• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قدرت ﷲ شہاب ’’شہاب نامہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ جنرل ایوب کے مارشل لاء کے نفاذ کے بعد جو سرکاری اعلانات، قوانین اور ریگولیشن جاری ہوتے اُن میں صرف حکومتِ پاکستان کا حوالہ ہوتا، اسلامی جمہوریہ پاکستان کا کہیں ذکر نہ ہوتا۔

شہاب صاحب لکھتے ہیں کہ وہ سمجھے کہ کوئی ڈرافٹنگ کی غلطی ہے لیکن تواتر سے ایسا ہونے پر اُنہوں نے صدر ایوب سے درخواست کی کہ اگر اجازت دیں تو وزارتِ قانون اور مارشل لاء ہیڈ کوارٹر کی توجہ اِس معاملہ کی طرف دلوائی جائے تاکہ اِس غلطی کو نہ دہرایا جائے۔

جواب میں جنرل ایوب نے کہا ’’تمھیں غلط فہمی ہوئی ہے۔ ڈرافٹنگ میں کسی نے کوئی غلطی نہیں کی بلکہ ہم نے سوچ سمجھ کر یہی طے کیا ہے کہ اسلامک ری پبلک آف پاکستان سے اسلامک کا لفظ نکال دیا جائے‘‘۔ شہاب صاحب نے پوچھا، کیا یہ فیصلہ ہو چکا یا ہونا ہے؟ جس پر صدر ایوب نے قدرے غصے میں اُنہیں کہا کہ ہاں فیصلہ ہو چکا، کل صبح سب سے پہلے مجھے یہ ڈرافٹ ملنا چاہئے۔

شہاب صاحب لکھتے ہیں کہ اُن میں اتنی ہمت نہ تھی کہ وہ جنرل ایوب سے وہیں کہتے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان سے اسلامی کا لفظ حذف کرنے والے آپ کون ہوتے ہیں؟ چپ چاپ گھر گئے، سوچ بچار کے بعد صبح کے قریب وہ پریس ریلیز تو تیار نہ کی جس کا حکم جنرل ایوب نے دیا بلکہ دو صفحوں کا ایک نوٹ لکھا جس کا لُبِ لباب یہ تھا کہ پاکستان کو اسلام سے فرار ممکن نہیں۔ اس ملک کی تاریخ پرانی، لیکن جغرافیہ نیا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ریڈ کلف لائن صرف اس وجہ سے کھینچی گئی تھی کہ ہم نے یہ خطہ ارض اسلام کے نام پر حاصل کیا تھا۔

اب اگر پاکستان اور اسلام کا نام الگ کر دیا گیا تو حدبندی کی یہ لائن معدوم ہو جائے گی۔ ہم پاکستانی اس وجہ سے ہیں کہ ہم مسلمان تھے۔ اگر افغانستان، ایران، مصر، عراق اور ترکی اسلام کو خیرباد کہہ دیں تو پھر بھی وہ افغانی، ایرانی، مصری، عراقی اور ترک ہی رہتے ہیں لیکن ہم اسلام کے نام سے راہ فرار اختیار کریں تو پاکستان کا اپنا الگ کوئی وجود نہیں رہتا۔

اس لئے اسلام ہماری طبع نازک کو پسند خاطر ہو نہ ہو، اسلام ہماری طرز زندگی کو راس آئے نہ آئے، ذاتی طور پر ہم اسلام کی پابندی کرتے ہوں یا نہ کرتے ہوں، حقیقت بہرحال یہی ہے کہ اگر آخرت کے لئے نہیں اسی چند روزہ زندگی میں خود غرضی کے طور پر ہی سہی، اپنے وطن کی سلامتی کے لئے ہمیں اسلام کا نام لے کر جمہوریہ پاکستان کے ساتھ اسلامک کا لفظ لگانے سے کسی کا ذہن قُرونِ وسطیٰ کی طرف جاتا ہے تو جانے دیں۔

دوسروں کی جہالت کی وجہ سے اپنے آپ کو احساسِ کمتری میں مبتلا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ شہاب صاحب لکھتے ہیں کہ اس نوٹ کے ساتھ ہی اُنہوں نے ایک الگ کاغذ پر اپنا استعفیٰ بھی لکھ دیا کہ خرابی صحت کی بنا پر کام کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔

اُسی صبح جب دفتر پہنچے تو صدر صاحب جو برآمدے میں ٹہل رہے تھے، نے اُنہیں دیکھتے ہی پوچھا ’’ڈرافٹ تیار ہے؟‘‘۔ جواب دیا تیار تو ہے لیکن ابھی ٹائپ نہیں ہوا۔

صدر نے ایسے ہی دکھانے کے لئے کہا، شہاب صاحب نے اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا نوٹ صدر صاحب کو تھما دیا جسے پڑھ کر پہلے وہ چونکے پھر ازسرنو پڑھ کر کچھ دیر خاموش بیٹھے رہے۔ پھر آہستہ سے بولے"Yes, You Are Right." چند روز کے بعد کچھ فائلیں لے کر شہاب صاحب صدر صاحب کے پاس موجود تھے جو اپنی ڈاک دیکھ رہے تھے۔ ایک خط پڑھ کر بولے۔ کچھ لوگ مجھے خط لکھتے ہیں، کچھ لوگ ملنے بھی آتے ہیں اور کہتے ہیں دنیا بدل گئی۔ اب ماڈرن ازم اور اسلام اکھٹے نہیں چل سکتے۔ میں ان سے کہتا ہوں "..... Pakistan has no espcape from Islam." شہاب صاحب لکھتے ہیں کہ اس کے بعد پے در پے اُن کے نوٹ کے کئی فقرے بھی صدر صاحب نے دہرائے۔ ’’اُن میں یہ عجیب صلاحیت تھی کہ اگر کوئی بات واقعی ان کے دل میں گھر کر جاتی تو وہ بڑی معصومیت سے اُسے اپنا لیتے‘‘۔

جو کچھ شہاب صاحب نے لکھا یہ وہ تلخ حقیقت ہے جس کا پاکستان گزشتہ 74برسوں سے سامنا کر رہا ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا، اس بات کا بھی یقین ہے کہ پاکستان کو اسلام سے جدا نہیں کیا جا سکتا اور اس ملک کی بقا کے لئے اس کا اسلام سے جڑا رہنا لازم ہے لیکن صرف پاکستان کے نام کے ساتھ ’’اسلامی‘‘ لکھنے سے ہم اپنے آپ کو دھوکہ تو دے سکتے ہیں مگر اُس مقصد سے غداری کے مرتکب ہو رہے ہیں جس کی بنیاد پر پاکستان بنا، جو ہمارے آئین کی روح ہے۔

پاکستان کے نام کے ساتھ صرف اسلامی لکھنے سے زیادہ اب ہمیں عمل کی طرف بڑھنا ہوگا، اُس دھوکے سے جان چھڑانا ہو گی جو ہم اپنے آپ کو گزشتہ سات دہائیوں سے دے رہے ہیں ورنہ نقصان ہمارا اور پاکستان دونوں کا ہوگا۔ یہ دھوکہ زیادہ دیر نہیں چل سکتا!

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین