ابھی ہم سندھ میں چار بچوں کی خوب صورت اور تعلیم یافتہ قراۃالعین کے قتل کا سوگ منا رہے تھے کہ اسلام آباد میں نورمقدم کے بہیمانہ قتل نے سارے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا۔ نور کو اس کے بچپن کے دوست ظاہر جعفر نے تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد گلا کاٹ کر قتل کیا تھا۔پولیس کے مطابق نور پر چاقو کے وار کئے گئے تھے اور کسی تیز دھار آلے سے اس کا گلا کاٹا گیا تھا۔یہ سب اس وقت ہوا جب نور کے گھر والے عید کی تیاریوں میں مصروف تھے۔
سوچئے ان کے دلوں پر کیا گزری ہو گی جب انہیں پولیس اسٹیشن سے فون آیا ہوگا کہ ان کی بچی کو قتل کر دیا گیا ہے۔ اور باپ نے کیسے خود کو سنبھالا ہو گا جب اس نے ظاہر کے گھر میں اپنی بیٹی کی سر بریدہ لاش دیکھی ہو گی۔ابھی نور مقدم کے بہیمانہ قتل کی بازگشت ختم نہیں ہوئی کہ ٹنڈوآدم کی عنبرین کواس کے شوہر نے زندہ جلا دیا ۔اس سے قبل شہداد کوٹ میں انیس سالہ نذیراں اپنے دیور کے ہاتھوں قتل ہو چکی تھی۔ان پے در پے واقعات نے پوری قوم کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا آخر ہم کس دور میں جی رہے ہیں۔کیا ریاست اور سماج عورتوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں؟
’’ عورت چاہے شہر میں رہتی ہو یا گائوں میں ، گھر کے اندر ہو یا باہر، برقع پہنتی ہو یا بغیر برقع ہو،خاندان والوں، شوہروں ، دوستوں یا اجنبیوں کے ہاتھوں تشد کا نشانہ بنتی ہے یا قتل ہوتی ہے۔ ‘‘عام طور پر عورت اپنے قریبی لوگوں کے ہاتھوں ہی تشدد کا نشانہ بنتی ہے۔قریبی لوگوں کے حملے اجنبیوں کے مقابلے میں زیادہ خطر ناک ثابت ہوتے ہیں۔ دیگر مردوں کے مقابلے میں شوہر یا گھر کے مردوں کے ہاتھوں عورت کی ہلاکت کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔قتل کے علاوہ عورتیں جنسی حملوں اور ریپ کا نشانہ بھی بنتی ہیں۔
سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ صنفی نا برابری اور امتیازی اور تفریقی رویہ عورتوں پر تشدد کے بنیادی اسباب ہیں۔عورتوں اور لڑکیوں پر ہونے والے تشدد کا تعلق ان کے پاس اختیارات اور کنٹرول کی کمی سے ہے۔ سماجی رسوم و رواج بھی عورت کے ساتھ ہونے والی زیادتی کی پردہ پوشی کرتے ہیں۔گھر میں دیکھیں یا باہر، سماجی، اقتصادی اور سیاسی حقوق کے معاملہ میں ہر جگہ نا برابری نظر آتی ہے، جس کا نتیجہ عورت پر پابندیوں کی صورت میں نکلتا ہے۔
اس نا برابری کی وجہ سے عورتوں پر تشدد اور زیادتی میں اضافہ ہوتا ہے۔وہ اقتصادی طور پر گھر کے مردوں پر انحصار کرتی ہیں ، ان کے پاس اپنی آمدنی کے ذرائع کم ہی ہوتے ہیں۔شادی، طلاق اور بچوں کی کسٹڈی کے قوانین میں بھی ان کے ساتھ امتیاز روا رکھا جاتا ہے۔عورتوں اور لڑکیوں پر تشدد صرف صنفی نا برابری کا نتیجہ نہیں بلکہ اس سے عورت کے کمتر مقام اور مرد اور عورت کے درمیان بہت سی نا برابریوں کو مزید تقویت ملتی ہے۔
فرد، تعلق، کمیونٹی اور سماج ( بشمول ریاست)کی سطح پر بہت سے عوامل ہیں جو عورتوں اور لڑکیوں پر تشدد میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔مثال کے طور پر:
٭… اگر کوئی بچہ اپنی ماں کو پٹتے دیکھتا ہے تو وہ بھی بڑے ہو کر اپنی بیوی پر تشدد کرے گا۔
٭…منشیات یا شراب کا استعمال بھی تشدد کا سبب بنتا ہے۔
٭…کم تعلیم یا جہالت بھی تشدد کا سبب بنتی ہے۔
٭…مالی طور پر پریشان اور بے روزگار مرد بھی عورتوں پر تشدد کرتے ہیں۔ اس میں مار پیٹ کے ساتھ بچیوں کی زبردستی شادی کر دینا ، جنسی استحصال اور عورتوں کی خرید و فروخت بھی شامل ہے۔
٭…میاں بیوی کے درمیان بہت زیادہ اقتصادی، تعلیمی اور روزگار کا فرق بھی تشدد کا سبب بنتا ہے۔
٭…میاں بیوی کے درمیان ہر وقت تنائو او ر کشیدگی کا نتیجہ بھی تشدد کی صورت میں نکلتا ہے۔
٭…زمین اور جائیداد پر عورت کا غیر محفوظ کنٹرول بھی اس پر تشدد کا سبب بنتا ہے۔
٭…فیصلہ سازی اور اثاثوں پر مرد کا کنٹرول ہونا
٭…ایسے روئیے اور رواج جو عورت کی کم تر حیثیت کو مزید کمک فراہم کرتے ہیں جیسے جہیزدینا، دلہن کی قیمت لگانا اور بچپن میں شادی کر دینا۔
٭…عورتوں کے لئے ایسی محفوظ جگہوں کا نہ ہوناجہاں وہ ایک دوسرے کے ساتھ اپنے دکھ بانٹ سکیں۔
……حفاظتی عوامل……
دوسری طرف ایسے حفاظتی عوامل بھی ہیں جو تشدد کے خطرے کو کم کرتے ہیں۔مثال کے طور پر:
٭…لڑکے اور لڑکیوں کا کم از کم دس بارہ جماعتوں تک تعلیم حاصل کرنا۔
٭…شادی کی کم از کم عمر اٹھارہ سال مقرر کرنا۔
٭…عورتوں کو اقتصادی طور پر خود مختار بنانا۔
٭…صنفی مساوات کے سماجی ضابطوں کو فروغ دینا۔
٭…معیاری سپورٹ سروسز فراہم کرنا وغیرہ۔
عالمی ادارہ ء صحت کے مطابق عورتوں اور بچیوں پر تشدد صحت کا مسئلہ بھی ہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی بھی ہے۔دنیا بھر میں ہر تین میں سے ایک عورت اپنے شوہر یا قریبی ساتھی کے ہاتھوںجسمانی یا جنسی تشدد کا نشانہ بنتی ہے۔تشدد سے عورت کی جسمانی، ذہنی ، جنسی اور تولیدی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔بعض صورتوں میں تو ایچ آئی وی ایڈز میں مبتلا ہونے کا خطرہ بھی ہوتا ہے۔
دنیا بھر میں قتل ہونے والی عورتوں میں سے اڑتیس فی صد عورتوں کو ان کے شوہر یا قریبی ساتھی قتل کرتے ہیں۔ COVID 19کے لاک ڈائون کے سماجی اور اقتصادی اثرات کے نتیجے میں شوہروں کے غصیلے پن اور تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔شوہروں کے تشدد اور جنسی تشدد کی سماجی اور اقتصادی قیمت بہت زیادہ ہوتی ہے، جس کے سماجی اثرات دور رس ہوتے ہیں۔عورتیں تنہائی کا شکار ہو جاتی ہیں، کام کرنے کے قابل نہیں رہتیں، آمدنی ختم ہو جاتی ہے اور وہ اپنی بہت سی ذمہ داریاں پوری کرنے کے قابل نہیں رہتیں اور اپنی اور اپنے بچوں کی دیکھ بھال نہیں کر پاتیں۔
تشدد کی روک تھام کیسے کی جائے۔2019 میں عالمی ادارہ ء صحت نے اقوام متحدہ کے دیگر بہت سے اداروں کے ساتھ مل کر RESPECTفریم ورک بنایا تھا ۔اس کا ہر لفظ ایک حکمت عملی کی نمائندگی کرتا ہے۔٭ریلیشن شپ مہارتوں کو مضبوط بنانا٭سروسز کی فراہمی کو یقینی بنانا٭عورتوں کی خود مختاری٭غربت میں کمی٭سازگار ماحول پیدا کرنا٭بچوں اور نوعمر لڑکے اور لڑکیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی کی روک تھام٭روئیے، عقائد و ضوابط میں تبدیلی لاناان میں سے ہر حکمت عملی کے لئے مختلف طرح کے اقدامات اور کارروائیوں کی ضرورت ہو گی۔ان میں سائیکو سوشل سپورٹ اور دیگر نفسیاتی علاج شامل ہیں۔
اس کے ساتھ سماجی اور اقتصادی خود مختاری کے پروگرامز بھی شروع کرنا ہوں گے، کیش ٹرانسفر اور شادی شدہ جوڑوں کے ساتھ کمیونیکیشن اور ریلیشن شپ اسکلز کو بہتر بنانے کے لئے کام کرنا۔غیر مساوی صنفی ضابطوں کو تبدیل کرنے کے لئے کمیونٹی میں کام کرنا۔اسکولوں میں سیفٹی پروگرام شروع کرنا، سزائوں میں کمی کرنا، صنفی اسٹیریو ٹائپس کو تبدیل کرنے والا نصاب بنانا، مساوات اور رضا مندی پر مبنی تعلقات کو فروغ دینا اورعورتوں اور مردوں کو گروپس کی شکل میں غیر مساوی صنفی تعلقات کا تنقیدی جائزہ لینے کے لئے شراکتی تعلیم دینا۔
اس فریم ورک میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ کامیاب اقدامات وہ ہوتے ہیں جن میں عورتوں کی سیفٹی کو ترجیح دی جاتی ہے، جن کے بنیادی عناصر میں غیر مساوی صنفی طاقت والے عناصر کو چیلنج کرنا شامل ہو۔دیر پا تبدیلی لانے کے لئے صنفی مساوات کو فروغ دینے والے قوانین بنوانا اور ان پر عمل درآمد کرانا ضروری ہے۔
عورتوں پر تشدد ایک عالمی مسئلہ ہے لیکن اس کے باوجود بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک انفرادی مسئلہ ہے اور چند’’برے مرد‘‘ ایسا کرتے ہیں۔لیکن عورتوں پر تشدد کے بے تحاشہ واقعات اور لرزہ خیز قتل کی وارداتیں یہ ثابت کرتی ہیںکہ یہ ایک اجتماعی سماجی مسئلہ ہے ،جس کی جڑیں مردانگی کے سائے میں پروان چڑھنے والے سماجی رسم و رواج میں پوشیدہ ہیں۔ سماج کے قاعدے کے مطابق ایک خاص طرح کے روئیے کا مظاہرہ کرنے والا مرد ہی ’’حقیقی مرد‘‘ ہوتا ہے۔یہ سمجھنے کے لئے کہ مرد عورتوں پر تشدد کیوں کرتے ہیں اور اس تشدد کو ختم کرنے کے لئے ہمیں ان محرکات کو سمجھنا ہو گا جو تشدد کا باعث بنتے ہیں۔
نمبر۱ : ’’اصل مرد وہ ہے جو اپنے کنبے کی کفالت کرتا ہے‘‘۔اس قسم کے مردانہ معیارات نقصان دہ ہوتے ہیں۔لڑکوں اور مردوں پر بھی بوجھ پڑتا ہے کہ وہ ہر صوت مردانگی کے ان معیارات پر پورا اترنے کی کوشش کریں۔ان معیارات کو قبول کرنے والے مردوں کے تشدد کو اپنانے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
نمبر : ۲ ’’اصل مرد وہ ہے جس کا گھر میں حکم چلتا ہے‘‘۔ہمارے ہاں ویسے بھی ایک مرد کماتا ہے اور پورا کنبہ کھاتا ہے۔لیکن اگر بیوی ملازمت کر بھی رہی ہو تب بھی مرد سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ اس کی کمائی بیوی سے زیادہ ہو،تا کہ گھر میں اسی کا حکم چلے۔ معاشروں کے تبدیل ہونے اور ترقی کے نتیجے میں مرد اور عورت کے روایتی کردار کو چیلنج کیا جا رہا ہے۔ عورتوں کی اقتصادی خود مختاری اور اقتصادی دائرے میں ان کی کامیابیوں نے مردوں کے لئے مالیاتی برتری کے مردانہ معیار کوقائم رکھنا مشکل بنا دیا ہے۔انچاس ممالک میں کئے جانے والے سروے میں سینتیس فی صد رائے دہندگان کا کہنا تھا کہ اگر عورت مرد سے زیادہ کماتی ہے تو گھر میں مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
نمبر۳ : اصل مرد مضبوط ہوتا ہے اور اپنے جذبات کو دبا کے رکھ سکتا ہے۔اکثر معاشروں میں یہ توقع کی جاتی ہے کہ مرد کو مضبوط ہونا چاہئیے اور اپنے جذبات کو دبا کے رکھنا چاہئیے۔ یعنی مرد کو رونا نہیں چاہئیے۔ جب کہ مرد کے غصے اور تشدد کو قابل قبول سمجھا جاتا ہے۔یعنی تشدد کے جو واقعات سامنے آ رہے ہیں ، وہ مرد کے جذبات اور فرسٹریشن کا اظہار ہیں ،کیوں کہ کسی دوسرے طریقے سے اظہار پر معاشرے نے پابندی لگائی ہوئی ہے۔ اسی لئے COVID19 میں تشدد کے زیادہ واقعات دیکھنے میں آ رہے ہیں۔
اسی لئے مردانگی کے محدود مفہوم کو بدلنے کی ضرورت ہے۔نور مقدم کا لرزہ خیز قتل ہو یا دیگر انتہائی تکلیف دہ اور افسوس ناک واقعات، سب ایک ہی بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یہ سب مرد اور عورت کے درمیان طاقت کے غیر مساوی تعلق کا نتیجہ ہے۔ان کیسز کے حوالے سے چار عوامل کی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔ ۱۔ثقافتی، ۲۔قانونی،۳۔ اقتصادی اور ۴۔ سیاسی۔
ثقافتی عوامل: پدر سری اور جنسی تعصب پر مبنی نظریات تشدد کا جواز فراہم کرتے ہیں ،تا کہ مردانہ حاکمیت اور بالا دستی کو برقرار رکھا جائے۔دیگر ثقافتی عوامل میں جینڈر اسٹیریو ٹائپس اور تعصبات شامل ہیں ۔نسائیت اور مردانگی کے حوالے سے توقعات،جینڈر کی سوشلائزیشن، یہ سمجھنا کہ خاندان ایک پرائیویٹ چیز ہے اور مرد کے زیر نگیں ہے اور پبلک لائف میں تشدد کی عمومی قبولیت جیسے راہ چلتی لڑکیوں کو تنگ کرنا یا مردوں کا باہم جھگڑوں میں تشدد کا استعمال وغیرہ۔
مذہبی اور تاریخی روایات کے مطابق عورتوں پر اپنا حق جمانے اور انہیں اپنی ملکیت میں رکھنے کے لئے جسمانی سزا دینے کی اجازت ہے ۔ملکیت کا تصور عورت کی جنسیت کو کنٹرول کرنے کا جواز فراہم کرتا ہے۔جنسیت کا تعلق خاندان کے وقار اور عزت سے بھی جوڑا جاتا ہے اور خاندان کی عزت کی خاطر عورت کو قتل بھی کر دیا جاتا ہے۔
قانونی عوامل: گھریلو تشدد کو بہت عرصہ تک نجی معاملہ قرار دیا جاتا رہا۔اب گھریلو تشدد کے خلاف قوانین تو بن گئے ہیں لیکن عمل درآمد کا مسئلہ باقی ہے۔سماجی دبائو بھی عورت کو قانون کی مدد لینے سے روکتا ہے۔
اقتصادی عوامل: اقتصادی وسائل کا فقدان بھی عورت کو تشدد کا ہدف بناتا ہے۔اقتصادی طور پر مرد کی محتاج ہونے کی وجہ سے بے روزگای کے زمانے میں وہ مرد کے تشدد کا زیادہ نشانہ بنتی ہے۔
سیاسی عوامل: اقتدار کے ایوانوں اور سیاست میں عورت کی کم نمائندگی کا مطلب یہ ہوا کہ اسے حکومتی پالیسیوں پر اثر انداز ہونے کے کم مواقع ملتے ہیں، عورتوں پر تشدد اور دیگر مسائل کے سد باب کے لئے وہ بجٹ مختص نہیں کرا پاتی۔
میں اپنے اس مضمون کا اختتام خواتین محاذ عمل کراچی کے اس مطالبے پر کرونگی کہ نور کے قاتل کو اس کے جرم کے مطابق قرار واقعی سزا دی جائے ، صائمہ، قراۃ العین ، اور قتل کی جانے والی دیگر خواتین کو انصاف دلوایا جائے۔گھریلو تشدد کے خلاف قانون پر پورے طور پر عمل درآمد کیا جائے۔مجرموں کو قانو ن کی گرفت سے نکلنے کا کوئی موقع فراہم نہ کیا جائے۔