عائشہ صدیقہ، سیالکوٹ
پیارے بچو!کسی جگہ شرارتی خرگوش رہتا تھا جس کی ذہانت سے لومڑ جیسا چا لاک جانور بھی اکثر مات کھاتا تھا۔ اسے خرگوش پر بہت غصہ آتا تھا، اسی لیے وہ اسے اور اس کے دوستوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا رہتا تھا۔
ایک دفعہ لومڑ بڑاسا بیگ کندھے پر ڈالے تیزی سے چلا جا رہا تھا۔ بیگ سے کسی کے چیخنے چلانے کی آواز آرہی تھی جس سے خرگوش کو اندازہ ہوا کہ اس میں اس کا دوست کچھوا قید ہے۔ اب اسے اپنے دوست کو بچانے کی فکر لاحق ہوئی ۔ خرگوش جنگل کے درمیان سے تیزی سے بھاگتا لومڑ سے پہلے اس کے گھر پہنچا اور اس کے باغ کے سارے پھول توڑ کر زمین پر پھینک دیے اور خود گھر کے دروازےکے قریب ایک جگہ چھپ کر بیٹھ گیا۔ جونہی لومڑ کندھے پر بیگ لیے گھر پہنچا تو خرگوش نے آواز بدل کر سرگوشی کی” اے لومڑ تمہیں بیگ یہاں رکھ کر فورا باغ میں جانا چاہیے، کسی نے تمہارے باغ کے خوبصورت پھول توڑ کر برباد کردیے ہیں“۔
یہ سنتے ہی لومڑ کو غصہ آگیا۔ اس نے بیگ زمین پر رکھا، ّ چھڑی اٹھائی اور باغ کی طرف بھاگا۔خرگوش نے جلدی سے بیگ کھول کر اپنے دوست کچھوے کو آزاد کیا اور اس کی جگہ شہد کی مکھیوں کا چھتّہ ڈال کر دروازے کے پاس رکھ دیا تاکہ لومڑ کو سزا مل سکے۔
لومڑ نے دیکھا کہ باغ میں پھول بکھرے تھے پر کوئی موجود نہیں تھا سو اسے شک ہوا کہ یہ خرگوش کی حرکت تھی، جس نے اس کے باغیچے کا ستیاناس کردیا تھا۔ وہ واپس آیا اور بیگ اٹھا کر اندر لے گیا۔ جونہی اس نے بیگ کھولا توشہد کی مکھیوں نے اس پر یلغار کردی اور وہ جان بچانے کے لیے دوڑنے لگا۔
اس سے ہم نے یہ سبق سیکھا کہ جو دوسروں کا برا چاہتے ہیں ان کے اپنے ساتھ بھی برا ہوتا ہے اور اچھے دوست مشکل وقت میں ہمیشہ کام آتے ہیں اس لیے دوست بنانے کی کوشش زیادہ کرنا چاہیے۔