• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریم عمران

 ہمارے ہاں بہت سے گھروں میں لڑکیوں کو یا تو بہت آزادی دی جاتی ہے کہ انھیں سسرال جانا ہے، اس لیے ابھی جیسا رہنا چاہیں رہنے دو، جہاں جانا ہے جائیں، جو پہننا ہو پہنیں، جتنا پڑھنا ہو پڑھیں۔ الغرض سب انہی کی مرضی پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ لڑکیوں کو اس لیے بالکل بھی آزادی نہیں دی جاتی کہ انھیں آخر کو سسرال جانا ہے۔ 

یہ زیادہ پڑھ کر کیا کرے گی؟ اچھا پہننا ہے، تو اپنے میاں سے ہی فرمائش کرنا، سہلیاں گھر خراب کرتی ہیں، اس لیے بس اپنے گھر میں ہی رہو، گھومنے کا وقت شادی کے بعد آئے گا۔ ابھی صرف گھر داری سیکھو، اس میں بھی بعضے گھروں میں ماں اور باپ کی تکرار چلتی ہے۔ باپ بیٹی کو رانی بنا کے رکھنا چاہتا ہے اور ماں شادی کے بعد کی زندگی پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہوتی ہے اور سمجھ دار بیٹیاں دونوں کو خوش رکھتی ہیں۔ 

گھر گرہستی سیکھنے کے ساتھ اعلیٰ تعلیمی مراحل بھی طے کرتی ہیں اور جہاں تک ممکن ہو اپنے کچھ خواب بھی پورے کر لیتی ہیں۔ لڑکی ہونا اپنے اندر ایک ذمہ داری ہوتی ہے، ماں باپ کی عزت سے لے کر کسی معاشرے کے رکھ رکھاؤ کی ترجمان ایک عورت کو تصور کیا جاتا ہے، اسے گھر سے آزادی ملی یا قید کر کے رکھا جائے۔ 

یہ احساس کہ خدا نے اسے عورت بنایا ہے، مرد کو اس کا نگہبان بنایا ہے عورت کو کبھی غلط ڈگر پر نہیں جانے دیتا، لیکن اسے قدم سنبھل کر رکھنے ضروری ہیں۔ گزرا ہوا وقت واپس نہیں آتا اور انسان بھی فطرتاً صحیح یا غلط نہیں ہوتا، ایسے ہی عورت کی طرف سے کی گئی کسی غلطی کو یہ معاشرہ ماضی کا حصہ بننے نہیں دیتا۔ اس لیے اسے اس ماضی کو اپنے ’حال‘ میں موجود رہتے ہوئے ہر حال میں جینا پڑتا ہے۔ یہاں اگر میں اپنے تجربے سے بتاؤں تو بچپن میں سبھی کی طرح میں بھی ایک معصوم سی بچی تھی۔ زیادہ شرارتیں بھی نہیں کرتی تھی۔ 

جیسے جیسے بڑی ہوئی، مجھے زیادہ روک ٹوک کا سامنا نہیں کرنا پڑا، سو جیسے چاہا، جو چاہا وہ کرنے کے لیے ماں باپ کو قائل کر لیا! کبھی رو دھو کر تو کبھی بھوک ہڑتال کر کے اور کبھی وہ خود ہی مان جاتے، لیکن بات ہمیشہ میری مرضی پوری ہونے پر ہی مکمل ہوتی تھی، یعنی میری ضد کے آگے وہ مجبور رہے اور میں یہ سوچتی رہی کے میرے ماں باپ کتنے دوستانہ ماحول میں رکھتے ہیں، ان کے محسوسات کا کبھی احساس ہی نہیں ہوا۔

بس اپنی خواہشات پوری ہونا مقصود رہا۔ہم جب بچپن سے جوانی میں داخل ہو رہے ہوتے ہیں، ہمارے لیے دنیا کی سب سے ضروری شخصیت ہماری اپنی ذات ہوتی ہے اور جب جوانی کا زعم کچھ ٹوٹنے لگتا ہے، عمر کچھ ڈھلنے سی لگتی ہے۔ زندگی کی 30 بہاروں کے بعد اگلے سال سے یہ کہا جانا چاہیے کے زندگی کی اکتیسویں خزاں دیکھ لی۔ کیوں کہ حقیقت یہی ہوتی ہے کہ عموماً اس عمر کے بعد پھر زندگی میں رنگ کم ہی باقی رہتے ہیں اور وہی موڑ ماں باپ کی اہمیت اور محبت کو حدت دیتا ہے، جب والدین کی نصیحت سننے کا دل چاہتا ہے۔ ان کی ڈانٹ اچھی لگنے لگتی ہے۔ 

ان کے گلے لگنے کا دل کرتا ہے، دنیا میں ہماری ہر کوتاہی کو خدا کے بعد معاف کرنے والی ہستی والدین ہی ہیں، جو کبھی اولاد کو اس کے غلط ہونے کا احساس ہی نہیں ہونے دیتے اور اس کی تمام غلطیوں کی تصحیح بہت خوبی اور ایمان داری سے کرتے ہیں۔ وہ بچیاں جو ابھی کم عمری میں ہیں، میری خواہش ہے کہ انھیں بہت پیار سے اچھے اور برے کا فرق بتا سکوں، انھیں یہ کہہ سکوں کہ ہر لمحے کو ایسے گزارو، جس کے بعد انے والا لمحہ گزرے ہوئے فعل کی بنیاد پر پُراعتماد ہو، ماں باپ کا فخر ان کی منشا پوری کر کے بنو، ان کے لیے صدقۂ جاریہ بنو، ضروری نہیں کہ زندگی اسی وقت آسان ہو، جب آپ اسے اپنے اصولوں پر گزاریں، بہت مرتبہ آپ کے اصول آپ کو وقتی خوشی دیتے ہیں۔

اس لیے قدرت نے بیٹی بنا کر جو ذمہ داری دی ہے، اسے بہ حسن وخوبی پورا کرو، وہ تجربہ جو ہمیں غلطیوں کے بعد حاصل ہوتا ہے، کاش اسے باقی سب محسوس کر کے کچھ سیکھنا شروع کر دیں، تاکہ زندگی بہتر ہو۔بچپن میں، میری ٹافی، چپس اور کھلونوں وغیرہ کی حد تک ضد محدود تھی، بڑے ہوتے ہوتے اس کی نوعیت بدلتی گئی، میری ضد کا یہ عالم تھا کہ ایک دن چھوٹے چھوٹے دانتوں سے اپنی مما کے گال پر بہت زور سے کاٹا۔۔۔! یقیناً انھیں بہت زیادہ تکلیف ہوئی ہوگی اور انھوں نے میری بات پھر بھی پوری کی ہوگی۔ایک بار میری ضد کو ختم کرنے کے لیے کسی نے ٹوٹکا بتایا کے بچی کو ریچھ پر بٹھا دو، سو مرتا کیا نا کرتا میری خالہ نے عادت چھڑانے کے لیے یہ بھی کرلیا۔ 

ان دونوں بندر اور ریچھ کا ’تماشا‘ دکھانے والے گلی گلی اتے تھے، سو ایسا کرنا آسان تھا، مگر اس سے افاقہ کیا ہوتا، ایسا لگا کہ یہ ٹوٹکا الٹا ہی ہوگیا۔ میں مزید ضدی ہوگئی، یہاں یہ سب اعتراف کرنا آج کی بچیوں کی اصلاح کرنا ہے۔ مجھے اکثر یہ بھی سننے کوملا کہ یہ بالکل باپ کی طرح ضدی ہے، اس وقت مجھے یہ سننا اچھا لگتا تھا، مگر آج میں یہ سمجھتی ہوں کہ بچوں کو کبھی اس طرح نہیں کہنا چاہیے۔ 

کبھی کبھی وہ ان باتوں سے حوصلہ پاکر اپنی عادت کو پختہ کر لیتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ انھیں اعتدال میں رہ کر قابو کریں۔آ ج کل کی نسل والدین کو کہتی ہے کے آپ کچھ نہیں جانتے اور وہ اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے ہیں، لیکن ماں ہمیشہ سب جانتی ہے، بیٹی سے دور رہ کے بھی اسے سب پتا ہوتا ہے اور کبھی کبھی اپنے بارے میں ماں سے کچھ ایسا سن کر حیرانی بھی ہوتی ہے کے انھیں کیسے معلوم۔ وہ بچے جن کے مطابق ان کے ماں باپ آج کے زمانے کو نہیں جانتے۔ 

اب جب وہ صاحب اولاد ہوں، تو یہ بات سمجھ لیں کہ انھیں سب جاننا پڑے گا، ہاتھ میں اپنا اسمارٹ فون تھما کر اپنے کام مکمل کرنے سے ان کی اولاد یقیناً غلط ڈگر پر نکل جائے گی۔ لڑکیوں پر روک ٹوک ضروری ہے، مگر انھیں ڈانٹ ڈپٹ میں بے عزتی نہ کریں، بلکہ انھیں ذمہ داری سمجھائیں، تاکہ انھیں اپنے عورت ہونے پر فخر بھی ہو اور وہ اس کردار کو بہتر طریقے سے نبھائیں، ان کی ’دوست‘ بنیں تاکہ وہ اپ سے اپنے راز بانٹ سکیں، آپ سے کچھ چھپا نہ ہو اور آپ اپنی بچی کی تصیح بھی کر سکیں۔ اسے دوست بن کر غلط کام سے روک سکیں، زیادہ آزادی کی طرح زیادہ روک ٹوک بھی اچھی نہیں، زمانے کے ساتھ چلنا ضروری ہے، مگر اپنی بنیاد پر قائم رہتے ہوئے۔

یہ سب باتیں کرنے کا مقصد کسی کو یہ حق دینا نہیں ہے کہ میرے بارے میں اچھی یا بری رائے قائم کریں، مقصد یہ ہے کہ شاید کوئی ان باتوں کو اپنا لے۔بیٹیاں بابا کی رانی ہوتی ہیں، ماں کا سکون ہوتی ہیں، بھائیوں سے نوک جھوک کر کے گھر میں رونق کا باعث ہوتی ہیں اور بیٹیوں کو جان سے عزیز رکھا جاتا ہے ، میری نظر میں بیٹیاں ساجھی ہوتی ہیں، ان کی عزت، ان کی قدر، ان کی حفاظت ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ اپنی بیٹی کو سینے سے لگا کر دوسرے کی بیٹی پر ظلم کرنا، اس کے ساتھ زیادتی ہے، اس رشتے کو صرف عزت دی جانی چاہئیے اور وہ اپنی عزت بنانے کا ہنر جانتی ہو یہ بھی ضروری ہے۔  

تازہ ترین