• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شمسی توانائی، بجلی کی پیداوار کا سستا ترین ذریعہ؟

عالمی طور پر زہریلی گیسوں (گرین ہاؤس گیسز) کے اخراج میں ایک تہائی حصہ توانائی کے شعبہ کا ہے، اس لیے توانائی کی پیداوار کے لیے صاف وسائل کا استعمال ضروری ہے تاکہ بڑھتے عالمی درجہ حرارت کے مسئلے سے نمٹا جاسکے۔

ہرچندکہ توانائی کی پیداوار کے لیے صاف و شفاف وسائل کی طرف منتقلی کا عمل ابھی ابتدائی مراحل میں ہے لیکن قابلِ تجدید توانائی کے بین الاقوامی ادارے (اِرینا) کا کہنا ہے کہ قابلِ تجدید توانائی کے شعبہ میں تیزی سے پیشرفت ہورہی ہے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ، ’’توانائی کے حصول کے لیے قابلِ تجدید وسائل کی طرف منتقلی کے رجحان کو اب روکا نہیں جاسکتا‘‘۔

ذیل میں قابلِ تجدید توانائی کے شعبے میں حالیہ عرصہ کے دوران ہونے والی یادگار پیشرفت کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔

2020ءقابلِ تجدید توانائی کیلئے ریکارڈ سال

اِرینا کے اعدادوشمار کے مطابق، 2020ء کے دوران دنیا بھر میں 260گیگا واٹ قابلِ تجدید توانائی کے نئے بجلی گھر قائم کیے گئے، جو کہ 2019ء کے مقابلے میں 50فی صد زیادہ اور قابلِ تجدید پیداوار کے حوالے سے ایک نیا ریکارڈ ہے۔ مزید برآں، گزشتہ سال توانائی کے شعبے میں شامل کی جانے والی نئی استعداد میں 80فی صد حصہ قابلِ تجدید کا رہا۔ 

اس میں سے 91فی صد نئی قابلِ تجدید توانائی سورج (شمسی توانائی) اور ہوا (پون توانائی) سے حاصل کی گئی۔ فوسل ایندھن سے چلنے والے بجلی گھروں کے اضافے کی شرح اس عرصے کے دوران 8فی صد کے لگ بھگ کم ہوگئی۔ اس حوالے سے اِرینا کے ڈائریکٹر جنرل فرینسیسکو لا کامیرا کہتے ہیں، ’’یہ اعدادوشمار قابلِ ذکر ہیں اور امید کی طرف اشارہ کرتے ہیں‘‘۔

برطانیہ کا سبز ترین دن

رواں سال پانچ اپریل کو برطانیہ نے قابلِ تجدید توانائی کے حصول کے حوالے سے نیا ریکارڈ بنایا، جس دن ملک بھر میں 80فی صد توانائی قابلِ تجدید بشمول پون، شمسی اور جوہری ذرائع سے حاصل کی گئی۔

شمسی توانائی، بجلی کا بادشاہ

عالمی توانائی ادارہ (آئی ای اے) نے بجلی کی فراہمی میں شمسی توانائی کو ’’کنگ آف الیکٹرسٹی سپلائی‘‘ کا خطاب دیاہے۔ ورلڈ انرجی آؤٹ لک 2020ء رپورٹ میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ بڑے پیمانے پر دستیاب وسائل، کم ہوتی ہوئی لاگت اور دنیا کے 30سے زائد ملکوں میں پالیسی سپورٹ کے باعث 2022ء کے بعد قابلِ تجدید توانائی کی پیداوار میں نئے ریکارڈ بننے کی توقع ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ، ’’کم فنانسنگ لاگت اور اعلیٰ معیار کے حامل منصوبوں کی بات کریں تو ’سولر پی وی‘ بجلی پیداکرنے کا اس وقت تاریخ کا سستا ترین ذریعہ ہے‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ شمسی توانائی پیدا کرنے کی لاگت کوئلے اور گیس سے بجلی پیدا کرنے کی لاگت کے مقابلے میں بھی کم ہے اور یہ بات دیگر کئی ملکوں سمیت دنیا میں توانائی کی بڑی منڈیوں امریکا، یورپی یونین اور چین کے بارے میں بھی درست ہے۔

ایڈیلیڈ میں 100فیصدقابلِ تجدید توانائی کا استعمال

جنوبی آسٹریلیا کے دارالخلافہ ایڈیلیڈ میں سوئمنگ پول، کار پارکنگ ایریا، ڈیپو اور کمیونٹی عمارتیں، سب کی سب مکمل طور پر قابلِ تجدید توانائی پر چلتی ہیں۔ ایڈیلیڈ، جنوبی آسٹریلیا کی پہلی کونسل ہے، جو مکمل طور پر قابلِ تجدید توانائی کے وسائل استعمال کرتی ہے، جس میں تاریخی ایڈیلیڈ ٹاؤن ہال بھی شامل ہے، جسے 1866ء میں تعمیر کیا گیا تھا۔ شہر کو قابلِ تجدید توانائی پر منتقل کرنے سے زہریلی گیسوں کے اخراج میں سالانہ 11ہزار ٹن کمی ہوگی، جوکہ ساڑھے تین ہزار کاروں سے خارج ہونے والی زہریلی گیسوں کے اخراج کے برابر ہے۔

ویتنام، شمسی توانائی استعداد میں 25فیصداضافہ

ویتنام کی حکومت نے 2020ء میں ایک منصوبے کا اعلان کیا تھا، جس کے تحت اپنے گھروں کی چھتوں پر روف ٹاپ سولر سسٹم نصب کرنے والوں کے لیے مراعات کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس منصوبے کے نتائج آنا شروع ہوگئے ہیں اور صر ف ایک سال کے دوران ہی ویتنام میں شمسی توانائی کی پیداوار کی استعداد میں 25فی صد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

ویتنام الیکٹرسٹی (ویتنام کی سرکاری بجلی کمپنی) کے مطابق، دسمبر 2020ء کے اختتام تک، 9.3گیگاواٹ شمسی توانائی کی پیداوار کی استعداد کے پلانٹ قائم کیے جاچکے تھے، جوکہ کوئلے پر چلنے والے چھ بجلی گھروں کے مساوی ہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق، ویتنام بھر میں مختلف گھروں، دفاتر اور فیکٹریوں میں ایک لاکھ سے زائد روف ٹاپ سولر سسٹم نصب کیے جاچکے ہیں۔ اس سے قبل، بجلی کی پیداوار کے لیے ویتنام کا زیادہ تر دارومدار کوئلے سے بجلی کی پیداوار پر ہوتا تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ، گزشتہ پانچ برسوں کے دوران، دنیا بھر میں بجلی کی پیداوار کے لیے فوسل ایندھن پر انحصار میں بتدریج اور مسلسل کمی آئی ہے اور دنیا قابلِ تجدید توانائی کے ذرائع سے بجلی کے حصول پر کام کررہی ہے۔ تاہم خدشہ ہے کہ کورونا وَبائی مرض کی طوالت، صاف و شفاف ذرائع سے بجلی کے حصول کی طویل مدتی پیشرفت پر اثرانداز ہوسکتی ہے۔

تازہ ترین