عالمی یوم ماحولیات کی مرکزی تقریب کا پاکستان میں انعقاد اور اس موقعہ پر چین، برطانیہ اور دیگر عالمی رہنمائوں بالخصوص اقوام متحدہ کے سیکرٹری انتونیو گوتریس کے بذریعہ ویڈیو پیغامات اس تقریب میں شرکت یقیناً پاکستان کیلئے اعزاز ہے اور یہ بھی درست ہے کہ اس سے قبل پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلیوں پر اس سطح کی توجہ نہیں دی گئی تھی اور وطن عزیز میں اس تبدیلی اور اس حوالے سے بین الاقوامی توجہ کا اعزاز موجودہ حکومت کو ہی حاصل ہوا ہے۔
اب یہ الگ بات کہ موجودہ حکومت کا یہ دعویٰ ہے کہ اس نے صرف صوبہ سرحد میں پانچ برس میں ایک ارب درخت لگائے اور اپوزیشن اس دعوے کو مسترد کرتی ہے لیکن اطلاعات یہ ہیں کہ پاکستان اپنی کاوشوں کے بدلے میں کچھ غیر ملکی قرضوں کوختم کرانے کا طلبگار ہے تاکہ وہ تحفظ ماحولیات کیلئے اپنی کاوشیں جاری رکھے گو کہ پاکستان کی جانب سے اس طلب کا اظہار پہلے خود وزیراعظم نے اپنے خطاب میں کرنا تھا لیکن بعد میں یہ فیصلہ تبدیل ہوا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ 2023 تک ماحول کی بہتری کیلئے وہ ایک ارب ڈالر خرچ کرنا چاہتی ہے۔
جس کیلئے بھی ضروری ہوگا کہ اسے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے مدد ملے یا پھر واجب الادا قرضوں میں ریلیف۔ حکومتی ذرائع کے مطابق اب اس حوالے سے چار ممالک سے باضابطہ طور پر رابطہ بھی ہوا ہے۔ تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی ایسا ممکن ہے تو اس کا جواب ہے کہ ماضی میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں گو کہ ان کی نوعیت مختلف تھی۔
مثلاً صرف تعلیم کے شعبے میں پاکستان نے رواں سال تک کینیڈا، جرمنی ناروے سے کروڑوں ڈالر معاف کرائے ہیں اسی طرح2005 میں آنے والے زلزلے میں صرف بیلجیئم نے گھروں کی تعمیر اور زلزلہ زدگان کی بحالی کیلئے دو کروڑ یورو سے زیادہ کے قرضے معاف کئے تھے لیکن ماحول کی تبدیلی کے شعبے میں پاکستان کے حوالے سے ایسی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔
اس حوالے سے22 ترقی یافتہ ممالک کے ارکان پر مشتمل’’ پیرس کلب‘‘ جو پسماندہ اور ضرورتمند ممالک کو قرضے فراہم کرتے ہیں۔ وہ ماحولیات کے لئے کئے جانے والے پاکستان کے اقدامات کے پیش نظر پاکستان کو قرض فراہم کر سکتے ہیں یا واجب الادا قرضوں کو معاف کر سکتے ہیں۔ پاکستان جو اس وقت قرضوں کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے اور اس کی معیشت کو بے شمار چیلنجز کا سامنا ہے جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ مارچ 2021 تک پاکستان کا کل بیرونی قرضہ 106 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے اگر ماحولیاتی خدمات کے صلے میں حکومت بیرونی قرضوں کی ادائیگی میں معافی یا کوئی بڑا ریلیف حاصل کر لیتی ہے تو وزیراعظم کے اس اقدام کو پاکستان کیلئے ایک بڑی کامیابی سمجھا جائے گا۔
قومی اسمبلی کا بجٹ اجلاس شروع ہو چکا ہے۔ وفاقی بجٹ11 جون کو وزیر خزانہ شوکت ترین پیش کرینگے۔ بجٹ پیش کرنے تک اپوزیشن اور حکومت کی تمام سیاست اسی حوالے سے موضوع بحث رہے گی۔ جس کا آغاز ہو چکا ہے بلکہ اپوزیشن کے بعض حلقوں نے تو بجٹ سے متعلق اپنے پروگراموں میں بجٹ پیش کئے جانے سے پہلے ہی ناکام، مسترد اور اسے آئی ایم ایف کا بجٹ قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ وزیر خزانہ کا کردار محض آئی ایم کا بجٹ پڑھنے کا ہوگا۔
حالانکہ حکومت کی پہلے سے طے شدہ حکمت عملی کے تحت موجودہ بجٹ میں عوام کو خاصا ریلیف دینے کے منصوبے پر عملدرآمد کیا جائے گا۔ جس میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے سمیت روزمرہ کے استعمال کی متعدد اشیا کی قیمتوں میں کمی کا اعلان متوقع ہے لیکن ماضی کی جمہوری اور پارلیمانی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے بجٹ تقاریر کے دوران الزامات، شور شرابے، ہنگامے کارروائی کا بائیکاٹ اور واک آئوٹ کے مناظر بھی دہرائے جائیں گے دوسری طرف جوں جوں بجٹ نزدیک آرہا ہے اپوزیشن کے حکومت پر دبائو میں اضافہ ہورہا ہے۔
اس حوالے سے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے خاصا جارحانہ انداز اختیار کیا ہوا ہے۔ گزشتہ ہفتے انہوں نے پہلے وفاقی حکومت کی جانب سے سندھ کو پانی کی فراہمی کے حوالے سے موضوع پر’’ سندھ کارڈ‘’ کی یاد تازہ کرائی۔ پھر معیشت پر وزیراعظم کی جانب سے بہتری کے دعوئوں پر سخت الفاظ میں تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کے بقول مشکل وقت ختم ہو گیا ہے لیکن مشکل وقت صرف ان کے اے ٹی ایمز کیلئے ہوا ہوگا۔
بجٹ آئے گا تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ بلاول بھٹو کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملک میں احتساب کا نظام دوغلا ہے۔ وزیراعظم رائیونڈ کا ہو تو اسے سزا کے باوجود لندن بھیج دیا جاتا ہے۔ نواب شاہ کے صدر پر جھوٹا الزام بھی لگے تو ملک میں ہی قید ہوتا ہے۔
حالانکہ یہ بلاول بھٹو ہی تھے جنہوں نے کوٹ لکھپت جیل میں قید میاں نواز شریف سے ملاقات کے بعد نہ صرف ان کے نظریاتی ہونے کی نوید سنائی تھی بلکہ تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے نواز شریف کو علاج کیلئے بیرون ملک بھیجے جانے کی حمایت بھی کی تھی اور پھر یہ تاثر اب بھی پوری طرح موجود ہے کہ آصف زرداری کے پر زور مطالبے پر ان کے مقدمات سندھ کی عدالتوں میں منتقل کر دیئے گئے۔
پی ڈی ایم کے زعما الزام عائد کرتے ہیں کہ پی ڈی ایم کی موجودہ صورتحال کی ذمہ دار پیپلزپارٹی ہے جبکہ بہت جلد حکومت کی جانب سے شامل کئے جانے والے مزید ریلیف بھی سامنے آئیں گے۔کل بروز جمعہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اپنا تیسرا بجٹ پیش کر رہی ہے قومی اسمبلی میں یہ بجٹ وزیر خزانہ شوکت ترین پیش کریں گے۔ بعض حوالوں سے یہ بجٹ خاصا دلچسپ اور خدشات سے بھرپور بھی ہوگا۔ کیونکہ ایوان میں حکومتی جماعت کی اکثریت پہلے سے بھی کم ہوگئی ہے کیونکہ ضمنی انتخابات میں زیادہ کامیابیاں اپوزیشن کو ہی ہوئی ہیں اور پھر جو اتحادی جماعتیں ایوان میں حکومت کی اکثریت برقرار رکھے ہوئے ہیں ان کے بارے میں بھی حکومت کوئی ذیادہ پراعتماد نہیں ہے۔
قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس کے پہلے روز ہی ایوان میں اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی دونوں میں خاصی دراڑ نظر آئی۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے پہل کرتے ہوئے احسن اقبال کو نارووال کا ’’ایک کاغذی عہدیدار‘‘ اور بے اختیار قرار دیا۔ جس پر مسلم لیگ (ن) نے ایوان سے واک آئوٹ کیا ۔ صرف اس ایک واقعے سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بجٹ کی منظوری کے موقع پر کون کہاں کھڑا ہوگا؟