• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کووڈ 19 کے باعث تعلیمی ادارے بند ہوئے تو طلبا کی تعلیم کے لئے ٹیکنالوجی اور انٹر نیٹ نے نئی راہ دکھائی۔ اب ہر گھر کمرہ جماعت بن چکا ہے۔گھر میں ایک سے زائد بچے آن لائن پڑھ رہے ہوں تو بیک وقت کئی کمرے اور برآمدے جماعت بن جاتے ہیں۔ زوم میٹنگ، گو گل کلاس روم، گوگل میٹ جیسی کمپیوٹر ایپس اس مقصد کیلئے استعمال ہو رہی ہیں۔ یہ صنعت ایڈٹیک یعنی ایجوکیشن ٹیکنالوجی کے نام سے جانی جاتی ہے۔ عالمی وباکے دوران ایڈٹیک ایپس نے تعلیم کا سلسلہ ٹوٹنے نہیں دیا۔ پاکستان میں کووڈ 19کے دوران آن لائن ایجوکیشن کیلئے سب سے زیادہ استعمال ہونیو الی ایپ زوم، پورا نام زوم ویڈیو کمیونیکیشن، دراصل ایک امریکن ٹیکنالوجی کمپنی ہے جس کا ہیڈ کوارٹرسان جوس کیلیفورنیا میں ہے۔ اس ایپ کو پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک فاصلاتی تعلیم کیلئے مفت استعمال کررہے ہیں۔ اس کے بانی ایرک یوان نے زوم کی بنیاد 21اپریل 2011 میں رکھی۔ 2020 میں کمپنی کی آمدن 2ارب 65کروڑ امریکی ڈالر سے تجاوز کر گئی تھی، جو کہ عالمی وبا کے دوران اس ایپ کی اہمیت کی نشاندہی کرتا ہے۔ دنیابھر میںآن لائن تعلیمی ٹیکنالوجی کی مانگ میں اضافہ ہوا جس کے باعث کروم بکس، آئی پیڈز اور لیپ ٹاپ کی خریداری میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ ایڈویک مارکیٹ رپورٹ اپریل 2021کے مطابق آئی ٹی کمپنیاں مانگ کے مطابق یہ اشیا تیا رکرنے سے قاصر ہیں۔ اکثر ممالک میں نظام تعلیم کو آن لائن چلانے کیلئے حکومتوں نے خصوصی بجٹ جاری کئے جوتعلیمی ٹیکنالوجی سے متعلق اشیا کی مانگ میں اضافے کا باعث بنا۔ انگلینڈ کی ایک کمپنی فیوچر سورس کے مطابق پانچ کروڑ سے زائد لیپ ٹاپ اور ٹیبلٹس بارہویں جماعت تک کے اسکولوں نے رواں سال خریدے جبکہ 2020 میں یہ تعداد3کروڑ 50لاکھ اور 2019 میں 3کروڑتھی۔ ہمسایہ ملک بھارت میں ایڈ ٹیک پرگزشتہ سال بھاری سرمایہ کاری کی گئی اور جاری بھی ہے۔ وہاں ایڈٹیک مارکیٹ رواں سال 14ارب ڈالر سے تجاوز کرگئی ہے۔ انڈیا کے 14لاکھ اسکولوں اور 51ہزارکالجوںکو آن لائن تدریسی نظام اپنانے کا چیلنج دیا گیا ہے۔ اگرچہ بڑے اسکولوں اور کالجوں میں آن لائن تدریسی نظام کی سہولیات پہلے بھی تھیں تاہم اتنے بڑے پیمانے اور لمبے عرصے کے لئے کام کرنے کے قابل نہ تھیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں آن لائن تعلیمی ٹیکنالوجی میں سال 2021 کے دوران 2ارب ڈالر کی اضافی آمدن کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ بھارت ایڈٹیکنالوجی کی برآمد سے بھی ایک ارب ڈالر کما رہا ہے۔ یہ ان کی مضبوط انفارمیشن ٹیکنالوجی صنعت کیلئے اہم اور خاص موقع ہے۔ انڈیا میں 25کروڑ اسکول جانے والے طلبا ہیں جو اب ٹیکنالوجی پر انحصار کر رہے ہیں۔ 2019 میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد 50کروڑ تھی جو جنوری 2021 میں 97کروڑ تک پہنچ گئی۔

حکومت پاکستان نے تعلیمی معاونت کیلئے ایک نیشنل پبلک ٹی وی چینل تعلیم گھر کے ذریعے نرسری تا ہائی اسکول کے طلبا کیلئے خصوصی نصابی پرگرام نشر کرنے شروع کئے۔ تاہم یکطرفہ ذریعہ ابلاغ ہونے کی وجہ سے اس کی افادیت ایک سوالیہ نشان رہی۔ حکومت ِ سندھ نے بھی ایک موبائل فون ایپ متعارف کروائی جس کا مقصد نرسری تا پانچویں جماعت کے طلباکی تعلیمی معاونت تھا۔ نجی اسکولوں نے اپنا اپنا طریقہ کار اختیار کیا۔ متوسط اور نچلے متوسط طبقے کی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے والے بیشتر نجی اسکول محض بذریعہ واٹس ایپ تدریسی عمل تک محدود ہو کر رہ گئے اورتعلیمی عمل برائے نام رہ گیا۔ یہ صرف اسکولوں کی عمارتوں کے کرایہ اور اساتذہ کی تنخواہوں کے لئے فیس اکٹھی کرنے کا ایک بہانہ رہ گیا۔ ان اسکولوں میں پڑھنے والے بیشتر طلباکے والدین، جو کورونا کی وجہ سے معاشی طور پر زیادہ متاثر ہوئے، نے بھی اکثر اسکولوں کو فیس دینا بند کر دیں۔ لہٰذا حکومت ایک یکساں پالیسی دینے میں ناکام رہی۔ اسکول چھوڑنےو الے طلبا کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ انہی نجی اسکولوں کے مالکان اور اساتذہ احتجاج کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور اسکول کھولنے کی مہم چلا رہے ہیں۔اس ضمن میں ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان نے مارچ 2020میں کوویڈ 19پالیسی گائیڈ لائن نمبر 5’آن لائن ریڈ ینس‘ کے نام سے ہدایات جاری کیں۔ 22نکاتی رپورٹ میں جامعات کو آن لائن تدریس جاری رکھنے کیلئے یونیورسٹی، نصاب، فیکلٹی، لائبریری، ٹیکنالوجی اور طلبا کے نام سے 8نکات پر مفصل ہدایات جاری کیں اور واضح کیا کہ آن لائن تدریس سے قبل یونیورسٹی اساتذہ نے باقاعدہ تربیت حاصل کی ہو۔ رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ یونیورسٹی متعلقہ تعلیمی ٹیکنالوجی انفراسٹرکچر حاصل کرے یعنی لرننگ مینجمنٹ سسٹم حاصل کرے۔ معاشی مسائل کے باعث حقیقت میں ایسا کم ہی ہوا اور زیادہ تر یونیورسٹی اساتذہ نے زوم اور گوگل میٹ پر پڑھانے کو ترجیح دی۔

ایک اچھی خبریہ ہے کہ وفاقی وزارت تعلیم عالمی بینک کے اشتراک سے 20کروڑ ڈالر کے منصوبے کا آغاز کرے گی جس کا مقصد آن لائن تعلیمی مواد تیار کرنا ہے اور پاکستان میں ایڈٹیک کی ترقی ہے۔ اس منصوبے کو تعلیمی پالیسی 2021 میں شامل کیا جائے گا اور اس کے بہتر نتائج حاصل کرنے کیلئے چھٹی سے آٹھویں جماعت کے نصاب میں کمپیوٹر کی تعلیم کو بطور لازمی مضمون شامل کیا جائے گا۔ اس ضمن میں وفاقی وزیر برائے تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت شفقت محمود نے ایجوکیشن ٹیکنالوجی کی صنعت سے وابستہ اہم افراد سے بریفنگ میں کہا کہ ٹیکنالوجی نیشنل تعلیمی پالیسی 2021 کا اہم ستون ہوگی۔ بطور استادکورونا کے بعد بھی ایڈ ٹیکنالوجی صنعت کا روشن مستقبل دیکھ رہاہوں۔لہٰذاانٹرنیٹ کی ہر طالب علم تک رسائی، پاکستان میں بنائی جانے والی ایپس پر انحصا ر کرنا، تمام سرکاری و نجی اداروں کے اساتذہ کی ٹیکنالوجی کے استعمال بارے تربیت تعلیمی پالیسی کا حصہ ہونی چاہئے۔ حکومت کو چاہئے کہ ماضی کے برعکس یو ٹرن لینے کی بجائے وفاقی وزارت تعلیم کے عالمی بینک کی 20کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کے منصوبے کو جلد از جلد عملی جامہ پہنائے اوراس ٹیکنالوجی کے مؤثراستعمال کو قومی تعلیمی پالیسی کا حصہ بنائے۔

تازہ ترین