• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت، الگ پرچم کی شناخت اور آئین کا اختیار ختم کردیا

دو سال قبل آج ہی کے دن جب پاکستان بھر میں 14اگست کو جشن آزادی کی تیاریوں کا آغاز ہو رہا تھا اور دنیا بھر میں جہاں جہاں پاکستانی موجود تھے اور جوش و خروش کے ساتھ اپنی تیاریوں میں مصروف تھے وہیں دونوں طرف کے کشمیری عوام بھی 14 اگست کو پاکستانی پرچم لہرانے کے منتظر تھے تاہم اتنا فرق ضرور تھا کہ آزاد کشمیر میں یہ تیاریاں جگہ جگہ پاکستان اور آزادکشمیر کے پرچم لہرا کر کی جا رہی تھیں جبکہ مقبوضہ کشمیر میں پاکستانی پرچم مائیں،بہنیں اور بیٹیاں گھروں میں رازداری کے ساتھ تیار کر رہی تھیں تاکہ 14اگست کو پاکستان کا پرچم گھر کی چھتوں پر لہرانے سے قبل ہی بھارتی فوجی انہیں اپنی تحویل میں نہ لے لیں۔

لیکن یہ سب تیاریاں اس وقت شدید احتجاج میں تبدیل ہو گئیں جب بھارتی قیادت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا اعلان کر دیا گیا گوکہ اس فیصلے کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا جا رہا تھا جو بظاہر ناممکن نظر آتاتھا لیکن مودی حکومت اور خود نریندر مودی کی انتہا پسندانہ پالیسیوں اور جارحانہ عزائم کے پیش نظر یہ خدشات پیدا ہو چکے تھے کہ وہ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے کوئی بھی انتہائی اقدام کسی وقت بھی اٹھا سکتا ہے لیکن یہ اندازہ نہیں تھا کہ یہ سب کچھ اتنا اچانک ہو جائے گا کشمیری عوام پر یہ خبر سن کر جو گزری ہو گی اور جس سطح پر اور جس طریقے سے وہ اس فیصلے پر احتجاجاً ردعمل کا مظاہرہ کر سکتے تھے لیکن فیصلہ اتنا ظالمانہ تھا کہ بھارتی حکومت نے صورتحال کو بھانپتے ہوئے کشمیریوں کے ردعمل کو دبانے کیلئے مزید 70 ہزار فوج مقبوضہ کشمیر میں بھیج دی۔ 

پھر بھارت میں بھی کانگریسی رہنمائوں نے مسلمانوں کو اقلیت ثابت کرنے کیلئے اس اقدام کو بھارتی حکومت کی تاریخی غلطی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ بات بھی تاریخ ثابت کرے گی کہ اس فیصلے کے دوررس نتائج خود بھارت کیلئے نقصان دہ ہوں گےاور پاکستان بھی اس فیصلے پر جس طرح عملی طور پر احتجاج کیا گیا وہ بھی بھارت کیلئے پریشان کن تھا ایک طرف تو وزیراعظم عمران خان نے ہنگامی طور پر مسلمان عالمی رہنمائوں سے رابطے کرکے آئندہ کی حکمت عملی پر اعتماد میں لیا اس حوالے سے بین الاقوامی اداروں کو صورتحال سے آگاہ کیا تو دوسری طرف کورکمانڈرز کا ہنگامی اجلاس میں صورتحال پر غوروخوص کیا کشمیر کمیٹی کے ان کیمرہ اجلاس میں فیصلے کے تمام پہلوئوں پر غوروخوص کیا گیا ۔

بھارتی جبر و استبداد کا مقابلہ بے سروسامانی کے عالم میں تو کشمیری کئی دہائیوں سے کرتے آرہے تھے لیکن مودی حکومت نے اس صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے ظلم و ستم کے ہتھکنڈوں سے انہیں جھکانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے اپنی حکمت عملی تبدیل کی اور ایک انتہائی مکارانہ اقدام یہ کیا کہ بھارتی آئین میں موجود آرٹیکل370 ختم کر دیا جس کے ختم ہونے سے بھارتی آئین میں مقبوضہ کشمیر کی جو خصوصی اہمیت اور حیثیت تھی وہ ختم ہوگئی۔ اس آرٹیکل کے تحت اب غیر کشمیر ا فراد وہاں جائیدادیں بھی خرید سکیں گے اور سرکاری نوکریاں بھی حاصل کر سکیں گے اور بااثر اور معتمول ہندو تو کشمیری خواتین سے شادی کرنے کے عزائم کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ 

بھارتی آئین میں آرٹیکل35A اور آرٹیکل 370 کیا ہے اس کا اگر سرسری جائزہ لیا جائے تو اس معاملے کے دو حصے ہیں۔ اول آزادی کے موقعہ پر دوسرا تقریباً سات سال بعد۔ پہلے مرحلے1947 میں مہاراجہ ہری سنگھ جو و ادی کا حکمران تھا اس نے ابتدا میں یہ فیصلہ کیا کہ وہ ایک آزاد ریاست کی حیثیت سے رہے گا جبکہ وادی مسلمانوں کی کی واضح اکثرت کی حامل ریاست تھی اس لئے فطری طور پر اسے پاکستان کا حصہ بننا تھا۔1947 میں یہ بھارت نے اپنی فوجیں سرینگر میں اتار دیں اور طاقت کے ذریعے مہاراجہ ہری سنگھ کو بھارت سے الحاق کی دستاویز پر دستخط کرنے پر مجبور کردیا۔ 

اس دستاویز میں بھی مہاراجہ نے صرف جنگلوں میں اپنی خود مختاربھارت کو منتقل کرنے کی حامی بھری، دفاع خارجہ امور اور مواصلات اس کے علاوہ تمام امور پر جموں وکشمیر کے عوام اور انکی اسمبلی کا حق تھا او وہ ان کے انتظام انصرام اپنی مرضی سے چلانے کیلئے بااختیار تھے تاہم بعد ازاں جب 1949 میں بھارت کا آئین بن رہا تھا اور ریاستی اپنی آئینی تجاویز مکمل نہیں کی گئی تھیں تو اس آئین میں بھارت نے کشمیر سے متعلق آرٹیکل 370 بھی شامل کردیا جو سارے بھارت میں کسی اور ریاست کو حاصل نہیں تھا۔ اس بنیاد وہی دستاویز الحاق ہے جس پر مہاراجہ سے جبراً دستخط کرائے تھے لیکن بعد ازاں کشمیری لیڈروں کو یہ احساس ہوا کہ بھارت کے کچھ حلقے ریاست کی آبادی کی صورت کو بدلنا چاہتے ہیں خصوصاً اس حوالے سے کہ وہاں دیگر علاقوں سے لا کر نئی قوموں کو بسایا جائے۔ یہ ایک بڑی تشویش کی بات تھی اور کشمیری عوام اس بات کو قبول کرنے کیلئے کسی صورتحال بھی آمادہ نہیں ہوسکتے تھے کہ وادی میں ان کی اکثریت کو اقلیت بھی تبدیل کر دیا جائے اس بات کا اندازہ یا خوف کشمیریوںکو آزادی کے بعد پیدا نہیں ہوا تھا بلکہ آزادی سے قبل ہی ایک سے زیادہ مواقعوں پر یہ اندیشہ پیدا ہوا۔ 

ایک موقعہ پر اس وقت بھی جس مقامی آزادی کے خدشات دور کرنے کیلئے مہاراجہ نے وہ احکامات جاری کئے جس رو سے کشمیریوں کو یہ حقوق حاصل ہوگئے کہ ان کے علاوہ کوئی غیر کشمیری ریاست میں جائیداد خریدنے کا حق نہیں ر کھتا اور انہیں سرکاری نوکریاں اورسرکاری وسائل سے پیدا شدہ سہولتوں تک ترجیحانہ رسائی ہوتی تاہم ضرورت اس بات کی تھی ان کے حقوق کا تحفظ حامل دیا جائے لیکن دوسری جانب بھارتی بے چینی اور اضطراب کے عالم میں کشمیری آئین ساز اسمبلی سے الحاق کے دستاویز کی منظوری کا انتظار کررہی تھی۔ اس پس منظر میں وزیراعظم نہرو سے کشمیری قیادت کے ساتھ 1952 میں طویل مذاکرات کئے جس کے نتیجے میں ایک معاہدہ طے پا گیا جب کے تحت مذکورہ آئینی تحفظات فراہم کر دیئے جائیں گے اورکشمیر آئین ساز اسمبلی دستاویز الحق کی توثیق کر دے گی۔ 

چنانچہ اس تناظر میں 1954 میں بھارتی آئین کا نیا آرٹیکل 35A ایک صدارتی حکم کے ذریعے شائع کر دیا گیا کہ اس آرٹیکل کی رو سے ریاستی اسمبلی کو یہ اختیارات حاصل ہونگے۔(اول) ریاستی اسمبلی اس بات کا تعین کریگی کہ مقامی شہری (کشمیری) کون ہے۔(دو) ایسے مقامی اور مستقل شہریوں کو خصوصی توجہ دینی ہوگی جس میں سرکاری نوکریوں میں ترجیح دینا جبکہ دیگر لوگوں کو رہائش کی مشروط اجازت دیتا۔ مقامی شہریوں کو دیگر سرکاری سہولیات کی ترجیح کی فراہمی اور جائیداد کا حق مقامی شہریوں تک محدود کرنا۔ لیکن جموں و کشمیر میں مودی حکومت نے آرٹیکل 370 نافذ کرنے کے وار سے صورتحال میں کیا تبدیلی آئی ہے اس سے مودی حکومت کے عزائم کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ جموں وکشمیر کے پاس دوہری شہریت ہوتی ہے۔ جموں وکشمیر کی کوئی خاتون اگر ہندوستان کی کسی ریاست کے شخص سے شادی کرے تو اس خاتون کو جموں وکشمیر کی شہریت ختم ہو جائے گی۔ 

اگر کوئی کشمیری خاتون پاکستان کے کسی شخص سے شادی کرے تو اس کے شوہر کو بھی جموں وکشمیر کی شہریت مل جاتی ہے۔ جموں وکشمیر ہندوستان کے ترانے یا قومی علامتوں کی بے حرمتی جرم نہیں ہے۔ یہاں ہندوستان کی سپریم کورٹ کا حکم بھی قابل قبول نہیں۔ جموں و کشمیر کا جھنڈا الگ ہوتا ہے۔ بھارت کا کوئی بھی عام شہری ریاست جموں وکشمیر کے اندر جائیداد نہیں خرید سکتا اور یہ قانون صرف بھارت کے عام شہریوں تک ہی محدود نہیں بلکہ بھارتی کارپوریشنز دیگر بھی اور سرکاری اداروں پر بھی لاگو ہوتا ہے کہ وہ ریاست کے اندر بلا قانونی جائیدادیں حاصل نہیں کر سکتیں۔ جموں وکشمیر میں خواتین پر شریعت قانون نافذ ہوتا ہے۔ یہاں پنچائیت کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے۔ 

جموں وکشمیر کی اسمبلی کی مدت کار6 سال ہوتی ہے جبکہ ہندوستان کی دیگر ریاستوں کی اسمبلی کی مدت کار پانچ سال ہوتی ہے۔ ہندوستان کی پارلیمنٹ جموں وکشمیر کے سلسلے میں بہت ہی محدود دائرے میں قانون بناسکتی ہے لیکن اس کے نفاذ میں آرٹیکل 370 ایک فیلٹر کی حیثیت رکھتا تھا۔ جسے ختم کرنے سے اب تمام صورتحال تبدیل ہوگئی اور مقبوضہ کشمیر میں رہنے والے کشمیری ان تمام مراعات اور استحقاق سے محروم کر دیئے گئے ہیں۔ بھارتی آئین کے آئین آرٹیکل360 کے تحت بھارت کی وفاقی حکومت کسی ریاست یا پورے ملک میں مالیاتی ایمرجنسی نافذ کرسکتی ہے۔ 

تاہم آرٹیکل 370 کے تحت بھارتی حکومت کو جموں و کشمیر میں اس اقدام کی اجازت نہیں تھی۔ بھارت کی جانب سے آرٹیکل 370 ختم کئے جانے کے خلاف پوری وادی میں احتجاج کو کم وبیش چھ ماہ ہونے کو آئے ہیں لیکن حالات نہ صرف بدترین ہو چکے ہیں بلکہ ان میں بہتری تو کجا معمول پر آنے کے بھی کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے۔ 5 اگست 2019 سے نافذ کئے جانیوالا کرفیو ابھی تک جاری ہے پوری وادی محاصرے میں ہے، مواصلاتی نظام منجمد کر دیا گیا ہے،5 اگست کو کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کرنے کے ساتھ ساتھ بھارت نے پوری ریاست پر سخت مواصلاتی پابندیاں نافذ کر دی تھیں جن کی زد میں سوشل میڈیا بھی بری طرح آیا لیکن خبر کے ذریعے خاموش کی جانیوالی آوازیں آج بھی چیخوں کی طرح شور مچارہی ہیں۔ 

احتجاج کررہی ہیں۔ التجا کررہی ہیں اپنے حقوق کیلئے آواز اٹھارہی ہیں جنہیں سننے کے لئے سماعتوں کی نہیں بلکہ دل اور بیدار ضمیر کی ضرورت ہے بھارت نے غیر ملکی صحافیوں، تجزیہ نگاروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں پر مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرنے کی غیر اعلانیہ پابندی عائد کر رکھی ہے البتہ اپنے ہم خیال طبقات کو وہاں لے جانے کیلئے خصوصی اقدامات کئے جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں نئی دہلی میں متعین غیر ملکی سفیروں کو وادی کا دورہ کرانے کی دعوت دی گئی تو ان شخصیات کو فہرست میں شامل نہیں کیاگیا جنہوں نے و ادی میں آزادانہ گھوم پھر کرعوام کے جذبات جاننے اور حالات کا اپنی مرضی کے مقامات پر جا کر جائزہ لینے کی خواہش ظاہر کی تھی کشمیری رہنمائوں آل پارٹی حریت کانفرنس اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے ارکان سے رابطہ کرنے پر زور دیا تھا لیکن انہیں بتایا کہ ایسا ممکن نہیں ہے چنانچہ سفیروں اور دیگر سفارتکاروں کی بڑی تعداد نے وادی کا دورہ کرنے سے انکار کردیا۔

05اگست2019ء کے بعد کے منظر نامے کے معروضی جائزہ کی ضرورت ہے۔کشمیر کے عوام کی غیر مسلح مزاحمت نے ایک بار پھر پوری دنیا پر واضح کردیا ہے کہ بھارت کا اپنی دس لاکھ فوج کی تعیناتی کے ساتھ جموں و کشمیر پر قبضہ غاصبانہ ہے جسے برقرار رکھنا مشکل تر ہوتا جارہا ہے اور اس کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں اور چارٹر کے مطابق ہونا چاہیے۔اس کے علاؤہ برادر اسلامی ممالک ترکی اور ملائیشیا کے صدور جناب رجب طیب اردگان اور جناب مہاتیر محمد کے حقیقت پسندانہ اور جرات مندانہ موقف نے بھی اس مسئلہ کی اہمیت کو اجاگر کیاگو کہ ان ممالک کو بھارت کے شدید ردعمل کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ 

مسلم اُمہ کے دیگر ممالک بالخصوص سعوی عربیہ اور متحدہ عرب امارات کا اس مسئلہ پر مظلوم کشمیریوں کے حق میں آواز نہ اُٹھانا اذیت ناک ہونے کے ساتھ ساتھ مایوسی کا سبب بھی بنا۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے بھی بھرپور انداز سے اس مسئلہ کو اقوام عالم کے سامنے پیش کیا اور اسکے تاریخی اور انسانی حقوق کے پہلوؤں سے آگاہ کیا۔ ہندتوااور مودی کے فاشٹ فلسفے کو ہٹلرکے فلسفے سے خطرناک قرار دیکر بھی انہوں نے بھرپور سفارتی حملہ کیا جس پر انھیں ملک بھراور بالخصوص کشمیری عوام کی جانب سے بھرپور ستائش بھی ملی۔ تاہم اتنی جامع ، مدلل اور جارحانہ تقریر کے فالو اپ میں سفارتی سطح پر جو سرگرمیاں اور اقدامات فوری کیے جانے تھے نہ تو وہ نظر آئے اور نہ ہی اسکے بعد کوئی موثر سفارتی ایکشن پلان نظر آیا۔

کشمیر کی آزادی کی تحریک کے اس نازک موڑ پر ایک تاریخی مغالطے، مسلسل پراپیگنڈے اور جھوٹ کا پردہ چاک کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔کشمیر کے حوالہ سے لکھی جانے والی آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی تاریخی دستاویزی کتاب

" Kashmir A Disputed Legacy 1846-1990"کے مصنف الیسٹرلیمب لکھتے ہیں کہ "The fact that the Indian troops arriving at Srinagar Airport on 27 October 1947 found other Indian troops, in the shape of Patiala men, already established there and elsewhere in the state. The Patiala forces had arrived, it seems, on about 17 October 1947, that is to say before the tribal crossing of the bridge at Domail on 22 October".

یوں انڈین نواز لابی کا یہ پراپیکنڈہ کہ سری نگر پر بھارتی فوج قبائلیوںکے جواب میں مہاراجہ کی درخواست پر اتاری گئی تھی سراسر بے بنیاد ہے۔یہی مصنف لکھتے ہیں کہ مہاراجہ کی جانب سے بھارت کے ساتھ کیا گیا الحاق (Accession) بھی ریاستی عوام کی مرضی کے مطابق رائے شماری سے مشروط تھا جسکو بھارت سرکار نے آج تک منظر عام پر نہیں آنے دیا۔

مسئلہ کشمیر صرف زمین کے ایک ٹکڑے کا مسئلہ نہیں بلکہ ڈیڑھ کروڑ عوام کے حق ِخودارادیت اور انسانی حقوق کا مسئلہ ہے ۔جسے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں کشمیری عوام کی امنگوں اور خواہشات کے مطابق" رائے شماری" کے ذریعے ہی حل ہوناچاہیے۔ مسئلہ کا سب سے اہم فریق کشمیر کے عوام ہیں جنکی مرضی کے بغیر کوئی حل قابل قبول نہ ہوگا اور اقوام متحدہ کے چارٹر پر یہ مسئلہ ابھی تک ناقابل تصفیہ موجود ہے ۔گزشتہ سالوں میں سکاٹ لینڈ سمیت چند دیگر جگہوں پر بین الاقوامی برادری،انٹرنیشنل میڈیا اوردیگر مبصر گروپس کی موجودگی میں شفاف،آزادانہ ریفرنڈم کروایا گیا۔

کیا عالمی برادری اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے چیمپئین بالخصوص امریکہ ،برطانیہ اور یورپی یونین وغیرہ کشمیر کی آزادی کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اسطرح کا ریفرنڈم اور رائے شماری کروا کر اس انسانی المیہ کا خاتمہ نہیں کرواسکتی؟

اگر حکومت پاکستان آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے اندر اقوام متحدہ کے نمائندگان ،ملکی و بین الاقوامی میڈیا اور دیگر عالمی مبصرین کی موجودگی میں شفاف اورآزادانہ رائے شماری کروائے اور اسی طرز پر عالمی برادری اور اقوام متحدہ سے اپیل کرے کہ وہ مودی سرکار کو بھی اسی طرح کی رائے شماری مقبوضہ کشمیر میں کروانے پر مجبور کرے تواسطرح اقوام متحدہ کی قراردادوں کے عین مطابق کشمیر کے حل کے لیے حکومت پاکستان عالمی سفارتی حلقوں کا بھرپور تعاون حاصل کرتے ہوئے بھارت پر بے پناہ دباو ڈال سکتی ہے ۔

اس وقت مسئلہ کشمیر ایک نیوکلیئر فلیش پوائنٹ بھی بن چکا ہے کیونکہ بھارت اور پاکستان دونوں ایٹمی طاقیتں ہیں اور اگر بین الاقوامی برادری اور اقوام متحدہ نے اس انسانی مسئلے کو حل کروانے میں مدد نہ کی تو کسی بھی وقت ایٹمی جنگ چھڑ سکتی ہے۔جنوبی ایشیاء کے پر امن اور مستحکم رہنے کی کنجی کشمیر کے مسئلے کے حل میں ہے۔

مسلح افواج پاکستان کا کردار مسئلہ کشمیر پر ہمیشہ سے مثالی رہا ہے۔ پاک فوج کے سپہ سالار ’’ کشمیر پاکستان کی شہ رگ‘‘ کے بیان کا اعادہ ہر وقت کرتے ہیں اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ مختلف انٹرنیشنل فورمز پر مسئلہ کشمیر کی مسلمہ اہمیت کا اعادہ کرچُکے ہیں۔

منفرد انداز تخاطب اور تحریر کی مالک معروف بھارتی مصنفہ برکھا دت اپنی کتاب "This Unquiet Land, Stories from India's Fault lines" میں کشمیر کے حوالہ سے لکھے گئے باب ـA Chronicle of Kashmirمیں یوں رقمطراز ہیں

The scars of Jammu & Kashmir insurgency have often been measured by body bags and coffins and by statistics and sorrows. What's together to understand and easier to forget is the impact of this continuous, unabated violence on the deepest recesses of mind.

بھارت نے ظلم و بربریت روایتی اور غیر روایتی تشدد کے ہتھکنڈوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ اسرائیل سے حاصل کی گئی پیلٹ گنز اور دیگر مہلک ہتھکنڈوں اور ہتھیاروں کا زیادہ تر استعمال نوجوان نسل پر کیا جاتا ہے تاکہ اس نسل کو ذہنی اور جسمانی طور پر اپاہج کر کے اس کے دل و دماغ سے آزادی کی سوچ کو ہمیشہ کیلئے ختم کیا جاسکے۔ اس کے علاوہ بظاہر نظر نہ آنیوالے تشدد ، ٹارچر اور ذہنی خوف و کرب جو کہ ماہرین نفسیات رپورٹ کر رہے ہیں سے بھی وادی کے اندر رہنے والے ہر عمر کے افراد بالخصوص نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو ذہنی اور جسمانی طور پر مفلوج کررہا ہے۔

دو سال قبل برہان وانی شہید کی شہادت سے مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی ایک نئی لہر اٹھی تھی جس کو 05اگست 2019ء کے بھارتی حکومت کے آرٹیکل 370کے خاتمہ کے اقدام نے مزید تیز تر کردیا ہے ۔ اس وقت مقبوضہ کشمیر کے پہاڑوں ، جنت نظیروادیوں ، دریاؤں ، مرغزاروں ، شہروں قصبوں اور دیہاتوں سے "آزادی"کی آواز فضا میں بلند ہورہی ہے جس سے بھارتی ایوانوں میں بیٹھے حکمرانوں کی راتوں کی نیند اور دن کا چین غارت ہوچُکا ہے۔ 

بھارت نے اس وقت سیاسی وسماجی اجتماعات اور نماز جمعہ کی نماز سمیت دیگر تمام سرگرمیوں پرمکمل پابندی عائد کررکھی ہے۔ عملاً80لاکھ مسلم آبادی محصور کی جاچُکی ہے۔ اس وقت وادی میں مواصلاتی نیٹ ورک کا مکمل بلیک آؤٹ چل رہا ہے، انٹرنیٹ سروسز اور سوشل میڈیا کے استعمال پر بھی پابندی عائد ہے۔اگست 2019ء سے اس وقت تک وادی کے لوگ مکمل کرفیو میں زندگی گزار رہے ہیں۔ غذائی قلت اور اشیائے خوردونوش کا قحط پڑ چُکا ہے، تعلیمی ادارے بند ہیں، ہسپتال اور دیگر علاج معالجہ کے سنٹرز ادویات کی عدم فراہمی اور ڈاکٹرز کی موجودگی نہ ہونے کی وجہ سے تقریباً مفلوج ہوچُکے ہیں۔ کاروبار مکمل ختم ہوچُکے ہیںاور اب زبان ، کلچر ، ادب اور دیگر سوشل اقدار کو بھی ختم کیا جارہا ہے۔

تمام تاریخی عمارتوں ، سڑکوں اور جگہوں کے نام بھی تبدیل کرکے تاریخ کو مسخ کرنے کا ایک تاریخی کھلواڑ کیا جارہا ہے۔بھارتی حکومت ہر وہ اقدام کررہی ہے جس سے کشمیر کے تشخص اور تاریخ کو ہمیشہ کے لئے ختم کردیا جائے۔ 10لاکھ بھارتی فوج کا تشدد ، گھروں سے نوجوانوں کو اٹھاکر غائب کردینا، گھر گھر تلاشی، نوجوان عورتوںاور بچیوںپر تشدد اور عصمت ریزی سمیت ، جموں اور وادی میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کے لئے ہرحربہ استعمال کررہا ہے۔

نوجوانوں کو اغواء کرنا اور شدید سردی کے موسم میں تشدد کرکے برف پر لیٹانے کی ویڈیوز انسانی حقوق کے اداروں کا منہ چڑھا رہی ہیں۔ جبر وطاقت کے سینکڑوں ہتھکنڈوں کے علاوہ اپنی منظور نظر سیاسی ، علاقائی و لسانی پارٹیوں کے ذریعہ سے تحریص و ترغیب، معاشی ترقی کے پیکجز اور وعدے بھی کئے جارہے ہیں مگر ہندوستان کا ہر ایک حربہ اس وقت ناکام ہورہا ہے۔

بھارت کے اند ر اس وقت شہریت کے قانون میں تبدیلی کے باعث دیگر درجن کے قریب ریاستوں میں مسلمان، سکھوں ، عیسائیوں ، بنگالیوں اور نچلی ذات کے ہندووں سمیت دیگر اقلیتی عوام بھرپور احتجاج کررہے ہیں اور شہروں کو میدان جنگ بنایا ہوا ہے۔ان نہتے اور مظلوم شہریوں پر بھی مودی حکومت فوج کے ذریعہ سے تشدد کروا رہی ہے۔ تعلیمی اداروں بالخصوص یونیورسٹیز اور کالجز کے طلباء و طالبات پر تشدد کے مناظر پوری دُنیا دیکھ چُکی ہے۔بھارتی ریاست کے ان جبری ہتھکنڈوں کو بھی اقوام عالم کے سامنے ایکسپوز کرنے کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین