آج پاکستانی عوام کی غالب اکثریت سماجی خوف وہراس سے دو چار ہے، اسکی بنیادی وجہ غیرمستحکم سیاسی نظام اور اس سے وابستہ اسٹیک ہولڈرز ہیں۔ ان اسٹیک ہولڈرز کی غرض و غایت چونکہ نظام کے استحکام سے نہیں، ذاتی، گروہی و طبقاتی استحکام سے ہے، اس لئے ہر طرف استحصالی عناصر موجود ہیں۔ یہ تمام یعنی حاکم طبقات، ان کے حلیف استحصالی عناصر ملک و ملت کا درد رکھنے کی بجائے ذاتی ملکیت و منفعت کا تصور لئے ہوئے ہیں۔ اس مملکت کے در و بام کا مگر کمال یہ ہے کہ اس میں ایسے ہی لوگ معتبر و برگزیدہ ہیں جو زور آور ہیں۔ یہ گاہے گاہے باہم زور آزمائی کا بھی شوق آزماتے ہیں لیکن ان تمام کا ہدف وہ غالب اکثریت ہے جنہیں انہوں نے مجبوریوں اور لاچاریوں میں جکڑ کر محض موت کے بےرحم حملوں سے بچنے کی تگ ودو میں مبتلا کررکھا ہے۔ سوال یہ ہے کہ مہنگائی کا عفریت طاقتوں کا جم غفیر رکھنے والی ریاست میں کس طرح یوں آزادانہ خون چوسنے کا سبب ہے؟ جس ملک کے ہر گھر کی فصیلیں اس قدر بےاعتبار ہوں کہ کسی بھی سطح کے طاقتوروں کے خلاف سرگوشی کرنے پر بھی جیسے جان جاتی ہو اُس ملک میں مہنگائی، ذخیرہ اندوز، آٹا و شوگر مافیا سے کیونکر آگاہ نہیں ہوا جا سکتا؟ ان پر ہاتھ ڈالنے میں کیا امر مانع ہے؟ اس لئے یہ حقیر فقیر اس بابت یہ سمجھتا ہے کہ اس میں ہر سطح کے طاقتوروں کی رضا و مفاد شامل ہے۔ یہ رومانوی تصور درست ہے کہ پسے و محکوم لوگ ہی انقلاب برپا کرتے ہیں لیکن یہاں کی شاطرانہ، بےرحم آزمودہ چالیں اس قدر نتیجہ خیز رہی ہیں کہ انقلاب تو کیا ووٹ کو عزت دو جیسے سلوگن بھی قصہ ماضی بن کررہ جاتے ہیں۔ ایسے نعرے دینے والے یا تو ایسے نعرے حکمت عملی کے تحت حسبِ منشا منفعت حاصل نہ کرنے کےسبب اس لئے دیتے ہیں کہ اس طرح وہ اپنی اہمیت کا احساس دلاکر پھر اقتدارکی چوکھٹ پر پہنچ سکتے ہیں یاپھر ان کا یہ سلوگن اخلاص پر مبنی ہوتا ہے تو ماحول یہ تفہیم کرانے میں کامیاب ہو جاتا ہے کہ موسم دیکھ کر سفر اختیار کرنے ہی میں بھلائی ہے۔ اس طرح اپنے اس سلوگن سے رجوع کرنےپر مجبور کر دیے جاتے ہیں۔ تو عرض مکرر یہی ہے کہ پھر انقلاب کیونکر برپا ہو، تبدیلی کیسے آئے، صبح نو کا آغاز کیسے ہو، یوں جمود و انحطاط کا پھر ملکی و عوامی ترقی سے کیا لینا دینا۔ 22خاندان تھے پھر 44بن گئے، اسی طرح طبقاتی تفریق کی خلیج آئے روز وسیع ہوتی رہی ہے اور یہ وسیع ہوتی رہےگی۔ اسٹیٹس کو برقرار رکھنے کیلئے عوام کو ایک کےبعد دوسرے آسرے میں رکھنے کی خاطر ایشو پر ایشو لائے جاتے ہیں، یہ سلسلہ یونہی دراز رہے گا، یہ فنکار جب دیکھتے ہیں کہ عوام دیسی ایشوز سے بدمزہ ہونے لگے ہیں، کچھ اپنے لئے بھی سوچنے لگے ہیں، تو رنگ آمیزی کیلئے عیارانہ طور پر بدیسی ایشوز امپورٹ کر لئے جاتے ہیں۔ یوں سالہا سال سے عوام ان میں منہمک ملک و ملت کے خائنوں سے غافل ہیں، ایسے ایشوز کی ساخت باخت، جعل و فریب میں مذہبی اشرافیہ سے لیکر سیاسی و غیرسیاسی اشرافیہ تک کا حصہ، بقدر جثہ ہوتا ہے۔ حکمران طبقات اور ان کے حلیفوں کے ایسے ہتھکنڈوں کی وجہ سے اونچے طبقات بلاخوفِ خدا دنیاوی ثمرات سے بہرہ ور ہوتے رہتے ہیں اور نچلے طبقات خدا شناسی و خدا پرستی کے باوجود غربت و افلاس کی چکی میں پستے چلے جاتے ہیں۔ ’’آدھا تیتر آدھا بٹیر‘‘ نما اس نظام کا کرشمہ یہ بھی ہے کہ ہر احتجاج یا تحریک کا فائدہ استحصالی طبقات کو ہی پہنچتا ہے، مولانا فضل الرحمٰن صاحب نے آزادی مارچ تو حکمرانوں سے آزادی کیلئے کیا تھا لیکن جہاں اُن کا یوٹرن حیران کن تھا تو اُس سے زیادہ حیرت انگیز امر یہ تھا کہ انہی دنوں حکومت کی جانب سے تاجروں کو وہ 100ارب روپے واپس کرنے کی خبریں عام ہوئیں جو ان سے ٹیکس کی مد میں لئے گئے تھے، اب اس کے بعد ان تاجروں نے مُڑ کر نہیں دیکھا۔ کہتے ہیں کہ یہ مدینےکی ریاست ہے، اس ریاست میں جہاں کورونا کی وجہ سے موقع پرست حکمرانوں نے اسے غریب کیلئے پروانہ موت بناکر رکھ دیا ہے، وہاں مافیاز کے ساتھ معزز کہلائے جانے والے تاجروں کی سفاکی بھی انسانیت سوز ہے۔ مختصر یہ کہ روزانہ کی بنیاد پر مہنگائی میں اضافہ جہاں حکومت کا اپنے حلیف طبقات سے چشم پوشی کو ظاہر کرتا ہے وہاں صاف عیاں ہے کہ بار بار حج و عمرہ کرنے والے تاجروں نے بھی اسے مال بنانے کا نادر موقع جان لیا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ اس ملک کی صنعت و حرفت، زراعت و تجارت گویا ہر شعبے پر حکمران طبقات ہی کا تسلط ہے، اب چاہے یہ حکومت میں ہو ںیا اپوزیشن میں، ان کے مفادات ایک ہیں، چینی کے نرخ بڑھنےسے صرف جہانگیر ترین کو فائدہ نہیں ہوتا اس سے زرداری صاحب سے لیکر شہباز شریف صاحب تک، ہر سیاستدان مستفید ہوتا ہے، پھر اپوزیشن کیوں اُس مہنگائی کو ایشو بنائے، حکومت سے باہر رہنے پر بھی جس سے وہ اربوں کما رہےہیں۔