• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بجٹ سیشن میں روح کو جھلسا دینے والا پہلا انکشاف یہ ہوا کہ ہمارے عوامی نمائندے ایوان کے اندر شرافت کا لباس بھی تارتار کر سکتے ہیں، اسمبلی میں جمہوریت کا جنازہ نکالنے کے لئے چارپائی بھی لائی جا سکتی ہے اور بجٹ پیش کرنے سے روکنے کے لئے اسمبلی کے دروازوں پر تالے بھی ڈالے جا سکتے ہیں۔ جب عوام کے نمائندے آپس میں گتھم گتھا ہو رہے تھے، تو ا نٹرنیشنل میڈیا میں خبر شائع ہوئی کہ امریکہ اپنا بحری بیڑا گوادر بندرگاہ کے مد مقابل لے آیا ہے۔ مجھے بےاختیار 1971کا وہ زمانہ یاد آیا جب امریکی ساتویں بحری بیڑے کا بہت چرچا تھا کہ وہ مشرقی پاکستان کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے خلیج بنگال کی طرف روانہ ہو چکا ہے۔ ہم اُس کے پہنچنے کا بےتابی سے انتظار ہی کرتے رہے اور ا سی دوران سقوط ڈھاکہ پیش آ گیا۔ پاکستان کی ایک ویب سائٹ نے گوادر بندرگاہ میں لنگرانداز ہونے والے بحری بیڑے کی تصویر بھی پوسٹ کی ہے، البتہ مین اسٹریم میڈیا نے کوئی خبر نہیں دی۔ گوادر بندرگاہ پاکستان کی خوشحالی اور ہمہ پہلو ترقی کا ایک گیم چینجر منصوبہ ہے، ا س لئے ہمیں اُسے امریکی سائے سے محفوظ رکھنے کا سامان کرنا ہو گا۔

یہ عجیب اتفاق ہے کہ جس روز امریکی بیڑے کی تصویر نمودار ہوئی، اُسی روز ہمارے ایک روزنامے نے گوادر بندرگاہ کے بارے میں ایک امیدافزا ر پورٹ شائع کی۔ اُس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ سی پیک کے تحت بندرگاہ کا فیز ون مکمل ہو چکا ہے جس میں بارہ کارخانے ہیں۔ اُن میں سے چار مکمل طور پر تیار ہو چکے ہیں اور باقی بھی آخری مراحل میں ہیں۔ انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر کام بڑی تیزی سے ہو رہا ہے اور تین برسوں میں لاکھوں افراد برسر ر وزگار ہو چکے ہیں۔ ترقیاتی اسکیموں کی تفصیلات ا س قدر مسحور کُن تھیں کہ مجھے گمان گزرا کہ کہیں کسی بدخواہ کی نظر نہ لگ جائے۔ بدخواہ کی نظر تو بعد میں لگے گی، مگر ہمارے ارباب حکومت کی بےبصیرتی اور غفلت شعاری اپنا رنگ دکھا رہی ہے۔ برسوں پہلے دونوں ملکوں کے مابین ترقیاتی منصوبوں کی ترجیحات طے کرنے کے لئے جائنٹ کوآپریشن کمیٹی (جے سی سی) قائم کی گئی تھی۔ اُس کا آخری اجلاس پاکستان کی درخواست پر نومبر 2019 میں ملتوی ہوا تھا۔ عوام کے لئے یہ انکشاف کسی طرح صدمے سے کم نہیں ہو گا کہ اُس کمیٹی کا ایک بھی اجلاس بعدازاں منعقد نہیں ہوا جس کے باعث سی پیک کے منصوبے تاخیر کا شکار ہیں۔ ا س پر چین کے اندر تشویش کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہے۔ یہ بات بھی کم لوگوں کو معلوم ہو گی کہ کراچی سے پشاور تک جدید تقاضوں کے مطابق ریلوے ٹریک بچھانے کے منصوبے پر دونوں ملکوں میں بہت پہلے اتفاق ہو گیا تھا جس کی لاگت چھ ا رب ڈالر تھی۔ اب ا سے انکشاف کا درجہ دیا جائے یا اپنی بدقسمتی کا نوحہ سمجھا جائے کہ آئی ایم ایف نے چھ ا رب ڈالر کا قرضہ دیتے ہوئے پاکستان پر یہ شرط عائد کر دی ہے کہ وہ کسی اور ملک سے قرضہ حاصل نہیں کر سکے گا، چنانچہ ایم ایل ون کا انقلاب آفریں منصوبہ کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔

ا ن عجیب و غریب حالات میں ا س امر کا کھوج لگانا اور قوم کو آگاہ کرنا ضروری ہے کہ گوادر بندرگاہ میں امریکی بیڑے کی آمد کا مقصد کیا ہے۔ یہ ا س لئے بھی ضروری ہو گیا ہے کہ سینہ بہ سینہ یہ بات پھیل رہی ہے کہ پچھلے دنوں ایک امریکی مال بردار جہاز سامان سے لدا ہوا کراچی ایئرپورٹ پر اترا ا ور و ہاں سے نیا سامان لاد کر واپس چلا گیا۔ ایسے وقت قوم کو اندھیرے میں رکھنا بہت خطرناک ہو گا جب افغانستان میں خانہ جنگی کی آگ سب سے زیادہ پاکستان پر اثرانداز ہونے والی ہے۔ ہمیں امید کرنی چاہئے کہ ہمارے ارباب حل و عقد اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئےکار لا کر آنے والی تباہی کے موثر سد باب کو اوّلین اہمیت دیں گے۔ اب تک تو نعرہ بازی زیادہ ا ور ذ ہنوں کو مسخر کرنے والی سفارت کاری کم نظر آتی ہے۔ پاکستان کو افغان طالبان کی قوت کا صحیح اندازہ لگانے، اُن کے رویوں میں تبدیلی کا باریک بینی سے مطالعہ کرنے اور علاقائی طاقتوں کا حصار قائم کرنے کے لئے حکمت عملی وضع کرنا ہو گی۔ چین کا فعال کردار صورت حال میں توازن پیدا کر سکتا ہے اور ا فغان طالبان کے ذریعے امن کے قیام اور استقلال میں بہت معاون ثابت ہو سکتا ہے۔

بجٹ سیشن کے دوران ایک ایسا انکشاف بھی سامنے آیا کہ بڑی دیر تک میرے اعصاب سُن ہو کے رہ گئے۔ معلوم ہوا کہ 22جون 2021 کی صبح وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیر خزانہ شوکت ترین نے ا س تجویز کی منظوری طلب کی کہ مقامی اور بین الاقوامی سکوک جاری کرنے کے لئے بڑے بڑے قومی اثاثے گروی رکھ دیے جائیں۔ یہ سارا کام ا س قدر ر ازداری سے انجام دیا گیا کہ ایئرپورٹس اور موٹرویز گروی رکھنے کے لئے ہوابازی اور مواصلات کی وزارتیں بھی اعتماد میں نہیں لی گئیں۔ ہمارے ایک معاصر انگریزی اخبار نے اُن قومی اثاثوں کی فہرست شائع کی ہے جو پہلے گروی رکھے جا چکے ہیں اور آئندہ بڑی تعداد میں رکھے جائیں گے۔ پرانے زمانے میں ہمارے بزرگ کسی چیز کو گروی رکھنے کو بہت برا سمجھتے تھے کہ اگر قرض وقت پر واپس نہ کیا جا سکا، تو وہ قیمتی شے دوسروں کے پاس چلی جائے گی۔ فہرست پر نظر ڈالی، تو اُس میں تمام بڑے ایئرپورٹس اور تمام موٹرویز شامل تھیں۔ اُن سکوک کے ذریعے 3.5 بلین ڈالر حاصل کرنا مقصود ہیں۔ ا ن سکوک میں دیندار لوگوں کی دلچسپی پیدا کرنے کے لئے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ یہ سارا کام شریعت کے مطابق ہو رہا ہے اور سود کے بجائے رقوم کے استعمال کا کرایہ ادا کیا جائے گا۔ مجھے ا س خیال سے بڑی وحشت ہو رہی ہے کہ قومی اثاثے گروی رکھے جا رہے ہیں اور قوم ا س پورے عمل سے بالکل بےخبر ہے۔ میں اپنا کالم ختم کر ہی رہا تھا کہ ایک اور سر چکرا د ینے والا انکشاف ٹی وی پر سنا کہ پچھلے سال کے بجٹ میں وزیر اعظم ہاؤس کے لئے ایک ارب روپے بجٹ میں رکھے گئے تھے۔ ہمارے کفایت شعار وزیر اعظم کی لااُبالی ٹیم نے مزید آٹھ ارب روپے خرچ کر ڈالے۔ عوام کے ٹیکسوں کے نو ا رب روپے۔ اب کسے رہنما کرے کوئی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین