وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کو تقریباً تین سال بعد یاد آیا کہ وہ ملتان کے لئے کچھ نہیں کرسکے ،اورانہوں نے بھرے مجمع میں اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے کہ ہم نے ملتان کی عوام کو منہ دکھانا ہے ،پنجاب حکومت جس طرح جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے منصوبہ اور ملتان کی تعمیر وترقی میں رکاوٹیں ڈال رہی ہے ،یہ ہمارے لئے ناقابل برداشت ہے ،وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدارعوامی نوعیت کے مسائل پر توجہ دیں ،پہلی بار شاہ محمود قریشی پنجاب حکومت کے خلاف اتنا گرجے برسے ،وگرنہ اس سے پہلے وہ مصلحت سے کام لیتے تھے اور لگی لپیٹی رکھ کر بات کرتے ہوئے آگے نکل جاتے تھے ،مگراس بار انہوں نے پنجاب حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ مالی سال کے اختتام میں چند روز باقی رہ گئے ہیں۔
بجٹ میں35 فی صد حصہ رکھنے کے باوجودخطہ کے جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ سمیت بڑے ترقیاتی منصوبوں کو شروع نہیں کیا جاسکا اورجان بوجھ کر تاخیر کی جاتی رہی ،تاکہ فنڈز خرچ نہ ہونے کے باعث ضیائع ہوجائیں ،یہ بات اس دباؤ کو ظاہر کرتی ہے ،جو شاہ محمود قریشی اور دیگر ایم این ایز اور ایم پی ایز پر عوام کی طرف سے ڈالا جارہا ہے ،دو اڑھائی سال تک طفل تسلیوں کے ذریعے عوام کو جھوٹے لارے دیئے جاتے رہے ،کبھی جنوبی پنجاب صوبہ کے نام پر اور کبھی سیکرٹریٹ کے نام پر انہیں بہلایا گیا ،یہ دونوں باتیں ایک بڑ ا سیاسی دھوکہ ثابت ہوئیں اور آج یہ حال ہے کہ خود شاہ محمود قریشی کو یہ کہناپڑگیاہے کہ سیکرٹریٹ کہاں ہے ؟اس کے افسران کہاں ہیں ؟جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کی کارکردگی کیا ہے؟
مقامی حلقوں کا کہنا ہے کہ ابھی تک یہ صرف سیاسی ڈھکوسلے کے سوا کچھ ثابت نہیں ہوا ،شاہ محمود قریشی نے یہ بات بھی کی کہ میں جنوبی پنجاب صوبہ اور سیکرٹریٹ کے لئےآواز بلند کرتا رہوں گا ،کیونکہ وزیراعظم عمران خان بھی یہی چاہتے ہیں کہ جنوبی پنجاب کی عوام کو ان کا حق ملے ،یہ بات کہہ کر انہوں نے بالواسطہ طور پر وزیراعلیٰ پنجاب پر یہ الزام لگایا ہے کہ وہ وزیر اعظم عمران خان کے ویژن کے مطابق جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کو کام نہیں کرنے دے رہے اور نہ ہی ان کی حکومت جنوبی پنجاب کو ترقی دینے کے لئے عملی اقدامات اٹھارہی ہے ،شاہ محمود قریشی کی اس سخت گوئی کے باعث پنجاب حکومت نے انہیں پیغام بھجوایا کہ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کی عمارت کے لئے پری کوالی فیکشن کا عمل جاری ہے ،جس کے بعد 30جون کو اس منصوبے کا ٹینڈر ایوارڈ کردیا جائے گا۔
یہاں یہ امرقابل ذکر ہے کہ 30 جون کے بعد نیا مالی سال شروع ہوجاتا ہے اورتمام پرانے فنڈز ختم ہوجاتے ہیں ،رواں مالی سال کے بجٹ میں جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے لئے تقریباً چارارب روپے کے فنڈز مختص کئے گئے تھے ،مگران میں سے ایک پیسہ بھی خرچ نہیں ہوسکا ،اب نئے بجٹ میں جو رقم مختص کی جائے گی،اس کو فنانشل بل میں تو شامل کرلیا جائے گا ، مگراس کی ادائیگی کی نوبت شاید اگلے چھ ماہ تک نہ ہوسکے ،یوں یہ منصوبہ ایک بار پھر لٹک جائے گا اور شاید جب تک اس حکومت کی معیاد ہی ختم ہوجائے اور یہ کریڈٹ جو شاہ محمودقریشی ہمیشہ سے لیتے آئے ہیں ،ایک ایسا ڈراؤنا خواب بن جائے کہ جسے دیکھ کر وہ اس طرح پنجاب حکومت پر برستے رہیں۔
؎ جس طرح چند روز قبل ملتان میں برسے ،جہان تک جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے لئے افسران کی تعیناتی کا معاملہ ہے ،تو یہ ایسا عجیب و غریب معمہ ہے، کہ جس کی ابھی تک عوام کو ہی نہیں ،بلکہ شاہ محمود قریشی سمیت پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی کو بھی سمجھ نہیں آرہی ،جنوبی پنجاب کے لئے افسران کہاں پائے جاتے ہیں اور وہ کیا کررہے ہیں ،ابھی تک انہوں نے جنوبی پنجاب کی عوام کو کیا سہولیات فراہم کی ہیں ،ان کی وجہ سے کیا بہتری آئی ہے ،اس بارے میں کسی کے پاس کوئی تفصیل نہیں ہے۔
جنوبی پنجاب کے ایڈیشنل چیف سیکرٹری ایک ایسا گمشد ہ کردار بن گئے ہیں ،جو نہ بہاول پور میں پائےجاتے ہیں اور نہ ہی ملتان میں ،یہی حال دیگر محکموں کے سیکرٹری صاحبان کا ہے ،سوائے ایک یا دو سیکرٹریز کے باقی سب منظر سے غائب ہیں ،وہ کہاں ہیں ،کیا کررہے ہیں ،کس کو جواب دہ ہیں ،اس بارے کسی کو علم نہیں ہے ،البتہ پولیس کے معاملہ میں صورتحال واضح ہے اورایڈیشنل آئی جی پوری طرح کام کررہے ہیں ،وہ ہرجگہ نظر بھی آتے ہیں اور عوام کی ان تک رسائی بھی ہے ،سوال یہ ہے کہ کیا صرف پولیس کے علیحدہ ایڈیشنل آئی جی بنانے سے جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے مقاصد پورے ہوجائیں گے ،یا اس کے لئے کوئی سرکاری مشینری کا فعال ہونا ضروری ہے ،شاہ محمود قریشی نے جو آواز اٹھائی ہے۔
اگر یہ آواز اسی طرح مستقبل میں بھی بلند ہوتی رہی ،تو شاید اس حوالے سے کوئی حقیقی پیشرفت ہوسکے ،وگرنہ صورتحال کچھ زیادہ حوصلہ افزا نظر نہیں آتی۔ادھر سابق وزیر اعظم سیدیوسف رضا گیلانی نے بھی جنوبی پنجاب صوبہ کے حوالے سے تحریک انصاف کو آڑے ہاتھوں لیاہے ،ان کا کہنا ہے کہ یا تو حکومت کو علم ہی نہیں کہ صوبہ کیسے بنتا ہے یا پھر وہ اس معاملہ میں سنجیدہ ہی نہیں ہے ،تحریک انصاف نے ابھی تک پنجاب اسمبلی میں اس حوالے سے کوئی قرارداد پیش نہیں کی ،جبکہ یہ بنیادی شرط ہے اور وہاں اس کی اکثریت بھی موجود ہے ،پارلیمنٹ میں اسے منظور کرانے کے لئے مجھ سمیت کسی بھی اپوزیشن رہنما سے آج تک بات تک نہیں کی گئی ،یہ معاملہ سوائے ایک سیاسی حربہ کے موجودہ حکومت کے نزدیک اور کوئی اہمیت نہیں رکھتا،جو جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ تک کو فعال نہیں کراسکے ،وہ صوبہ کیا بنائیں گے۔
پیپلزپارٹی کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ قومی اسمبلی میں جنوبی پنجاب صوبہ کی قرارداد پیش کی ،اب اگر پیپلزپارٹی کو پنجاب اور مرکز میں اکثریت ملی، تو ہم جنوبی پنجاب صوبہ بنائیں گے ،انہوں نے وفاقی بجٹ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا کہ یہ آئی ایم ایف کی طرف سے دیا گیا بجٹ ہے ،اس کی پارلیمانی نگرانی ہونی چاہئے تھی مگرحکومت نے پارلیمنٹ کو اس حوالے سے نظرانداز کیا ہے،وہ ایک ایسا عمل ہے کہ جس سے حکومت کی غیر جمہوری اور آمرانہ سوچ نمایاں ہوتی ہے۔