مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 370 اور 35 A کے خاتمے کے دو سال5 اگست 2019 سے 13 جولائی 2021 تک بھارتی قابض افواج نے 390 سے زائد کشمیری شہید کئے لاہور (صابر شاہ) مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 370 اور 35 A کے خاتمے کے دو سال، 5 اگست 2019 سے 13 جولائی 2021 تک بھارتی قابض افواج نے 390 سے زائد کشمیری شہید کئے۔ تفصیلات کے مطابق بھارت کی جانب سے خوبصورت وادی کے معصوم باشندوں کی حالت زار میں اضافہ کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 370 اور 35 A کو غیر جمہوری طور پر ختم کرنے کے دو سال ہوگئے ہیں ۔
13 جولائی 2021 کو دفتر خارجہ پاکستان کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری نے بیان دیا تھا کہ 5 اگست 2019 سے اب تک مقبوضہ کشمیر میں بھارتی قابض افواج کے ہاتھوں 390 سے زائد کشمیری شہید ہو چکے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ صرف اس سال کے دوران بھارتی قابض افواج نے ماورائے عدالت کشمیری نوجوان لڑکوں اور عورتوں سمیت 85 بے گناہ کشمیریوں کو قتل کیا؛ 537 کشمیریوں کو زبردستی گرفتار اور نظر بند کیا؛ اور کشمیریوں کے 31 گھروں کو تباہ کر دیا۔ نیو یارک کی ایک معروف این جی او ’’دی ہیومن رائٹس واچ‘‘ کے مطابق 1989 سے اب تک جدوجہد آزادی کے دوران ایک لاکھ سے زائد کشمیری شہید ہو چکے ہیں۔
انسانی حقوق کے اس سرکردہ گروپ نے یہ انکشاف کیا تھا کہ صرف پچھلے 32 سال کے دوران بھارتی فورسز کے ہاتھوں 1 لاکھ 22 ہزار 771 گرفتاریوں اور 7 ہزار 23 حراستی قتل کے علاوہ ایک لاکھ پانچ ہزار 996 مکانات یا عمارتیں تباہ کی گئیں؛ 22 ہزار 776 خواتین بیوہ کردی گئیں، ایک لاکھ 7 ہزار 466 بچوں کو یتیم کردیا گیا ااور 10 ہزار 86 خواتین کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی یا دست درازی کی گئی۔ کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے حساب کے مطابق 5 اگست 2019 اور 5 اگست 2020 کے درمیان اگرچہ خطے میں اقتصادی نقصانات 5.3 ارب امریکی ڈالرز سے کم نہیں تھے، تقریباً پانچ لاکھ ملازمتیں بھی ختم ہوگئیں، اس طرح مقامی آبادی کو تباہ کر دیا گیا۔
2اگست 2019 کو نئی دہلی نے 45000 سے زائد فوجی بھیجے تھے تاکہ رکاوٹیں کھڑی کی جائیں اور فسادات پر قابو پانے والی گاڑیوں کے ساتھ پوزیشن حاصل کی جائے۔ ابتدائی طور پر بیان کردہ وجہ منڈلانے والا "دہشت گردانہ حملہ" تھا۔ مقامی رہنماؤں جیسے کہ محبوبہ مفتی ، عمر عبداللہ اور پیپلز کانفرنس پارٹی کے صدر سجاد لون کو گھر میں نظر بند کر دیا گیا اور سری نگر میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی۔ اور 5 اگست 2019 کو نریندر مودی حکومت نے جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی آئینی دفعات کو منسوخ کر دیا جس کا مطلب یہ تھا کہ اب بھارتی شہریوں کو مقبوضہ کشمیر میں جائیدادیں خریدنے اور وہاں آباد ہونے کی اجازت دے دی گئی۔ 7 اور 9 اگست کے درمیان پاکستان نے اپنی سرزمین سے بھارتی ایلچی کو ملک بدر کر دیا اور تعلقات کو کم کر دیا۔
اسی سال 15 اگست کو پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے بھارت کو خبردار کیا تھا کہ اگر اس نے کشمیریوں کی نسل کشی کی تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اس کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے کشمیر کے بحران پر ایک غیر معمولی بند دروازے کا اجلاس منعقد کیا؛ اقوام متحدہ میں چین کے سفیر نے احتیاط کی اپیل کی اور اس وقت کے امریکی صدر ٹرمپ کو پاکستان اور بھارت دونوں کو تعلقات معمول پر لانے کی تلقین کرتے ہوئے سنا گیا جہاں مسئلہ کشمیر پر ایک بار پھر ثالثی کی پیشکش کی۔ "دی ہندو" اخبار کے مطابق اگلے دنوں کے دوران تقریباً 4000 احتجاج کرنے والے کشمیریوں کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا جس نے حکومت کو قیدیوں کو بغیر مقدمے کے دو سال تک رکھنے کی اجازت دی۔ 23 اگست کو بھارتی اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی اور ان کے وفد کو کشمیر میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔
چند دن بعد ایک اعلیٰ بھارتی بیوروکریٹ کنن گوپی ناتھن نے کشمیر سے بھارت کی ہینڈلنگ کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ لندن میں بھی احتجاج کیا گیا۔ اس کے بعد ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کرنے کے لیے ایک عالمی مہم شروع کی۔ 11 ستمبر کو امریکی سینیٹرز نے اپنے وزیر خارجہ مائیک پومپیو پر زور دیا کہ وہ بھارتی حکومت کو مقبوضہ کشمیر میں مواصلاتی تعطل کو فوری طور پر ختم کرنے پر مجبور کریں۔ اقوام متحدہ میں اپنے خطاب کے دوران ترکی کے صدر اردوگان نے اس بات پر زور دیا تھا کہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنا جنوبی ایشیا میں خوشحالی اور استحکام کی شرط ہے۔ اکتوبر میں ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد نے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے بھارت پر جموں و کشمیر پر حملہ آور ہونے اور قبضہ کرنے کا الزام لگایا تھا۔
اکتوبر 2019 کے چوتھے ہفتے کے دوران اقوام متحدہ، انسانی حقوق کے دفتر نے مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی پیش رفت پر اپنی انتہائی تشویش کا اظہار کیا تھا۔ دسمبر میں بھارت نے اپنا متنازع شہریت ترمیمی قانون منظور کیا تھا جس میں پاکستان ، افغانستان اور بنگلا دیش میں ہندو ، سکھ اور بدھ اقلیتوں کو ہجرت اور بھارت میں آباد ہونے کا حق دیا گیا تھا۔ جنوری 2020 کے دوران بھارتی سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ مقبوضہ کشمیر میں موبائل سروسز کی بندش غیر آئینی ہے۔ فاروق عبداللہ کو 13 مارچ کو رہا کیا گیا جبکہ ان کے بیٹے عمر عبداللہ کو 24 مارچ کو رہا کیا گیا۔ اگست 2019 کے پہلے ہفتے کے دوران حکمراں بی جے پی نے شہید بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کے افتتاح کا اہتمام کیا تھا۔
رپورٹوں میں بتایا گیا کہ 5 اگست 2019 سے 5 اگست 2020 تک مقبوضہ علاقے سے 11000 سے زائد نوجوان لاپتہ ہیں۔ کشمیر میڈیا سروس کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی کہ بھارتی فوجیوں نے اگست 2019 اور اگست 2020 کے درمیان 214 کشمیریوں کو شہید کیا جن میں چار خواتین اور 10 نوجوان لڑکے شامل ہیں۔ کہا گیا کہ علاقے میں پرامن مظاہرین اور سوگواروں پر بھارتی فوجیوں کے وحشیانہ طاقت کے استعمال کی وجہ سے کم از کم 1390 افراد شدید زخمی ہوئے۔
اس عرصے کے دوران ہونے والی ہلاکتیں 2011 ، 2012 ، 2013 ، 2014 ، 2015 اور 2019 کے مقابلے میں زیادہ تھیں۔ 5 فروری 2021 کو جموں و کشمیر کے پرنسپل سیکریٹری پاور اینڈ انفارمیشن روہت کنسال نے اعلان کیا کہ پورے مرکزی علاقے میں 4 جی انٹرنیٹ خدمات بحال کی جائیں گی۔ کئی دہائیوں سے عالمی سطح پر شور فریاد کے باوجود بدقسمتی سے وادی میں بھارتی کنٹرول میں قتل اور گرفتاریاں جاری ہیں۔