورثہ کی فہرست کو مختلف سرکاری ایجنسیوں اور قانون سازی کے ذریعہ منظم کیا جاتا ہے۔ 

عالمی ادارے یونیسکو کے تحت دنیا بھر میں اس وقت کُل 529یادگاروں اور تاریخی مقامات کو عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا گیا ہے۔ ہر معاشرہ اپنی جداگانہ روایات، ثقافت اور تہذیب و تمدن رکھتا ہے۔ کسی بھی قوم یا ملک کی تہذیب و ثقافت نہ صرف اس کی تاریخ کی ترجمان ہوتی ہے بلکہ یہ اس کے طرزِ تعمیر اور معاشرے کی عکاس بھی ہوتی ہے۔ ورثے کے اعتبار سے پاکستان بھی انمول ذخائر کا حامل ہے۔ 

پاکستانی ثقافت اورورثہ دنیاکی قدیم ترین تہذیب مہرگڑھ سے لے کر برطانوی دور کا امین رہا ہے۔ ذیل میں یونیسکوکی جانب سے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کیے جانے والے پاکستان کے 6مقامات کا ذکرکیا جارہا ہے۔ یہ تمام مقامات مختلف تہذیبوں اور مختلف ادوار سے تعلق رکھتے ہیں، جو ملک کی ثقافتی امارت ظاہر کرتے ہیں۔

موہنجو دڑو

موہنجو دڑو، وادی سندھ کی قدیم تہذیب کا ایک مرکز تھا۔ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں مہذب تہذیب کے آثار تقریباً 5ہزار سال پرانے ہیں۔ برطانوی ماہر آثار قدیمہ سر جان مارشل نے 1922ء میں موہنجو دڑو دریافت کیا تھا۔ یہ شہر بڑے منظم انداز میں بسایا گیا تھا، اس کی گلیاں کھلی اور سیدھی تھیں جبکہ پانی کی نکاسی کا بھی مناسب انتظام تھا۔ 

ہڑپہ سے 400میل دور یہ شہر2600قبل مسیح موجود تھا اور 1700قبل مسیح میں نامعلوم وجوہات کی بنا پر ختم ہو گیا۔ کہا جاتا ہے کہ دریائے سندھ کے رُخ کی تبدیلی، سیلاب، زلزلہ یا بیرونی حملہ آوروں کی وجہ سے یہ شہر 7مرتبہ اجڑا اور پھر دوبارہ بسایا گیا، تاہم اب یہ کھنڈرات میں تبدیل ہوچکا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہاں 30سے40 ہزار کے درمیان افراد بستے تھے۔ یونیسکو نے 1980ء میں اسے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کیا تھا۔

ٹیکسلا

راولپنڈی کے قریب واقع ٹیکسلا ایک تاریخی شہر ہے، جس کی جڑیں گندھارا دور سے ملتی ہیں۔ اس عہد میں یہ بدھ اور ہندو مذاہب کا اہم مرکز سمجھا جاتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ 326قبل مسیح میں سکندر اعظم نے ٹیکسلا پر قبضہ کیا اور پھر یہاں پانچ دن قیام کیا تھا، جس کے بعد وہ راجا پورس سے لڑائی کے لیے جہلم پہنچا۔ باختر کے یونانی حکمراں دیمریس نے 190قبل مسیح میں گندھارا کا علاقہ فتح کر کے ٹیکسلا کو اپنا پایہ تخت بنایا۔ 

مہاراجا اشوک اعظم کے عہد میں بھی اس شہر کی رونق پورے عروج پر تھی اور یہ بدھ تعلیم کا مرکز تھا۔ یہاں گوتھک اسٹائل کا ایک عجائب گھر ہے، جس میں پانچویں صدی قبل مسیح کے گندھارا آرٹ کے نمونے، 10ہزار سکے، زیورات، ظروف اور دیگر نوادرات رکھے ہوئے ہیں۔ اس شہر کے بیشتر مقامات کو 1980ء میں یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کیا گیا۔

تخت بائی کے کھنڈرات

مردان سے کوئی 20 سے 25 منٹ کی مسافت پر سوات کی جانب تخت بائی کا علاقہ ہے۔ شہر سے چند کلومیٹر دور دائیں جانب پہلی صدی قبل مسیح کی بدھ تہذیب کے عروج کے کھنڈرات ہیں۔ آثار قدیمہ کے یہ مقامات پہلی صدی عیسوی سے پانچویں اور چھٹی صدی عیسوی میں بنائے گئے تھے اوربدھ مت تہذیب کے اہم مراکز رہے ہیں۔ تخت بائی میں بدھ کمپلیکس چار اہم بدھ گروپس میں تقسیم تھا؛ پہلا اسٹوپا، دوسرا راہبوں کی خانقاہ، تیسرا مندر اور چوتھا تنتری راہبوں کی خانقاہ۔ 

ان آثار قدیمہ میں بدھا کے مجسمے اور تاریخی سلیپنگ اسٹوپا بھی شامل ہیں۔ تخت بائی کے آثار قدیمہ کے علاوہ آس پاس ایسے 13سے 14قدیم مقامات بھی ہیں، جن کا تعلق بدھ مت اور اشوک بادشاہ کے دور سے ہے۔ اس جگہ کی تاریخی اہمیت کے پیش نظر یونیسکو نے 1980ء میں اسے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا تھا۔

شاہی قلعہ لاہور اور شالامار باغ

لاہور کے شاہی قلعہ کی تاریخ زمانہ قدیم سے جا ملتی ہے مگر رہائشی اور فوجی مقاصد کو مدِنظر رکھتے ہوئے اس کی ازسرِنو تعمیر مغل بادشاہ اکبر اعظم (1556ء تا 1605ء) نے کروائی جبکہ اس کی آنے والی نسلیں بھی اس کی تزئین و آرائش کرتی رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ قلعہ مغلیہ فنِ تعمیر اور روایت کا ایک نہایت ہی شاندار نمونہ ہے۔ قلعے کی لمبائی 466میٹر اور چوڑائی 370میٹر ہے۔ قلعے کے اردگرد ایک اونچی فصیل ہے، جس کے تین بڑے دروازے ہیں۔ سرخ پختہ اینٹوں سے دیواریں تعمیر کی گئی ہیں، جن کی چنائی میں مٹی کے گارے کا استعمال کیا گیا ہے۔ 

اس کے اندر موجود چند مشہور مقامات میں شیش محل، نولکھا محل، موتی مسجد اور عالمگیری دروازہ شامل ہیں۔ شیش محل فن تعمیر اور فن نقاشی کا بہترین نمونہ ہے، جس کی دیواریں اور چھتیں رنگ برنگے شیشوں اور پچی کاری کے کام سے مزین ہیں۔

مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے لاہور میں 1641ء سے1642ء کے درمیان شالامار باغ تعمیر کروایا۔ اسے جنوبی ایشیا کا خوبصورت ترین باغ بھی قرار دیا جاتا ہے۔ 16ہیکڑ رقبے پر پھیلے ہوئے باغ میں فارسی و اسلامی روایات کا خوبصورت امتزاج دیکھنے میں آتا ہے۔ 

مستطیل شکل کے اس باغ کے اردگرد اینٹوں کی ایک اونچی دیوار تعمیر کی گئی ہے۔ باغ تین حصوں میں بٹا ہوا ہے اور تینوں کی بلندی ایک دوسرے سے مختلف ہے۔اس میں 410فوارے، 5آبشاریں ہیں۔1981ء میں یونیسکو نے شاہی قلعہ کو شالامار باغ کے ساتھ عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا تھا۔

مکلی کا قبرستان

ٹھٹھہ کے قریب واقع مکلی کا تاریخی قبرستان دنیا بھر میں ایک الگ شناخت رکھتا ہے۔ اس قبرستان کے ساتھ صدیوں پرانی تہذیب منسلک ہے۔10کلومیٹر رقبے پر پھیلے ہوئے اس قبرستان میں 14ویں سے 18ویں صدی تک کے پانچ لاکھ مقبرے اور قبریں موجود ہیں۔ اس کا شمار مسلم دنیا کے بڑے قبرستانوں میں ہوتا ہے جہاں مغل، ترخان اور سمہ دور کی قبریں موجود ہیں۔

یہاں کی قبروں کی خاص بات ان کے دیدہ زیب خدوخال ہیں، جن پر انتہائی نفیس انداز میں قرآنی آیات اور خوبصورت نقش و نگار کندہ ہیں۔ ان قبروں پر کی گئی نقاشی اور کشیدہ کاری کا کام اپنی مثال آپ ہے کہ دیکھنے والا ہر شخص کاریگروں کی صناعی کی داد دیتا ہے۔ 

مقابر کی تعمیر میں سندھی ٹائلوں اور سرخ اینٹوں کا استعمال کیا گیاہے جبکہ مزارات میں سرخ اینٹوں سے گنبد بھی تعمیر کیے گئے ہیں۔ ان کی تعمیر میں بہت ہی اعلیٰ معیار کا تعمیری مواد استعمال کیا گیا ہے جس کی وجہ سے یہ نہایت مضبوط ہیں۔ یونیسکو نے 1981ء میں اس مقام کو عالمی ثقافتی ورثہ میں شامل کرنے کا اعلان کیا تھا۔

قلعہ روہتاس

پوٹھوہار اور کوہستان نمک کی سرزمین کے وسط میں جہلم کے قریب تعمیر کیے گئے قلعہ روہتاس کی بنیاد افغان بادشاہ فرید خان (شیر شاہ سوری) نے 1542ء میں رکھی۔ تقریباً پانچ سال میں مکمل ہونے والی اس قلعے کی تعمیر میں ترک اور ہندوستانی فنِ تعمیر کا امتزاج نظر آتا ہے۔ قلعے کی تعمیر میں عام اینٹوں کے بجائے دیوہیکل پتھروں اور چونے کا استعمال کیا گیا۔ یہ بھاری پتھر اونچی دیواروں اور میناروں تک بھی پہنچائے گئے۔ 400ایکٹر پر محیط اس قلعے کی تعمیر میں بیک وقت تین لاکھ مزدوروں نے حصہ لیا۔ 

قلعہ اندرونی طور پر دو حصوں میں تقسیم تھا، جس کے لیے ایک 1750فٹ طویل دیوار تعمیر کی گئی، جو قلعے کے دفاعی حصے کو عام حصے سے جدا کرتی تھی۔ جنگی حکمت علمی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے قلعے کے کُل بارہ دروازے بنائے گئے،جو فن تعمیر کا نادر نمونہ ہیں۔ قلعے کا سب سے قابلِ دید ، عالیشان اور ناقابل شکست حصہ اس کی فصیل ہے، جس پر 68برج ، 184برجیاں، 6ہزار 881 کنگرے اور 8ہزار556سیڑھیاں بنائی گئی تھیں۔ یونیسکو نے 1997ء میں اسے عالمی ثقافتی ورثہ میں شامل کرنے کا اعلان کیا تھا۔

تازہ ترین