• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پختونخوا کا آنکھوں دیکھا حال

یوں تو پختونخوا میں حالات ماشاء اللہ ’’مثالی‘‘ ہیں لیکن کوہاٹ شہر کے مناظر دیدنی ہیں۔ لوڈشیڈنگ یہاں 12مہینے رہتی ہے، ایک گھنٹہ بجلی آتی ہے پھر چلی جاتی ہے۔ یو پی ایس بیکار کیونکہ ان کو پیٹ بھرنے کا موقع نہیں ملتا۔ ہوائی فائرنگ میں شہرپورے ملک سے آگے ہے، وزیروں، مشیروں کو بڑے خان صاحب پوچھتے ہیں مگر اس سے آگے نہیں بڑھتے، پولیس اہلکار آتے ہیں پیسے بٹور کر اپنے تھانے میں آرام فرماتے ہیں کیونکہ بقول فیڈرل حکومت پختونخوا کی پولیس آئیڈیل ہے، وزیرستان کے بےگھروں کے پاس انجانی دولت اتنی ہے کہ پورے کوہاٹ کی زمینیں خرید کر ان پر قلعہ نما بنگلے تعمیر کر رہے ہیں جبکہ سنا تھا کہ انہیں وزیرستان تیراہ کے علاقے میں نئے مکان بنا کر حکومت نے بسا دیا ہے، وزیرستان اور تیراہ کے باشندوں کے پاس ہر قسم کا ممنوعہ اسلحہ وافر ہے، اس لئے مقامی لوگ بےدست و پا دکھائی دیتے ہیں۔ تمام بڑے کاروباروں پر ان غیرمقامی لوگوں کا قبضہ ہے۔ کوہاٹ شہر جو کبھی لاکھوں میں انتخاب تھا اب حشر نشر کا سماں ہے، تھانوں کی عملداری خورد بین سے بھی نظر نہیں آتی، یہاں کوئی ٹیکس نہیں دیتا البتہ غریب لوگ ٹیکس بھی دیتے ہیں اور بجلی کا بل بھی، شہر پر بدمعاشوں کا قبضہ ہے۔ شہریار کے حلقے میں ہر چند وہ ہیں مگر نہیں ہیں، یہی احوال تمام پختونخوا میں ہے، پی ٹی آئی کے کرتا دھرتا اور کارکنوں کے کام بند نہیں ہوتے، عوام کے مسائل حل نہیں ہوتے، جنگلات کے وزیر کی کارکردگی کو درختوں سے محبت کرنے والے وزیراعظم پوچھیں کہ وہ کہاں ہیں، نہ جانے بڑی مقدار میں کوہاٹ میں کالا پیسہ اور اسلحہ کہاں سے آ رہا ہے؟ یہ ہے پی ٹی آئی کی آئیڈیل حکومت۔

٭٭٭٭

مافیا مافیا کر دی نی میں آپے مافیا ہوئی

بہت شور سنتے ہیں کہ حکومت مافیاز کو ختم کرنے کی کوشش میں رات دن مصروف ہے لیکن اس کے اندر مافیاز کی کالونیاں موجود ہیں اور وہ ان کے ذریعے ہی مافیاز کو ختم کر رہی ہے۔ کیا کبھی شر کے ذریعے شر ختم ہوا ہے؟ جن اہل ترین حکومتی منصب داروں کے حالات بہت تنگ تھے وہ زمین سے آسمان پر پہنچ گئے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنی آئندہ نسلوں کا بھی کام کر دیا ہے۔ ایک وزیر باتدبیر نے تو ٹاک شو میں اینکر کے سوال کے جواب میں یہ تک کہہ دیا کہ میں نے ایک اور شادی کرلی ہے، کیونکہ میرے ایک اور کولیگ نے بھی یہ سنت ادا کی ہے۔ حالانکہ سوال ان کی ناقص کارکردگی کے بارے میں تھا، خیر اب تو ان کو منظر سے ہٹا دیا گیا ہے مگر کیا اسٹاک میں کوئی اہل بھی ہے جس سے خلا پر ہو جائے گا، یہ تھا دیگ کا ایک دانہ، اس لئے ہم کہیں گے کہ قیاس کن زگلستانِ من بہار مرا ’’میرے چمن کو دیکھ کر میری بہار کا اندازہ لگا لیجیے‘‘۔ لگتا ہے بےنگاہ انتخاب باری باری سب درباریوں کو پیٹ آگ سے بھرنے کا موقع فراہم کر رہی ہے، خان صاحب کے زہد و تقویٰ کی قسم اگر یہی انداز گڈگورننس رہا تو کہا جاسکتا ہے ؎

گر ہمیں است مکتب و مُلا

کارِ طفلاں تمام خواہد شد

(اگر سکول کے استاذ کا یہ طریق ہے تو طالب علموں کا کام تمام ہوگا)

اسی مکتب میں دو درباری مُلا ایسے ہیں کہ وہ بقول عندلیبِ شیراز حافظ ؎

واعظاں کیں جلوہ برمحراب و منبر میکنند

چوں بخلوت میروندآں کارے دیگر میکنند

(یہ درباری مُلا منبر و محراب پر کیا کیا جلوے دکھاتے ہیں مگر جب اپنی خلوت گاہ میں جاتے ہیں تو ’’دوسرے کام‘‘ شروع کردیتے ہیں) ہماری گزارش اتنی سی ہے کہ اگر گڈگورننس کے لئے (Good Individuals) کو سامنے نہ لایا گیا تو پھر باقی جو عرصہ رہ گیا ہے تو نوشتہ دیوار پڑھ لیں کہ بڑی ہی کٹھن ہے ڈگر پنگھٹ کی۔

٭٭٭٭

کورونا اور منبر و محراب

ایس او پیز پر عملدرآمد کی ایک درخشندہ مثال ملاحظہ کیجئے۔ جمعہ المبارک کے روز ایک مسجد سے یہ اعلان سنا:کوئی کورونا نہیں آپ مسجد میں جوق در جوق آئیں، یہ کورونا ایک حکومتی فراڈ ہے، شانے سے شانہ ملا کر مسجد میں کھڑے ہوں اسی میں برکت ہے۔ میں نے ماتھا پکڑ لیا کہ کیا ان مولوی صاحب کو وبا کے دوران حضور سید العالمینؐ کی احادیث کا علم نہیں، وہ نہیں جانتے کہ حضرت عمرؓ وبازدہ شہر کو سیل کر دیتے تھے، جب تک عوام اس کورونا وائرس سے نجات کے لئے اجتماعی کوشش نہیں کریں گے اور حکومت پر تکیہ کرکے بیٹھے رہیں گے یہ موذی وائرس خوب پھلے پھولے گا اور ہر روز انہی مساجد سے اموات کا اعلان ہوتا رہے گا، کورونا اور مہنگائی کا وائرس ساتھ ساتھ چلتا رہے گا، قانون نافذ کرنے والے ادارے بالخصوص پختونخوا میں جو کارکردگی دکھا رہے ہیں وہ پی ٹی آئی کے اس دعوے کی نفی کرتے ہیں کہ ہم نے پختونخوا کی پولیس کو آئیڈیل بنا دیا ہے، شاید وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہم نے پولیس کو ’’آئیڈل‘‘ (بت) بنا دیا ہے جو پانچ سو روپے لے کر پتھر بن جاتی ہے، ایس او پیز پر عملدرآمد مجھے پختونخوا میں کہیں نظر نہیں آیا، یہاں جپھیاں اب بھی زور شور سے ڈالی جاتی ہیں، ہاتھ ملانا اتنا عام کہ گود میں آرام فرما بچہ بھی آپ کی طرف ہاتھ پھیلائے گا، چند دن پختونخوا میں رہنے کا موقع ملا جو دیکھا وہ ناقابل بیان ہے، پھر باقی ملک کا کیا حال ہوگا۔ خدا جانے، کوہاٹ اور راولپنڈی کے درمیان سڑک کا یہ حال کہ جس نے اپنی کار توڑنی ہو وہ بائی کار آئے اس کا اپنا بھی بائی پاس ہو جائے گااین ایچ اے کب اس سڑک کو مکمل کرے گا؟ یہ خدا ہی جانتا ہے، بہر حال کام بند پڑا ہے۔ پاکستان کے ایک سینئر صحافی اور اخبار کے مالک سے صدر ضیاالحق نے پوچھا تھا کہ ہر اخبار کے چیف ایڈیٹر نے سوال کیا مگر آپ متواتر خاموش ہیں۔ انہوں نے کہا مجھے صدر گرامی قدر رہنے دیں، لیکن جب صدر پاکستان نے بہت اصرار کیا تو بزرگ صحافی نے کہا میرا ایک ہی سوال ہے کہ ساڈی جان چڈ دیو، بہرحال اب صورت حال یہی ہے کہ لوگ ایکسپائری ڈیٹ کے منتظر ہیں۔

٭٭٭٭

انجامِ گلستاں کیا ہوگا؟

...oملک میں ایلیٹ کلاس دن دگنی رات چگنی ترقی کر رہی ہے، اور خط غربت کی لکیر مزید اونچی ہو رہی ہے، سفید پوش طبقہ بھی اس لکیر کے نیچے آ چکا ہے، کیونکہ ؎

ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے

انجامِ گلستاں کیا ہوگا

...oتصوف اور صوفی ازم کو زندہ کرنا ہے تو ان تمام برائے نام خانقاہوں کو ختم کیا جائے جہاں ایک برگزیدہ ہستی کی قبر کے سوا کچھ نہیں،اور اس قبر کو کیش کرکے یہ گدیاں اب دنیوی دولت سے اتنی مالا مال ہیں کہ ان کی جائیدادیں بیرون ملک بھی موجود ہیں، صوفیائے کرام تو سوکھی روٹی کھا کر عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھتے تھے آج ان جیسا ایک بھی نہیں۔

٭٭٭٭

تازہ ترین