ہمسایہ برادر ملک ایران میں منعقد ہونے والے حالیہ صدارتی انتخابات کے نتائج کے مطابق ابراہیم رئیسی بھاری اکثریت سے فتح حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں، اس حوالے سے پاکستان سمیت عالمی برادری کے سربراہان مملکت کی جانب سے مبارکباد کے پیغامات کا سلسلہ جاری ہے، وزیراعظم عمران خان نے اپنے ٹویٹ میں نومنتخب ایرانی صدر کو برادر کہہ کر مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ ایران کے تیرہویں صدارتی انتخابات میں تاریخی فتح حاصل کرنے پر عزت مآب برادر ابراہیم رئیسی کو دلی مبارکباد پیش کرتے ہیں اور دوطرفہ تعلقات میں بہتری، علاقائی امن واستحکام، ترقی اور خوشحالی کے حصول کیلئے ایرانی قیادت کے ساتھ تعاون کرنے کیلئے پرعزم ہیں۔ایران کے سیاسی نظام میں سپریم لیڈر/ رہبر اعلیٰ کے بعد صدر کا عہدہ سب سے طاقتور ہوتا ہے، ملکی آئین کے تحت منتخب صدر کی اندرونی معاملات اور خارجہ پالیسی میں رائے کو بہت اہمیت دی جاتی ہے مگرآخری اور حتمی فیصلے کا اختیار رہبر اعلیٰ کو حاصل ہے۔رہبراعلیٰ ایران کی تمام دفاعی فورسز کا کمانڈر اِن چیف ہوتے ہیں اورانہیں ملکی سیکورٹی کے معاملات کی نگرانی کے اختیارات حاصل ہوتے ہیں، وہ عدلیہ کے سربراہ،ملکی سیاست پر اثر و رسوخ رکھنے والی نگہبان شوریٰ کے نصف ممبران، مساجدکے امام اور سرکاری ذرائع ابلاغ کے اداروںکے سربراہان کی تعیناتی کرتے ہیں،رہبر اعلیٰ اربوں ڈالر کی مالیت کے خیراتی اداروں کو بھی کنٹرول کرتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ رضا شاہ پہلوی کے ایران کو خطے میں امریکی مفادات کی نگہبانی کیلئے تھانیدار کا درجہ حاصل تھا، امریکہ کی خارجہ پالیسی میں ایران ٹوئن پلرز (جڑواں ستون)کا حصہ تھا، پھر وقت نے کروٹ لی اور ایرانی عوام کا سمندر شاہِ ایران کے تخت و تاج کوبہا لے گیا ،امام خمینی کے ایران میں مرگ بر امریکہ کے نعرے گونجنے لگے، تاہم پاکستان کے ساتھ ایران کے دوطرفہ تعلقات روایتی طور پر برادرانہ ہی رہے، آزادی کے بعد ایران نے سب سے پہلے پاکستان کو بطور آزاد خودمختار ملک تسلیم کیا، انقلاب کے بعد بھی دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین مختلف شعبوں میں تعاون میں اضافہ ہوا۔ عالمی سطح پر ایران کا شمار ان چند ممالک میںہوتا ہے جہاں کے انتخابات پر عالمی برادری کی نظریں لگی ہوتی ہیں، انتخابی نتائج سے قبل ہی نئی متوقع ایرانی قیادت کی ترجیحات اور پالیسیوںکے بارے میں قیاس آرائیوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، انقلاب کے بعد ایرانی معاشرہ اور سیاست روایتی طور پر قدامت پسندوں اور اصلاح پسندوں کے درمیان منقسم ہے۔ عالمی میڈیا کے مطابق قدامت پسند ابراہیم رئیسی کو ایرانی صدارت کیلئے سب سے موزوں ترین امیدوار قرار دیا جارہا تھا، ان کے بارے میں پیش گوئی کردی گئی تھی کہ وہ انتخابات میں فتح یاب ہونگے۔ساٹھ سالہ ابراہیم رئیسی کو رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای نے دو سال قبل عدلیہ کا سربراہ مقرر کیا تھا، الیکشن سے قبل ہی میڈیا نے انہیں رہبر اعلیٰ خامنہ ای کا ممکنہ جانشین بناکر پیش کیا۔ رئیسی نے2017کے گزشتہ انتخابات میں بھی حصہ لیا تھا، تاہم اس وقت وہ اعتدال پسندوں اور اصلاح پسندوں کے حمایت یافتہ امیدوارتھےمگر موجودہ صدر حسن روحانی کو شکست دینے میں کامیاب نہیں ہوسکے تھے، بلاشبہ حسن روحانی ایران میں امید کی ایک نئی کرن بن کر ابھرے تھے، انکے دورِ حکومت میں ایران اور امریکہ کے مابین جوہری معاہدہ ایک بہت بڑی کامیابی تھی جس کی بدولت ایرانی عوام کو اپنا معیار زندگی بلند کرنے کیلئے بہت زیادہ توقعات وابستہ تھیں، تاہم صدر ٹرمپ کی طرف سے معاہدے سے نکل جانے سے ایران پر منفی اثرات مرتب ہوئے، حسن روحانی سےایرانی عوام کو گلہ تھا کہ وہ معاشی و سماجی شعبوں میں اصلاحات کے وعدے پورے کرنے میں ناکام ہوئے ہیں، ایران میں کرنسی کا بحران بھی اصلاح پسند حکومت کی نامقبولیت کا اہم سبب بنا۔میں سمجھتا ہوں کہ نئے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کو اندررونی اور خارجہ محاذ پر بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے، انہیں ملکی معیشت میں بہتری لانے کیلئے عام آدمی کو ریلیف دینے کیلئے سخت فیصلے کرنے ہونگے، انہوں نے الیکشن مہم میں اپنے آپ کوسماجی بدعنوانی کے خاتمے اور معاشی مسائل کے حل کیلئے بہترین انتخاب کے طور پر پیش کیا، تاہم اب انہیں اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ٹھوس لائحہ عمل ترتیب دیناہوگا، غربت دور کرنے کے علاوہ آئندہ چار برسوں میں 40لاکھ مکانات کی تعمیربھی ان کے انتخابی نعروں کا حصہ ہے۔ خارجہ محاذ پر دیکھا جائے تو امریکہ سمیت عالمی برادری ایران میں قدامت پسندوں کی موجودگی سے خائف نظر آتی ہے، نومنتخب ایرانی صدرابراہیم رئیسی پر امریکہ نے متعدد پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اور ان پر ماضی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے الزامات بھی عائد کئے جاتے رہے ہیں، مغربی میڈیا کی جانب سے آزادی اظہار رائے کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے،تاہم ایسی اطلاعات بھی منظرعام پر آرہی ہیں کہ ابراہیم رئیسی امریکہ کے ساتھ جوہری معاہدے میں واپسی کے حامی ہیں۔میں نومنتخب ایرانی صدر کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہنا چاہوں گا کہ ہمارے خطے کی صورتحال تیزی سے بدل رہی ہے، امریکہ کے افغانستان سے فوجی انخلاء سے سب سے زیادہ ایران اور پاکستان متاثر ہونگے، ایران کی نو منتخب قیادت کو حالات کی نزاکت سمجھتے ہوئے سمجھداری اور دوراندیشی سے کام لیتے ہوئے عالمی جوہری معاہدے میں واپسی کیلئے کوششیں کرنی چاہئے، پاکستان اور ایران کا دوطرفہ تعاون علاقائی امن و استحکام کیلئے بہت ضروری ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)