پاکستان کرکٹ ٹیم کےسلیکشن میں اگرچہ ایک دو عجیب و غریب فیصلے ہوئے ہیں ۔ہرارے میں آخری ٹی ٹوئنٹیمیں چار اوپنرز الیون کا حصہ تھے۔ہیڈ کوچ مصباح الحق کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی غلطی تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ناکام کھلاڑی آصف علی کا انتخاب اور گیارہ رکنی ٹیم میں ان کی بار بار شمولیت یہی بتارہی تھی کہ مصباح الحق اپنے پسندیدہ کھلاڑی کو منتخب کرانے میں کس حد تک آگے جاسکتے ہیں۔
ہرارے پہنچنے کے بعد ویڈیو لنک پر جب ان سے ایک صحافی نے آصف علی کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا کہ میرے لئے آصف علی ویسا ہی کھلاڑی ہے جیسے ٹیم کے دوسرے کھلاڑی ، ٹیم کے رزلٹ پر سمجھوتہ کئے بغیر ہی نوجوانوں کو چانس دینا چاہتے ہیں۔
شعیب ملک کا فیصلہ میں اکیلے نہیں کرسکتا۔یہ عجیب بات ہے کہ جب کوئی پرفارم نہیں کرتا تو اسکو میرے ساتھ جوڑ دیتے ۔مڈل آرڈر ہوتا ہی اس لئے ہے کہ جب ٹاپ آرڈر رنز نہ کرسکے تو وہ پرفارم کرے۔انہوں نے کہا کہ آصف علی اور حیدر علی ڈومیسٹک میں پرفارم کرکے ٹیم میں آئے ہیںہماری کوشش ہوتی ہے کہ جو کھلاڑی ٹیم میں آئے اس کو مکمل موقع دیں جس نمبر پر آصف یا حیدر ہیں اس پر اسکور ہونا چاہئے، یہ پرابلم آرہی ہےکہ وہ ناکام ہورہے ہیں۔ورلڈ کپ میں غالبا اس ٹیم کے ساتھ ہیں جائیں گے، شاید ایک دوکھلاڑیوںکی تبدیلی ہو، انگلینڈکی سیریز تک ہمارا ورلڈ کپ کا اسکواڈ فائنل ہوجائے گا۔
انگلینڈمیں وہی ٹیم ہوگی جس کوورلڈ کپ میں جانا ہے۔ہمیں پتہ ہے شاہین شاہ کا ورک لوڈ کس طرح مینیج ہوگا۔ آصف علی کو زمبابوے کے خلاف دوسرے میچ میں کھلایا گیاتو وہ ایک رن بناکر ٹیم کو مشکل میں چھوڑ گئے۔اس دورے میں حیدر علی اور دانش عزیز بھی بری طرح ناکام ہوکر پاکستانی سسٹم پر سوالات چھوڑ گئے۔کیوں کہ اس سے قبل حسین طلعت،افتخار احمد اور خوش دل شاہ بھی ناکام ہوکر ٹیم سے باہر ہیں۔پاکستانی ٹیم کو سب سے بڑا ممسئلہمڈل آرڈر بیٹنگ کا ہے۔پاکستانی کرکٹ ٹیم کے لئے زمبابوے کی سیریز میں سب سے زیادہ186رنز محمد رضوان نے بنائے۔ وہ دو بار ناٹ آوٹ رہے اور دو نصف سنچریاں بنائیں۔
بابر اعظم نے95رنز اسکور کئے۔ان کے علاو بیٹنگ لائن بری طرح ناکام رہی۔دانش عزیز دو میچوں میں37شرجیل خان ایک میچ میں18فخر زمان تین میچوں میں پندرہ رنز بناسکے۔جنوبی افریقا میں دو ون ڈے اور ایک ٹی ٹوئینٹی میں نصف سنچری بنانے والے فخر زمبابوے میں ناکام رہے۔محمد حفیظ نے دس حیدر علی نےایک میچ میں پانچ،آصف علی نے ایک رن بنایا۔بولنگ میں محمد حسنین نے پانچ،حارث روف نے چار وکٹ لئے ۔حسن علی نے ایک میچ میں چار کھلاڑیوں کو آوٹ کیا،لیگ اسپنر عثمان قادر نے بھی چار کھلاڑیوں کو آوٹ کیا۔محمد نواز کوئی وکٹ نہ لے سکے۔دانش عزیز نے دو وکٹ لئے۔اسی دوران محمد عامر کے بعد شعیب ملک نے بھی سوشل میڈیا پر آکر مصباح الحق کے خلاف خود کش حملہ کردیا۔
جنوبی افریقا اور زمبابوے کے خلاف سیریز کے لئے پاکستانی ٹیم کا اعلان ہونے کے بعد میڈیا میں بار بار یہ کہانی گردش کررہی تھی کہ کپتان بابر اعظم ٹیم کے انتخاب پر ناخوش ہیں۔جب پریس کانفرنس میں اس بارے میں بابر اعظم سے پوچھا گیا تو انہوں نے تردید بھی نہیں کی۔پی سی بی کی راہداریوں میں یہ خبر گردش کررہی ہے کہ بابر اعظم پاکستان ٹیم میں تجربہ کار کھلاڑیوں شعیب ملک،حارث سہیل اور عماد وسیم کو منتخب کرانا چاہتے تھے۔لیکن ہیڈ کوچ مصباح الحق اور چیف سلیکٹر محمد وسیم کی جانب سے انہیں مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
مصباح اور محمد وسیم نئے کھلاڑیوں کو موقع دینے کے حامی تھے۔ہرارے ٹی ٹوئینٹی میںمیں شکست کے بعد سابق کپتان شعیب ملک کاٹوئٹ بھی اسی جانب اشارہ کررہا تھا۔زمبابوے کے ہاتھوں شکست کے بعد شعیب ملک کا کہنا ہے کہ جو غلط فیصلےکیےگئے انہیں واپس لینےکی ضرورت ہے، پاکستان ٹیم کوایک انٹرنیشنل وائٹ بال کوچ کی ضرورت ہے۔کپتان کو فیصلےکرنے نہیں دیئےجائیں گے تو ٹیم اسی طرح پرفارم کرے گی، انتظامیہ پسند اور ناپسند پر انحصار کرتی ہے خاص کر اس وقت جب آپ کی کرکٹ صرف زندہ رہنے کی حالت میں ہے، تو پھر بحیثیت قوم اس کے علاوہ اور کیا توقع ر کھی جا سکتی ہے۔
شعیب ملک نے کہا کہ ناواقف فیصلہ سازوں کو پیچھے ہٹنے کی ضرورت ہے بابر اعظم اور چیف سلیکٹر کو آگے بڑھ کر فیصلے کرنا ہوں گے، ہمیں ایسے انٹر نیشنل وائٹ بال کوچ کی ضرورت ہے جو کھیل کو سمجھتا ہو،وہکپتان کو گروم کرے وائٹ بال کوچ مستقبل کے لئے کھلاڑیوں کو واضحطریقہ اور لائن بتا سکے، شعیب ملک نے یہ بیان ایسے موقع پر دیا ہے جب ان کی پاکستانی ٹیم میں واپسی کی باتیں ہورہی ہیں۔پاکستانی کرکٹ ٹیم نے زمبابوے کے خلاف تیسرا ٹی ٹوئینٹی انٹر نیشنل24رنز سے اپنے نام اور سیریز دو ایک سے جیت لی۔دوسرے ون ڈے میں زمبابوے نے جس طرح پاکستان کو 19رنز سے نشکست دی اس سے یقینی طور پر پاکستانی ٹیم انتظامیہ کی آنکھیں کھل گئی ہوں گی۔
جنوبی افریقا کی طرح زمبابوے میں بھی پاکستانی ٹیم کی کارکردگی محمد رضوان اور بابر اعظم کے گرد گھوم رہی تھی۔آخری میچ میں پاکستان کی فتح میں فاسٹ بولر حسن علی نے اہم کردار ادا کیا،انہوں نےچار وکٹیں حاصل کر کے میچ کا پانسہ پلٹ دیا۔پاکستان کی جانب سے محمد رضوان نے بہترین بیٹنگ کرتے ہوئے 60 گیندوں پر ناقابل شکست 91 رنز بنائے اور پہلے میچ کے بعد دوبارہ بیٹ کیری کرنے میں کامیاب ہوئے۔محمد رضوان کی اس سیریز میں دوسری نصف سنچری اورگذشتہ 10 ٹی ٹوئنٹی میچوں میں ان کی چھٹی نصف سنچری ہے ، دونوں بار وہ ناقابل شکست رہے۔ اس اننگز میں انھوں نے پانچ چوکے اور تین چھکے لگائے۔کپتان بابر اعظم نے نے اپنی 18ویں نصف سنچری اسکور کی اور وہ آخری اوور میں 52 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے جس میں پانچ چوکے شامل تھے۔
اس اننگز کے دوران انھوں نے اپنے کرئیر کے دو ہزار رنز مکمل کر لیے ، وہ یہ سنگ میل حاصل کرنے والے تیز ترین بیٹسمین ہیں جنھوں نے صرف 52 اننگز میں یہ کارنامہ انجام دیا ،سیریز کے پہلے میچ میں پاکستان نے جبکہ دوسرے میچ میں حیران کن طور پر زمبابوے نے فتح حاصل کی۔ یہ 15 بین الاقوامی ٹی ٹوئنٹی میچوں میں زمبابوے کی پاکستان کے خلاف پہلی جیت تھی ،آخری میچ میں انھیں سیریز جیتنے کا سنہرا موقع ملا تھا۔زمبابوے کے پاس کھونے کو کچھ نہیں تھا۔ ہار بھی جاتے تو کوئی تعجب نہ ہوتا یہ وہ ٹیم ہے جو رواں برس کے ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کا حصہ ہی نہیں ہے۔
بابر اعظم اور محمد رضوان بیٹنگ لائن کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھا کرپاکستانی ٹیم کو فتوحات دلوارہے ہیں۔اب زمبابوے کی ٹیسٹ سیریز میں اظہر علی،فواد عالم کے ساتھ عابد علی،عمران بٹ اور سعود شکیل کی صلاحیتوں کا امتحان ہے۔پاکستانی ٹیم کے بیٹنگ کوچ یونس خان کہتے ہیں کہ ہم ڈنڈا پریڈ نہیں کر سکتے، کھلاڑیوں کو خود بھی دیکھنا ہے کہ انہیں کس طرح صورتحال کے مطابق کھیلنا ہے اور وہ کیسے کھیل کر ٹیم کو میچز جتوا سکتے ہیں۔
بیٹنگ کوچ ہوں اور نظر بھی آتا ہوں لیکن کچھ فیصلوں میں شامل نہیں ہوتا، کپتان، چیف سلیکٹر اور ہیڈ کوچ نے دیکھنا ہے کہ کس کھلاڑی کو کتنا موقع دینا ہے، میری ذاتی رائے میں کسی کھلاڑی کو دو سے تین سیریز کا موقع دینا چاہئے لیکن یہ فیصلہ میرے اختیار میں نہیں البتہ یہ درست بات ہے کہ ہمیں کھلاڑیوں کو کھلانے میں جلد بازی نہیں کرنی چاہیے۔یونس خان کا کہنا تھا کہ کھلاڑیوں کو جب بھی موقع دیں ان کے پیچھے فرسٹ کلاس اور لسٹ اے میچز کا تجربہ ہونا چاہیے، میرے بس میں ہو تو میں ان کو منتخب کروں جن کے پیچھے ڈومیسٹک کا تجربہ ہو، یہاں بعض اوقات میڈیا اور سوشل میڈیا کے دباؤ پر جلد موقع دے دیا جاتا ہے۔
مصباح الحق اور یونس خان کی سوچ مختلف ہے لیکن مصباح الحق کے مسائل زیادہ ہیں۔وہ میڈیا سے بھی الجھ جاتے ہیں۔کھلاڑی بھی ان سے ناراض ہیں ایسے میں جہاں ٹیم ہارے گی وہ پریشر میں آجائیں گے۔اس لئے مصباح کو اپنی غلطیوں اور خامیوں پر غور کرنا ہوگا۔