• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اِن دنوں سرکاری شخصیات عوام کو یہ خوش خبری سناتی دکھائی دیتی ہیں کہ بس مشکل دن ختم ہونے کو ہیں اور موجودہ حکومت کی حکمتِ عملی کی وجہ سے ملک کی معیشت تیزی سے بہتری کی جانب گام زن ہے۔وزرا اور مشیران مختلف اعدادوشمار کے حوالے دے دےکرقوم کا خون بڑھارہے ہیں اور انہیں ’’تبدیلی‘‘ کی نوید سنارہے ہیں ۔ وفاقی حکومت کی جانب سے رواں مالی سال میں ملکی معیشت کے تقریباً چارفی صد کی شرح سے بڑھنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ موجودہ مالی سال کے اختتام سے تقریباً ایک ماہ قبل وفاقی حکومت نے ملکی معیشت کی شرح نمو کے عبوری اعداد و شمار جاری کیے ہیں جو وفاقی سطح پر کام کرنے والی نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی کی جانب سے جاری کیے جاتے ہیں۔

یہ دعویٰ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب تحریک انصاف کی حکومت کو اپنے سیاسی مخالفین کی جانب سے ملکی معیشت تباہ کرنے کے الزامات کا سامنا ہے۔حزب اختلاف کی سب سے بڑی سیاسی جماعت،پاکستان مسلم لیگ نواز کے دور حکومت کے اختتام پر جی ڈی پی کی شرح پانچ فی صد سے زیادہ تھی۔ تاہم موجودہ حکومت کے پہلے دو مالی برسوں میں جی ڈی پی کی شرح میں کمی دیکھی گئی اور گزشتہ برس یہ شرح منفی چارفی صد رہی تھی جس کی ایک وجہ کورونا وائرس سے معاشی سرگرمیوں میں تعطل اور سست روی بتائی گئی۔

تاہم رواں مالی سال میں اقتصادی ترقی میں تقریباً چارفی صد ترقی کا دعویٰ نہ صرف حکومت اور اس کے اپنے اداروں کے مقررہ کردہ اہداف سے زیادہ ہے بلکہ اس نے عالمی مالیاتی اداروں کے تخمینوں کو بھی مات دے دی ہے۔پاکستان میں معیشت کے ماہرین بھی اس ملکی معاشی ترقی میں تقریباً چارفی صد ترقی کو حیران کن قرار دیتے ہیں اور اسے ملکی معیشت کی اصل صورت حال سے متضاد بتاتے ہیں۔ان ماہرین کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ چوں کہ تین برسوں میں اقتصادی ترقی بہت نیچے چلی گئی تھی اس لیے ملکی معیشت میں ہونے والی کم ترقی کا ’’بیس ایفکٹ‘‘ بہت بڑا نظر آرہا ہے۔

نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی کی جانب سے رواں مالی سال میں جی ڈی پی کے تقریباً چار فی صد تک بڑھنے کے اعداد و شمار حکومت کی جانب سے مقرر کردہ جی ڈی پی کے ہدف سے تقریباً دوگنا ہیں۔یادرہے کہ حکومت نے مالی سال کےآغاز پر جی ڈی پی کا ہدف دو اعشاریہ ایک فی صد مقرر کیا تھاجب ملکی معیشت گزشتہ سال منفی ہو گئی تھی۔

کئی ماہرین ِ اقتصادیات کے مطابق تاہم تازہ ترین اعداد و شمار ملک کے مرکزی بینک کے اقتصادی ترقی کے تخمینے سے بھی زیادہ ہیں جس کے مطابق اس برس ملکی معیشت تین فی صد کی شرح سے ترقی کرے گی۔ماہرین کے بہ قول حکومت کے عبوری اعداد و شمار نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ، یعنی آئی ایم ایف کے تخمینے کو بھی پیچھے چھوڑ دیا جس کے مطابق شرح نمو دوفی صد رہے گی۔دوسری جانب عالمی بینک کے ڈیڑھ فی صد شرح نمو کے تخمینے سے بھی حکومتی جی ڈی پی کا نمبر بہت اوپر ہے۔

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے بہت کم شرح نمو کے تخمینے بھی غلط تھے، کیوں کہ وہ ملکی ترقی کی شرح نمو کو تین فی صد تک دیکھ رہے تھے ۔تاہم چارفی صد کا نمبر بہت حیران کن ہے۔وہ کہتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے صحیح یا غلط ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت کے بہ قول لوگوں کی جانب سے زیادہ خرچ کیا گیا جو رواں سال سات فی صد سے زیادہ رہا۔ان کے مطابق اس کی وجہ سے اشیا کی طلب بڑھی اور اسے پورا کرنے کے لیے پیداوار زیادہ ہوئی۔

ماہرین سوال کررہے ہیں کہ ایسے وقت میں جب اشیائے خورونوش کے نرخوں میں سولہ فی صد اضافہ ہواہےلوگ کیسے زیادہ خرچ کرسکتے ہیں۔سرکاری اعدادوشمار کے مطابق لوگوں کی جانب سے زیادہ خرچ کرنے کا نمبر دس برسوں میں بلند ترین سطح پر ہے۔حالاں کہ پچھلی حکومت کے دورمیں جب جی ڈی پی کی شرح نمو پانچ فی صد سے زیادہ تھی تو اس وقت لوگوں کی جانب سے خرچ پانچ فی صد سے کچھ زیادہ تھا،لیکن موجودہ حکومتی اسے سات فی صد سے زیادہ دکھا رہی ہے۔حالاں کہ ان دنوں لوگ کورونا وائرس کی وجہ سے مالی مشکلات کا شکار ہیں اور ان کی قوتِ خرید بہ ظاہر کم ہوئی ہے۔

پاکستان کی معیشت کے معاملات پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کے مطابق ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے بلکہ ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے کہ اعداد و شمار کو اپنی مرضی سے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جائے۔یہاں سوائے چند شعبوں کے، دوسروں کے اعداد و شمار کو اوسط پر لے کر اسے جی ڈی پی میں ظاہر کر دیا جاتا ہے۔ 

مثلاً لائیو اسٹاک کے شعبے کا سروے دس سال پہلے ہوا تھا اور اس کا ہر سال کا اوسط نکال کر جی ڈی پی میں ظاہر کر دیا جاتا ہے۔اسی طرح خدمات کے شعبے میں بینکنگ کے علاوہ دیگر شعبوں کا شمار نہیں ہوتا ہے۔ چھوٹی صنعتوں کو اس میں شامل نہیں کیا جاتا ہے۔ٹیکس کی وصولی کے اعداد وشمار کے علاوہ حکومتیں اقتصادی اہداف کے ضمن میں بھی اپنی مرضی کرتی رہتی ہیں۔مگر موجودہ معاشی حالات اور جی ڈی پی کا نمبر ان کے نزدیک مطابقت نہیں رکھتے۔

بعض اقتصادی ماہرین سرکاری اعداد و شمار کے بارے میں شبہات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اعداد و شمار کے ہیر پھیر سے اقتصادی ترقی کے دعوے پہلے بھی کیےجاتے رہے ہیں۔ پاکستان میں بیورو کریسی کسی بھی حکومت کو خوش کرنے کےلیے اس قسم کی خدمات فراہم کرنے پر آمادہ رہتی ہے اور سیاسی راہ نما اپنی کام یابی کے جھنڈے گاڑنے کے لیے انہیں استعمال کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ 

اس بارے میں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ پاکستان میں تمام شعبوں کی پیداواری صلاحیت کا سالانہ سروے نہیں کیا جاتا بلکہ بعض شعبوں میں تو دس سال سے کوئی سروے ہوا ہی نہیں۔اس صورت میں سرکاری اعداد و شمار تیار کرنے کے لیے متعلقہ شعبے کی پیداواری صلاحیت میں سالانہ ممکنہ اضافے کا تخمینہ لگا کر اوسط نکال لی جاتی ہے اور اسے اعداد و شمار میں شامل کرلیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ طریقہ حقیقی نہیں بلکہ جعلی ہوتا ہے جس سے کسی ملک کی اقتصادی صحت کے بارے میں درست اندازہ نہیںلگایا جاسکتا۔

جی ڈی پی کا جھگڑا

کسی ملک کی مجموعی قومی پیداوار یا جی ڈی پی کا حساب مینوفیکچرنگ، خدمات اور زراعت کے شعبوں کی مجموعی پیداوارسے لگایاجاتا ہے۔ ان تمام شعبوں کی پیداوار کو اکٹھا کر کے ان کی اوسط نکالی جاتی ہے۔ اگر جی ڈی پی بڑھ یا گھٹ رہی ہو تواس کا یہ مطلب لیا جاتا ہے کہ تمام شعبوں میں اضافہ یا کمی نہیں ہو رہی ہے بلکہ کچھ شعبے بہت زیادہ اضافہ دکھا رہے ہوتے ہیں اور کچھ شعبوں میں کمی دیکھنے میں آ رہی ہوتی ہے۔

ماہرینِ معیشت کے مطابق کسی ملک میں پیدا ہونے والی مصنوعات، ان کی کھپت، خدمات وغیرہ جی ڈی پی کا حصہ ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ملک میں بسنے والے لوگوں کی مجموعی آمدن بھی اس کا حصہ ہوتی ہے۔جی ڈی پی دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک کو حقیقی جی ڈی پی کہاجاتا ہے اور دوسری کو معمولی ۔حقیقی جی ڈی پی میں مصنوعات اور خدمات کی پیداوار اور ان کی قیمتوں کا ایک مخصوص سال سے گزشتہ سال کے مقابلے میں موازنہ کیا جاتاہے۔لیکن معمولی جی ڈی پی میں صرف ان کی پیداوار کو دیکھا جاتا ہے۔ آئی ایم ایف کے مقرر کردہ معیارکے مطابق پاکستان میں بھی دنیا بھر کی طرح جی ڈی پی کا یہی فارمولہاستعمال کیا جاتا ہے۔وفاقی محکمہ مالیات یا فنانس ڈویژن ہر سال بجٹ میں جی ڈی پی کا تخمینہ دیتا ہے اور مالی سال کے اختتام پر اقتصادی سروے میں اس سال کی جی ڈی پی کی شرح میں اضافے یا کمی کے بارے میں بتاتا ہے۔

جی ڈی پی کی پیمائش کے تین طریقے ہیں۔اوّل، صنعت، زراعت اور خدمات کے شعبے میں مجموعی پیداوار۔دوم، مصنوعات اور خدمات کی مجموعی کھپت اور استعمال۔سوم، آمدن کی مجموعی مالیت۔ مصنوعات اور خدمات کی مجموعی پیداوار کو لے کر دیکھا جاتا ہے کہ اس میں گزشتہ برس کے مقابلے میں کتنا اضافہ یا کمی ہوئی ہے۔

مثلاً اس سال سیمنٹ اور گندم کی پیداوار میں گزشتہ سال کے مقابلے میں کیا رجحان رہا۔کھپت اور استعمال پر جی ڈی پی کی پیمائش کے بارے میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ مصنوعات کی پیداوار تو ہوئی، لیکن اس کی فروخت اور کھپت کی صورت حال کیا رہی۔ اسی طرح آمدن کے ضمن میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ کتنی آمدن ہوئی،کیوں کہ آمدن ہوگی تو لوگ مصنوعات خریدیں گے۔

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی جی ڈی پی ملکی معیشت کی مجموعی حالت کا اندازہ لگانے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ جب حکومت جی ڈی پی کا ہدف مقرر کرتی ہے تو اسٹیٹ بینک آف پاکستان اس کے مطابق ملک میں شرحِ سود کا تعین کرتا ہے تاکہ ملکی معیشت کا پہیہ چلانے کے لیے بینک سستے قرضے فراہم کر سکیں۔ تاہم اس کے ساتھ اسےمنہگائی کی شرح پر بھی نظر رکھنا پڑتی ہے تاکہ پیداوار میں اضافے کے ساتھ منہگائی کی شرح بھی قابو میں رہے۔

اگر ملک میں کساد بازاری ہو جائے تو اس صورت میں جی ڈی پی میں اضافے کے لیے حکومت مراعاتی پیکج لاتی ہے۔ اس میں ٹیکسوں کی شرح کم کی جاتی ہے اور شرحِ سود میں کمی لائی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ قواعد و ضوابط میں نرمی کی جاتی ہے تاکہ ملک کا پیداواری شعبہ متحرک ہو اور ملازمتیں پیدا ہونے کے ساتھ جی ڈی پی میں بھی اضافہ ہو سکے۔اس کی مثال موجودہ حالات ہیں۔

ماہرین کے مطابق جی ڈی پی کی شرح میں اضافہ یا کمی ملک کی معیشت میں ترقی یا خسارے کا اصل پیمانہ نہیںہے۔در اصل یہ نمو نہیں بلکہ نمو کے معیار کی جانب اشارہ کرتی ہے۔مثلا اگر پیداوار زیادہ ہے لیکن اس کی طلب نہیں تو یہ جی ڈی پی میں معیاری اضافے کی نشان دہی نہیں کرتا۔ اس لیے جی ڈی پی میں ایسا اضافہ پائے دارگردانا جاتا ہے جو آپ کی مصنوعات اور خدمات کو اندرون و بیرون ملک کھپا رہا ہو۔اسی طرح ایسا اضافہ بھی معیاری نہیں قراردیا جاتا جو پیداوار میں تواضافہ کر رہا ہو، لیکن اس شرح سے ملازمتیں پیدا کرنے سے قاصر ہو۔

پاکستان کے جی ڈی پی کے ضمن میں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ یہاں غیر رسمی معیشت یا بلیک اکانومی جی ڈی پی کا حصہ نہیں ہے۔یہاں چھوٹا کاروبار دستاویزی معیشت کا حصہ نہیں ہے لہذا اس کی سرگرمیاں جی ڈی پی کا حصہ قرار نہیں پاتی ہیں۔

ملک کی جی ڈی پی یعنی مجموعی قومی پیداوار کی شرح صنعت، زراعت اور خدمات کے شعبوں میں کارکردگی کو دیکھ کرطے کی جاتی ہے۔حکومت کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق موجودہ مالی سال میں اہم فصلوں کی شرح نمو 4.65 فی صد رہی اور گندم، چاول اور مکئی کی تاریخی پیداوار ہوئی۔گنّے کی فصل کی پیداوار دوسری بڑی پیداوار رہی۔ گندم کی پیداوار کی شرح نمو 8.1 فی صد، چاول کی13.6فی صد، گنے کی شرح نمو 22 فی صد اور مکئی کی فصل کی شرح نمو 7.38 فی صد ریکارڈ کی گئ۔تاہم کپاس کی فصل کی پیداوار میں کمی ہوئی اور اس کی شرح نمو منفی 22.8 فی صدرہی۔ اسی طرح کاٹن جننگ کی پیداوار کی شرح کم ہو کر 15.6 فی صد پر آگئ۔

دیگر اجناس میں سبزیوں، پھلوں اور چارے کی پیداوار زیادہ ہوئی۔ ان کی پیداوار کی شرح 1.41 فی صد رہی۔ مویشیوں (لائیو سٹاک) کی پیداوار کی شرح نمو 3.1 فی صد رہی ۔جنگلات کی شرح نمو1.4فی صد ریکارڈ کی گئی۔ صنعتی شعبے کی شرح نمو 3.57 فی صد متوقع بتائی گئی ہے۔سرکاری اعدادوشمار کے مطابق لارج اسکیل منیوفیکچرنگ کے شعبے میں جولائی سے مارچ 2021 کے درمیان زبردست نمو دیکھنے میں آئی اور یہ 9.29 فی صد ریکارڈ کی گئی۔بجلی اور گیس کے شعبے کی نمو میں کمی ہوئی جو 22.96 فی صدریکارڈ کی گئی۔ تعمیراتی شعبے کی شرحِ نمو میں اضافہ ہوا اور یہ 8.34 فی صد بتائی گئی ہے۔رواں مالی سال میں خدمات کے شعبے کی شرحِ نمو 4.43 فی صد متوقع ہے۔

سرکاری اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ برس جی ڈی پی کا حجم 41556 ارب روپے تھا۔ اسی طرح ملک کی فی کس آمدن میں بھی اضافے کا دعویٰ کیا گیا ہے جو حکومت کے مطابق اس سال 1543 ڈالرز ہو گئی جو گزشتہ برس 1369 ڈالرز تھی۔

اقتصادی اشاریے

وزیر توانائی حماد اظہر نے اقتصادی ترقی کے ضمن میںغیر متوقع اضافے کے جو تین اسباب پیش کیے ہیں، ماہرینِ اقتصادیات کے مطابق وہ عبوری نوعیت کے اشاریے ہیں اور انہیں وسیع اقتصادی تصویر سے ہٹ کر نہیں دیکھا جاسکتا۔ مثلازر مبادلہ کے ذخائر میں اضافے کو مثبت پیش رفت سمجھنے سے پہلے یہ بھی دیکھ لینا چاہیے کہ یہ وسائل کیسے فراہم ہوئے ہیں اور ان میں قلیل المدت یا وسیع المدت قرض کی صورت میں لیے گئے وسائل کی شرح کیا ہے۔ اگر سعودی عرب کی طرح کسی دوسرے قرض خواہ نے بھی اچانک اپنی رقم واپس مانگ لی تو پاکستانی معیشت اس سے کیسے نبرد آزما ہوگی اور اس کا عمومی اقتصادی صحت پر کیا اثر مرتب ہوگا۔ 

اسی طرح ترسیلاتِ زر میں اضافے کا کریڈٹ لینے سے پہلے یہ بھی دیکھ لینا چاہیے کہ اس اضافے کی بنیادی طورسے دو وجوہات ہیں۔ اوّل،ایف اے ٹی ایف کے اصرار پر ہونے والی قانون سازی کی وجہ سے اب زیادہ تر ترسیلات بینکس کے ذریعے ہونے لگی ہیں۔یہ معیشت میں حقیقی اضافہ نہیں ہے بلکہ پہلے جو ریال اور درہم ہنڈی کے ذریعے آتے تھے اب وہ بینکس کے ذریعے آرہے ہیں۔اس طرح ان ترسیلات میں اگر اس وقت اضافہ ہورہاہے تو ان میں اچانک کمی بھی واقع ہوسکتی ہے۔ 

درحقیقت یہ حکومت کی نادانی ہے کہ وہ بجائے ٹھوس اعدادوشمار کے محض ان اسباب پرتکیہ کررہی ہے جن کا اختیار دیگر ہاتھوں میںہے۔ماہرین کے بہ قول معیشت اسی وقت درست ہوگی جب عام آدمی کی زندگی میں سکون ہوگا اور وہ دو وقت کی روٹی آرام سے کما سکے گا۔منہگائی اور افراط زر کی موجودہ صورت حال کو دیکھا جائے تو حکومت کو یہ ہر گز زیب نہیں دیتا کہ وہ اس طرح کے دعوے کرے۔

اعدادوشمار کا گورکھ دھندا اور عام آدمی

پاکستان جیسے ممالک میں معیشت کا کھیل اعداوشمار کا گورکھ دھندا ہوتا ہے،جسے سمجھنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔ اعدادوشمار کے گورکھ دھندوں اور جی ڈی پی اور جی این پی کی شرحِ نمو کی بحث میں یہ بات نظر انداز کردی جاتی ہے کہ عام آدمی کو اقتصادی اشاریوں سے نہیں بلکہ روزمرہ کی صورت حال سے اقتصادی بہتری کا اندازہ ہوتا ہے۔منہگائی اوربے روزگاری میں اضافہ کی وجہ سے ہم وطنوںکی قوّتِ خرید کم ہوئی ہے اس لیے عمومی طور سے معاشی ابتری دیکھی جاتی ہے ۔ 

عام لوگ بھی اس کی تائید کرتے ہیں کیوں کہ کسی گھر میں بے روزگاری کی وجہ سے آمدن کم ہوئی ہے تو کہیں منہگائی کی وجہ سے پہلےہی سے محدود گھریلوبجٹ میں مزید کمی کردی گئی ہے۔بہت سی ضرورتوں کو نظر انداز کرکے صرف کھانے پینے کی اشیا کی خریداری پر زیادہ آمدنی صرف ہوجاتی ہے۔ ایسے میں علاج معالجے اور بچوں کی تعلیم جیسے اہم ترین اخراجات کےلیے پیسے نہیں بچتے۔ ملک میں جب بڑی تعداد میں لوگ اس صورت حال کا شکار ہوں تو وہ اقتصادی ترقی کی تصدیق کیسے کرسکتے ہیں۔

معیشت میںبہتری کا مطلب عام آدمی کی زندگی میں بہتری ہے۔ تاہم منہگائی کے حوالے سے 2020 بہت مشکل سال تھا اور2021بھی ایسا ہی نظر آتا ہے ۔ ڈالر کی بڑھتی ہوئی قدر نے ہرشئے کو پَر لگا دیے ہیں۔ اگر ڈالرکی قدر دس فی صد بڑھتی ہے توبازارمیں اشیا کے نرخ اس سے کئی گنا بڑھا دیے جاتے ہیں اورنہایت تکلیف دہ بات یہ ہے کہ کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہے۔ کبھی آٹے کی قلت، کبھی شکر بازار سے غائب اور کبھی ٹماٹرکے نرخ آسمان سے باتیں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔جولائی 2020ء میںمنہگائی کی شرح 9.3فی صد تھی اور سرکاری دعوؤں کے باوجود ستمبر میں یہ شرح9فیصد تھی۔2021 کے اوائل میں یہ شرح بارہ فی صد سے بھی اوپر چلی گئی تھی۔

بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے مسلم لیگ نون بھی کُل ملکی پیداوار (جی ڈی پی) میں مسلسل اضافے کے دعوے کرتی رہی تھی اور سی پیک کے تحت میگا پراجیکٹس اورمنہگائی کی شرح میں کمی کو ملک کی اقتصادی ترقی اور اپنی کام یابی کی نشانی کے طور پر پیش کرتی رہی۔ لیکن پاکستان کےلوگوں نے یہ اس وقت بھی دیکھا اورا ٓج بھی دیکھ رہے ہیں کہ ان نام نہاد اعدادوشمار سے ان کا پیٹ بھرتا ہے اور نہ ہی ان کے معاشی مسائل میں کوئی کمی آتی ہے کیوں کہ ہر دورِ حکومت میں بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافہ، روپے کی قدر میں کمی اور اندرونی و بیرونی قرضوں میں اضافہ ہوتا ہے جس کا نتیجہ عوام کمر توڑ منہگائی کی صورت میں بھگتتے ہیں۔ 

درحقیقت یہ تمام اقتصادی اعدادوشمار عوام کی حقیقی معاشی صورت حال کی عکاسی نہیں کرتے، لہٰذا ان میں آنے والے کسی بھی اتار چڑھاؤسے عوام کی اکثریت کی زندگیوں پر کوئی مثبت اثر نہیں پڑتا، بلکہ ان کی معاشی بدحالی اور مسائل میں اضافہ ہی ہوتا رہتا ہے۔ ایسا اس وجہ سے ہوتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام دولت کی پیداوار بڑھانے پرتو بھر پور توجہ دیتا ہے، لیکن اس کی منصفانہ تقسیم اس کا ہدف ہی نہیں۔

حکومت کے دعوے اقتصادی ترقّی نہیں،ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی،

ممتاز ماہرِ اقتصادیات

اقتصادی ترقّی اور شرح نمو میں فرق ہوتا ہے۔آج یہ بات کی جارہی ہے کہ معیشت میں گزشتہ برس کے مقابلے میں کتنی نمو ہوئی ہے۔یہ دراصل شرح نمو کی بات ہے۔ اگرعوام پر ٹیکسز کا غیر ضروری بوجھ ڈال کر اورقرضے لے کرایسا کیا جائے تو وہ اقتصادی ترقی نہیں کہلاتی۔ اقتصادی ترقی وہ ہوتی ہے جس میں عوام پر قرضوں کا غیر ضروری بوجھ نہ ڈالا جائے،اقتصادی ترقی کے ثمرات عوام تک پہنچیں، محاصل کا نظام منصفانہ ہو،ملک میں غربت میں کمی آئے،لوگوں کوصحت،تعلیم،ٹرانسپورٹ کی سہولت ملے،انصاف ملے، ان کا ضمیر سرکاری پالیسیز اور بے انصافی کی وجہ سے بار بار کچلا نہ جائے۔

اگر لوگوں کی فی کس آمدن میں اضافہ نہ ہو تواسے اقتصادی ترقی نہیں کہہ سکتے،ہاں اقتصادی شرح نمو میں اضافہ کہہ سکتے ہیں۔ یہاں توخود اسٹیٹ بینک قانون توڑ کر اورحکومت عوام پر غیر ضروری بوجھ ڈال کر یہ سب کررہی ہے۔حکومت نےبے تحاشا قرضے لیے ہیں اور ترقیاتی اخراجات کم کرکے ایسا کیا گیاہے۔حالاں کہ ترقیاتی اخراجات کم کرنے سے روزگار کے مواقعے کم ہوجاتے ہیں۔

یہاں صوبے زرعی آمدن پر ٹیکس نہیں لگانا چاہتے ۔ خیبر پختون خوا میں پی ٹی آئی نے بھی اپنی پانچ برس کی صوبائی حکومت میں وہ ہی پالیسیز پنائیں جو دیگر صوبوں کی تھیں۔وفاق اور صوبے گٹھ جوڑ کے ذریعے ایسا کرتے ہیں اور پی ٹی آئی نے بھی ایسا ہی کیا۔

موجودہ حکومت نے ڈھائی برسوں میں جو کچھ کیا اس سے اقتصادی شرح نمو میں اضافہ تو نظر آجاتاہے، لیکن اسے اقتصادی ترقی نہیں کہا جاسکتا۔یہاں قانون کی خلاف روزی کرکے ٹیکس ایمنسٹی دی گئی۔ایسی پالیسیز سے طاقت وروں کو تو ریلیف مل جاتا ہے لیکن عوام کو کچھ حاصل نہیںہوتا۔ٹیکیس ایمنسٹی سے تاجروں، صنعت کاروں، جاگیرداروں، بینکس، آٹا، چینی، پراپرٹی مافیا وغیرہ کو توفائدہ ہوتاہے، لیکن عوام کے ہاتھ کچھ نہیں آتا ۔ ان مافیاز کا حکومت کے ساتھ اور حکومت کا آئی ایم ایف کے ساتھ گٹھ جوڑ ہوتا ہے۔

اقتصادی شرح نمومیں اضافے کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ دیکھا جاتا ہے کہ زرعی شعبے،لارج اسکیل مینو فیکچرنگ ،خدمات کے شعبے سے کتنا حصہ آیا،افراط زر یا منہگائی کتنی ہے۔اقتصادی ترقی کا جائزہ لیتے ہوئے یہ دیکھاجاتاہےکہ فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ کتنی آئی ، کتنے قرضے لیے گئے، ترقی برآمدات سے ہوئی یا درآمدات سے۔آمدن اور اخراجات میں کتنا فرق ہے ، بالواسطہ ٹیکسز کتنے ہیں،جی ڈی پی کی شرح سے قرضوں کا تناسب کتنا ہے،کتنے بچے اسکول نہیں جارہے،صحت اور تعلیم کی سہولتوں کا کیا حال ہے۔

آج حکومت دعوے کررہی ہے کہ اس کی پالیسیز کی وجہ سے اقتصادی شرح نمو بڑھی ہے، لیکن اسٹیٹ بینک کے گورنر نے صاف لفظوں میں کہا ہے کہ ایسا اسٹیٹ بینک کی پالیسیز کی وجہ سے ہوا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک نے قوانین اور آئین کی خلاف ورزی کی ہے۔ہمارے بینکس کےنفع اور نقصان کے کھاتے داروں کی تعدادسوا دو کروڑ سے زیادہ ہے۔وہ نفع اور نقصان میں شریک ہوتے ہیں۔لیکن ایک جانب اسٹیٹ بینک نے شرح سود کم کرکے بچت پر منافعے کی شرح کم کردی جس سے عام آدمی کو پانچ سو ارب روپے کا نقصان ہوا۔اور دوسری جانب قرض لینے والے ستّر ہزار افراد کو کم شرح سود پر قرض ملنے سے فایدہ ہوا۔اسی طرح تعمیراتی صنعت میں سرمایہ کاری کرنے والوں کے لیے یہ چھوٹ دی گئی کہ کالا دھن لگالو کوئی نہیں پوچھے گا اور اس رعایت میں توسیع دیتے جارہے ہیں۔اس سے عام آدمی کو کوئی فایدہ نہیں مل رہا۔

المختصر ،آج حکمت کی جانب سے جو دعوے کیے جارہے ہیں اسے اقتصادی شرح نمو میں اضافہ تو کہا جاسکتا ہے،اقتصادی ترقی نہیں کہہ سکتے ۔اقتصادی ترقی وہ ہوتی ہے جس میں عوام کی آمدن بڑھے،روزگار کے مواقعے پیدا ہوں،صحت، تعلیم، ٹرانسپورٹ ، روزگار اور انصاف کی بہتر سہولتیں ملیں،منہگائی اور ٹیکسز کم ہوںاور غریب آدمی کے لیے جیناآسان بنایا جائے۔

تازہ ترین