عید سے ایک ہفتہ قبل سرینگر میں سرکاری طور پر حیوانات کی بہبود کے نام پر ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے انتظامی افسران کو عید الاضحی کے موقع پر گائے، بچھڑوں، اونٹ اور دوسرے جانوروں کو 'غیر قانونی طور پر ذبح کرنے یا ان کی قربانی کو روکنے کیلئے امتناعی اقدامات کیساتھ جانوروں کی نقل و حمل کے دوران ضابطوں کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کا حکم بھی دیدیا گیا۔ اس اعلامیہ کے منظر عام پر آتے ہی لوگوں میں مطلق العنان سکھ اور ہندو ڈوگرہ راج کی یاد تازہ ہوئی جب کشمیری مسلمانوں کیخلاف بدترین ظلم و تشدد روا رکھا جاتاتھا جسے ذبیحہ گاؤ کی آڑ میں مزید بڑھاوا دیا گیا۔ سرکاری نوٹیفکیشن جاری ہوتے ہی کشمیر میں غم و غصے اور تشویش کی نئی لہر دوڑ گئی اور احتجاج کے بعد اب سرکار نے دعویٰ کیا ہے کہ اس اعلامیے سے غلط مطلب نکالا گیا۔ حالانکہ اس سے صرف چند روز قبل پولیس کے سربراہ دلباغ سنگھ نے پولیس افسران کے ایک اجلاس سے خطاب کے دوران انہیں ہدایت دی تھی کہ گائیں ذبح کرنے یا اس طرح کے کاروبار کرنے والوں اور مویشی اسمگلروں کو اب سخت گیر پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا جائے جسکے تحت عموماً کشمیر کی آزادی پسند قیادت کو گرفتار کیا جاتا ہے اور بغیر مقدمہ چلائے دو سال کے عرصے تک قید کیا جاتا ہے۔ سرکار کے غیر مبہم بیانات اور دھمکیوں کے پیش نظر بقر عید کے موقع پر خوف و دہشت کی ایک نئی روایت قائم ہورہی ہے اور کشمیری اسے سکھ اور ڈوگرہ ہندو حکومتوں کی مسلم مخالف شدت پسندانہ سوچ سے جوڑ رہے ہیں۔ 1820 سے شروع ہونے والا25 سالہ سکھ دورِ حکومت اس سے پہلے کے افغان قبضے کی طرح ریاست جموں و کشمیر کی تاریخ کا ایک انتہائی تاریک دور تصور کیا جاتا ہے۔ سکھوں نے اپنے دور حکومت میں کئی مسلم مخالف قوانین بنائے جس میں گائے کے ذبیحہ کو قتل قرار دیکر اسے قابل گردن زنی قرار دیا گیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے اذان پر پابندی عائد کی اور سرینگر کی تاریخی جامع مسجد پر تالا لگادیا۔ سکھوں کے قبضے کے خاتمے کے بعد ڈوگرہ ہندو حکومت، جو کہ عملاً ایک شدت پسند مسلم مخالف حکومت تھی، میں بھی گاؤ کشی کے نام پر کشمیریوں کو وحشیانہ طور پر قتل و غارتگری کا نشانہ بنایا جانے لگا۔ اگرچہ ڈوگرہ سلطنت کے بانی گلاب سنگھ نے سرکاری طور پر گائے کے ذبیحے کیلئے عمر قید کی سزا مقرر کی تھی مگر اسکے ولی عہد رنبیر سنگھ کی مسلمانوں سے نفرت کا یہ عالم تھا کہ اس نے کشمیریوں کو ایسی خطرناک سزائیں دیں کہ میرے بچپن میں بھی لوگ گائے کا گوشت کھانے کو انتہائی قبیح عمل سمجھتے تھے۔ ڈوگرہ حکمران پرتاپ سنگھ کے آخری دور میں سرینگر کے ممتاز تاجر خاندان کاؤسہ کے تین افراد کو گائے ذبح کرنے پر پھانسی دیدی گئی اور پھر ان کی لاشوں کو سرینگر کے بازاروں میں گھسیٹا گیا تاکہ لوگ عبرت پکڑ سکیں۔ مگر اس کے باوجود لوگ گائے کا ذبیحہ کرتے رہے جس کی بنیادی وجہ بھوک اور افلاس تھی کیونکہ افغان، سکھ اور پھر ڈوگرہ حکمرانوں نے کشمیریوں کو اسقدر مفلوک الحال کردیا تھا کہ وہ فاقہ کشی کی انتہائی حالت میں مجبوراً گائے کو ذبح کرکے اپنے اور اہل وعیال کے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کی کوشش کرتے۔
یہی وجہ ہے کہ حکمران گاؤ کشی کے جرم میں سارے خاندان کو مجرم ٹھہرانے لگے۔ چھتہ بل سرینگر کے صمد بابا کو اپنے تمام خاندان کے سترہ افراد سمیت زندہ جلایا گیا۔ انہیں علاقے کے تھانے دار بھولا ناتھ کی زیر نگرانی لکڑی اور خشک گوبر کے ڈھیر میں رکھ کر نذر آتش کیا گیا۔ اس طرح سجان سنگھ کی زیر قیادت حول سرینگر میں بارہ افراد اور سرینگر کے مضافاتی علاقے دودھ گنگا میں ایک اور خاندان کے انیس افراد کو زندہ جلایا گیا۔ اس زمانے کے کشمیری مسلمان اپنی علمی، سیاسی اور معاشی پسماندگی کی وجہ سےخود پر ڈھائی جانے والی اِن قیامتوں اور بہیمانہ ظلم و تشدد کی داستانیں نہیں لکھ سکے لیکن تاریخ میں محفوظ حوالوں سے اسکا قدرے اندازہ ہوجاتا ہے۔ ڈوگرہ دور حکومت میں گائے ذبح کرنے کے الزام میں کئی لوگوں کو کھولتے ہوئے تیل میں زندہ جلانے کے واقعات بھی رونما ہوئے۔ رنبیر سنگھ کے زمانے میں ایک خاتون کی زبان گائے کو مارپیٹ کرنے کے الزام میں کاٹ دی گئی جبکہ ایک اور واقعے میں گائے ذبح کرنے کے شبے میں ایک نوجوان کو دوران حراست کئی روز تک زبردستی بے انتہا نمکین کھانا کھلایا گیا جس سے وہ بالآخر شہید ہوگیا۔ 1920 کے سرکاری ریکارڈ کے مطابق کشمیر کی جیلوں میں محبوس 117 افراد میں 97 افراد گاؤ کشی کے الزام میں قید تھے۔ ٹھیک سو سال بعد ایک ہفتہ پہلے کشمیر کے پولیس چیف نے اپنے افسروں کو گائے ذبح کرنے والوں کو گرفتار کرنے کے احکامات جاری کرکے سکھ اور ڈوگرہ راج کی یاد کو پھر سے تازہ کردیاہے۔