اطہر اقبال
(معنی :وہم کاکوئی علاج نہیں، لاعلاج مرض ہے)
’’ اب آبھی جائو اور کتنی دیر لگائو گے؟ ‘‘ خرم نے ساجد کو آواز دیتے ہوئے کہا۔خرم اور ساجد دونوں دوست باغ کی سیرکے لئے روزانہ ہی جایا کرتے تھے۔اس میں ایک تالاب بھی تھا، ساجد ہمیشہ سے ہی تالاب کے پاس سے گزرتے ہوئے ڈرتا تھا۔ اسے یہ ڈر رہتا تھا کہ کہیں وہ اس تالاب میں گر کرڈوب نہ جائے۔
’’ابھی آتا ہوں‘‘۔ ساجدنے دوسری طرف رخ کرتے ہوئے کہا۔
’’وہاں کہاں چل دئیے؟ میں تو یہاں ہوں۔‘‘ خرم نے حیرانی سے ساجد کو دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ وہ دراصل یہ تالاب… میں دوسری طرف سے آتا ہوں‘‘۔ ساجد نے تالاب کے پاس سے گزرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔
’’ ٹھیک ہے، توتم دوسری طرف سے آئو، میں تو اپنے گھر جارہا ہوں‘‘۔خرم نے گویا ساجد کو دھمکی دیتے ہوئے کہا۔’’ اچھا بابا آتا ہوں۔‘‘ اور ساجد ڈرتے ڈرتے تالاب کے پاس سے گزر ہی گیا۔
’’انکل آپ ساجد کو سمجھائیں نا، یہ کب تک تالاب میں ڈوبنے کے وہم میں مبتلا رہے گا ۔‘‘ خرم نے ساجد کے ابو کو اس کے تالاب سے ڈرنے کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا۔
’’ کیا بات ہے بھئی ساجد، تم تو پڑھے لکھے لڑکے ہو، پھر بھی وہم کا شکار ہو‘‘۔ اس کے ابو نے ساجد سے پوچھتے ہوئے کہا۔‘‘ ابو مجھے لگتا ہے کہ میں اگر تالاب کے پاس سے گزروں گا تو اس میں ڈوب جائوں گا۔ ‘‘ساجد نے اپنا خوف ظاہر کرتے ہوئے کہا۔
’’ کیسے ڈوب جائو گے؟ تالاب کے پاس سے گزرتے ہوئے تالاب میں چھلانگ لگا دو گے یای گر وگے؟‘‘۔
’’ نہیں تو‘‘۔
’’پھر‘‘
’’بس ویسے ہی خیال آتا ہے کہ کہیں تالاب میں ڈوب نہ جائوں‘‘۔ ساجد نے تھوڑا سا شرمندہ ہوتے ہوئے کہا ۔
’’بیٹا ساجد خود کوبدلو، خواہ مخواہ کے خیالات اور وہم کے نزدیک بھی نہیں جانا چاہیے۔’’وہم کی دوا حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں تھی‘‘۔ اس کے ابو نے ساجد کوسمجھاتے ہوئے کہا اور ساجد نے آئندہ وہم سے دور رہنے کا وعدہ کرلیا۔