بھارتی ٹینس اسٹار ثانیہ مرزا نے زندگی میں ڈپریشن سے مقابلے کے حوالے سے اہم انکشاف کردیے۔
انہوں نے ڈپریشن کے بارے میں اظہار خیال کیا اور اپنی اس سے جنگ کے حوالے سے بات چیت کی اور بتایا کہ انہوں نے ڈپریشن کی وجہ سے درپیش مسائل کا سامنا کیسے کیا اور کیسے ان مسائل پر قابو پایا ۔
میزبان سمیر کوچر کے ویب شو میں انٹرویو کے دوران ثانیہ مرزا نے زندگی میں ڈپریشن کی وجہ سےپیش آنے والے مسائل کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایاکہ ’ 2008 بیجنگ اولمپکس میں جب میں صرف 20 سال کی تھی تو بازو میں انجری کی وجہ سے ایونٹ چھوڑنا پڑا تو اسکے بعد میں 3 سے 4 مہینوں تک ڈپریشن میں رہی۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’مجھے یاد ہے میں روتی رہتی تھی ، اور ایک مہینے تک میں اپنے کمرے سے کھانا کھانے کے لیے بھی باہر نہیں آئی تھی۔‘
ثانیہ نےاس حادثے کے بارے میں بات کرتے ہوئے مزید بتایا کہ ’میرے لیے یہ برداشت کرنا مشکل تھا کہ میں ٹینس نہیں کھیل سکتی ، مجھے لگتا تھا کہ میں اپنے آپ کو مایوس کر رہی ہوں ، اپنی فیملی کو اور اپنے ملک کو مایوس کررہی ہوں۔‘
ثانیہ نےڈپریشن کو کنٹرول کرنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس مشکل وقت میں میری فیملی نے مجھےہمت دی اور صحیح راستہ دیکھنے میں مددکی ، اور یہ وہ مدد تھی جس کی مجھے ضرورتھی۔ مجھے ڈپریشن سے نکلنے میں ایک سال لگا اور آخرکار میں اس ڈپریشن سے باہر آگئی۔‘
ثانیہ مرزا نےمزید بتایا کہ ’اس کے بعد میں نے بھارت میں ہونے والے کامن ویلتھ گیمز میں پرفارم کیا اور دو میڈلز بھی جیتے۔‘
ثانیہ نےذہنی سکون کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’جب انسان ذہنی طور پر سکون میں ہوتا ہے تو کامیابی خود اسکا پیچھا کرتی ہے، ایک ایتھلیٹ کے لیے ذہنی طور پر صحت مند ہونا بہت ضروری ہے۔‘
ثا نیہ مرزا نے کورونا وبا کے دوران ہونے والے اپنے تجربے کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’وبا ئی مرض کے پھیلاؤ کے دورانیے کے پہلے سات ماہ میرے لیے بہت مشکل تھے کیونکہ میں اورمیرا بیٹا الگ ملک میں اور میرے شوہر الگ ملک میں پھنسے ہوئے تھے۔‘
ثانیہ نے مزید کہا کہ ’میرے خیال میں رشتے میں ایک شوہر یا شریک حیات کے لیے تو یہ بات ٹھیک ہے کہ آپ کافی وقت تک ایک دوسرے کو نہیں دیکھ سکتے لیکن ایک بچے کے لیے اتنا وقت اپنے باپ سے دور رہنابہت مشکل تھا۔ اور اسطرح ایک دوسرے سے دور دیکھنا ان کے لیے اور میرے لیے بھی بہت مشکل تھا۔‘
کورونا وبا کے دوران نظر آنے والے چند مثبت پہلؤں کے بارے میں بات کرتے ہوئے ثانیہ نے کہا کہ ’میں جانتی ہوں کہ اس وقت دنیا بھر میں لوگ مشکلات کا شکار ہیں لیکن اس دوران کم از کم لوگوں کو ان حالات میں بیٹھ کر بات کرنے کا موقع ملا ہے کہ وہ کن مشکلات کا شکار ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر میں خود کو اس جگہ پر رکھ کر بات کروں تو میں جانتی ہوں کہ مجھے میرے خواب پورے کرنے تھے کہ مجھے جیتنا ہے اور نمبر ون بننا ہےاور نمبر ون بننے کے بعد کیا کرنا ہےـ؟‘
ثانیہ نے کہا کہ ’آپ سانس بھی نہیں لے پارہے تھے ، آپ سکون سے بیٹھ نہیں رہے تھے، اور پھر آپ سوچنے لگتے تھے کہ کیوں آپ کے پاس آرام کرنے کے لیے ایک منٹ بھی نہیں ہے ؟ کیوں آپ ان چیزوں سے لطف اندوز نہیں ہوسکتے ہیں؟‘
ثانیہ مرزانےمزیدکہا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ اب ہمیں وہ ایک منٹ مل گیا ہے کہ ہم اچھی چیزوں کی تعریف کرسکیں اور ساتھ ہی ان چیزوں کی بھی نشاندہی کرسکیں جن کی وجہ سے ہم پریشان ہیں ۔‘