الحمدللہ، وطن ِ عزیز کے قیام کو چوہتر سال مکمل ہورہے ہیں اور پچھتر ویں سال کا آغاز ہورہا ہے۔ اس مناسبت سے پاکستان میں تخلیق کیے گئے اردو ادب کا جائزہ اصناف کی تاریخ اوراہم کتابوں اور نمایاں لکھنے والوں کے ذکر کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے، اس اس سلسلے کی پہلی قسط جو پاکستانی اردو ادب کے سیاسی ، سماجی اور تہذیبی پس منظر پر مبنی ہے ،نذر ِ قارئین ہے ۔
……٭٭……٭٭……٭٭……
چودہ اگست ۱۹۴۷ء کی مبارک صبح طلوع ہونے والے نئے سورج نے جب اس نئے اور آزاد وطن پر اپنی نرم کرنیں بکھیریں تو یہ پیغام بھی ساتھ لایا کہ اردو ادب جو اس وقت تک ایک خطے میں تخلیق ہورہا تھا اب دو الگ الگ آزاد ملکوں میں لکھا جائے گا اور اپنے نئے سیاسی، سماجی، مذہبی، تہذیبی، قومی، تاریخی ، لسانی اور جغرافیائی تناظر میں تخلیق ہوگاکہ ادب معاشرے سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ ۱۹۴۷ء نے جہاں تاریخی ، سیاسی اور جغرافیائی لحاظ سے حد بندی کا کام کیا وہاں اس نے اردو کی ادبی، فکری اور لسانی تاریخ کو بھی دو حصوں میں تقسیم کردیا ۔
قیام ِ پاکستان نے فکر کے زاویوں میں تبدیلی پیدا کردی اور ترقی پسند تحریک کے زیر ِ اثر جو موضوعات پہلے مسلمات کا درجہ رکھتے تھے اب ان کے بارے میں تشکیک اور انکار کی فضا پیدا ہوگئی۔ ایک بڑی تبدیلی یہ بھی آئی کہ ادیبوں اور بالخصوص ترقی پسندوں کا رویہ قومی تہذیب سے متعلق بیگانگی بلکہ دشمنی کا تھا اور تہذیبی روایات کو رجعت پسندی کہہ کر ٹھکرادیا جاتا تھا۔لیکن آزادی کے بعد اس مخالفت میں وہ شدت نہ رہی اور بعض ترقی پسندوں نے کہا کہ ادب تہذیبی سرمائے کا محافظ ہوسکتا ہے بشرطے کہ اس کی بنیاد انسان دوستی پر ہو.
البتہ ترقی پسندوں کا عمومی رویہ پاکستان کے بارے میں وہی رہا جو پہلے تھا یعنی مخاصمانہ اور کئی ایک نے پاکستان کواپنا وطن سمجھنے سے انکار کیا اور اسے انگریزوں کی تخلیق قرار دیا۔فیض احمد فیض نے اگست ۱۹۴۷ء میں جو نظم کہی اس میں آزادی کو ’’داغ داغ اجالا‘‘ اور ’’شب گزیدہ سحر‘‘ کہا۔ ظاہر ہے کہ جن لوگوں نے پاکستان کے لیے قربانیاں دی تھیں اور جن کے پیارے آزادی کی راہ میں شہید کیے گئے ان کے لیے یہ بات تکلیف دہ تھی کہ ان کے خوابوں کی سرزمین کو اس طرح پکارا جائے۔ چنانچہ رد عمل کے طور پرایک فکری کش مکش شروع ہوگئی اور ایک ادبی تحریک ابھری جسے پاکستانی ادب کی تحریک کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
یہ قیام ِ پاکستان کے بعد اولین ادبی تحریک تھی اور اس نے پاکستان کی سرزمین کے لحاظ سے ارضِ پاکستان اور اسلامی نظریات پر زور دیااور ادب کی تخلیق کے لیے دونوں کا امتزاج ضروری سمجھا۔ اس تحریک نے ریاست سے وفاداری اور پاکستانی ادب کا بھی سوال اٹھایا۔اس تحریک کے علم برداروں میں حسن عسکری، ممتاز شیریں اور صمد شاہین شامل تھے۔ پاکستانی ادب کا سوال اس لیے بھی اٹھاتھا کہ ترقی پسندوں نے قیام ِ پاکستان کو آزادی کے وقت ہونے والے ہول ناک فسادات کی وجہ ٹھہرایا۔
جبکہ کئی ترقی پسندوں مثلاً کرشن چندر نے، بقول ممتاز شیریں ، ان فسادات کی عکاسی کرتے وقت دانستہ توازن پیدا کرنے کی کوشش کی اورمسلمانوں پر ہونے والے ہول ناک مظالم کو نظر انداز کردیا بلکہ پشاور ایکسپریس جیسے افسانوں سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ سرحدکے دونوں طرف برابر مظالم ہوئے ۔ڈاکٹر تاثیر اور حسن عسکری نے پاکستانی ادب کا سوال اگست ۱۹۴۷ء سے پہلے اٹھادیا تھا اور تاثیر نے ادیبوں سے سوا ل کیا تھا کہ کشمیر کے مسئلے پر ان کا موقف کیا ہے ۔
قیام ِ پاکستان کے بعد ایک اور ادبی تحریک نے جنم لیا تھا جو تحریکِ ادبِ اسلامی کہلائی۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ دراصل عسکری صاحب نے پاکستانی ادب کا نعرہ لگا کر بعد میں اسے اسلامی ادب میں تبدیل کردیا۔ بلکہ ایک طرح سے اسلامی ادب اور پاکستانی ادب کو گڈ مڈ کردیا گیا۔
تحریکِ ادبِ اسلامی سے وابستہ خاصے لوگ چونکہ جماعتِ اسلامی سے منسلک تھے لہٰذا اس تحریک کا ایک سیاسی پہلو بھی تھا اور اس کی مخالفت کی ایک وجہ غالباً اس کا جماعتِ اسلامی سے فکری طور پر سے متاثر ہونا بھی تھا۔ البتہ پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی اور اس سے وابستہ لوگوں کی پکڑ دھکڑ سے جہاں ترقی پسند ادبی تحریک کسی حد تک کم زور پڑگئی وہاں اس کی مخالفت میں چلنے والی تحریکِ ادبِ اسلامی اور پاکستانی ادب کی تحریک بھی اپناجوش کھو بیٹھیں اور رفتہ رفتہ ان کا وجود براے نام رہ گیا۔
ترقی پسند ادبی تحریک کا رد عمل پاکستان میں اور طرح سے بھی آیا ۔دراصل جدیدیت کی تحریک کو بھی کچھ لوگ ترقی پسندی کی مخالفت قرار دیتے ہیں اور علامت نگاری کے رجحان کو بھی اسی کا شاخسانہ سمجھا گیا۔ ایک زمانے میں حلقۂ ا رباب ِ ذوق کو بھی ترقی پسندوں نے اپنا مخالف سمجھا حالانکہ حلقے نے کبھی ان کی مخالفت نہیں کی ، بعض ارکان انفرادی طور پر مخالف تھے بھی تو اس میں شدت نہیں تھی لیکن ترقی پسند ادیب حلقے کو اپنا مخالف سمجھتے رہے اور اس کے خلاف اپنا غبار نکالتے رہے ،مثلاً سردار جعفری نے اپنی کتاب ترقی پسند ادب اور سجاد ظہیر نے روشنائی میں حلقے کو نشانہ ٔ تنقید بنایا۔ بقولِ قیوم نظر حلقے نے ۱۹۴۱ء کی بہترین نظمیں کے عنوان سے جو انتخاب شائع کیا تھا اسے علی گڑھ میں ترقی پسندوں نے سرِ راہ نذرِ آتش کیا اور اس کی راکھ جوتوں سے بکھیری ۔
نو زائیدہ ملک کے سیاسی اور سماجی حالات پر محمدخالد اختر نے اپنے طنزیہ فنطاسیہ ناول بیس سو گیارہ (اشاعتِ اول ۱۹۵۰ء) میں خوب طنز کیا ہے ۔ اس ناول میںانھوں نے یہ پیغام دینا چاہا کہ پاکستان اور ہندوستان دونوں ملک دراصل فسطائی ہیں ۔ ناول کا مرکزی خیال انھوں نے جارج اورویل (George Orwell) کے معروف ناول نائینٹین ایٹی فور (Nineteen Eighty-four) (اشاعتِ اول ۱۹۴۹ء) سے لیا جو غاصبانہ حکومتوں پر طنز ہے۔ خالد اختر کا ناول چاکی واڑا میں وصال پا کستان کے اولین دارلحکومت کراچی کی معاشی اور تجارتی زندگی پر ہے جس نے کراچی کی ایک بستی چاکی واڑاکو زندہ کردیا ۔ ابتدائی دور کے کراچی کے صنعتی معاشرے کی عکاسی شوکت صدیقی کے ناول خدا کی بستی میں خوب کی گئی ہے ۔
کراچی کے تجارتی کلچر اور کاروباری مزاج پر محمد خالد اختر نے چچا عبدالباقی کی کہانیوں میں بھی طنز کیا ہے۔اس طرح جو لوگ اردو ادب پر اعتراض کرتے ہیں کہ انگریزی ادب کے برعکس اس میں مقامیت نہیں ہوتی بلکہ عمومیت ہوتی ہے اور جو واقعات پیش کیے جاتے ہیں وہ دنیا میں کہیں بھی وقوع پذیر ہوسکتے ہیں ان کی تردید کے لیے خالد اختر کی کتابیں ہی کافی ہیں ۔ پاکستان کے معاشرے، ماحول اور ثقافت کی عکاسی اور اس کی سرزمین کی خصوصیات پاکستانی اردو ادب میں بھرپور طور پر موجود ہیں۔
پاکستان کی زمین کے تعلق سے ایک ادبی تحریک ارضی ثقافتی تحریک کے نام سے بھی چلی۔ وزیر آغا کے بقول پاکستانی ادب اور ثقافت کی تشکیل میں مذہب کے علاوہ (یعنی سماوی عناصر کے علاوہ) ارضی عناصر یعنی مٹی، ہوا ، موسم اور تاریخ نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس تحریک نے نسلی اور روحانی سرمائے کو بھی اہم قرار دیا۔
لیکن کچھ نقادوں نے اس تحریک کی مخالفت یہ کہہ کر کی کہ یہ ہندو دیو مالا اور دھرتی پوجا کے نظریے کو فروغ دینے کی ذمے دار تھی اور وحید قریشی کا خیال تھا کہ زمینی رشتوں پر زور دینے کا نتیجہ فرزندِ زمیں (son of the soil) جیسے خیالات کے زور پکڑنے کی صورت میں نکلا اور اس کی کوکھ سے علاقائیت کے فتنے نے جنم لیا۔دراصل اس نو زائیدہ مملکت کو جہاں دیگر سماجی اور معاشی مسائل نے گھیر رکھا تھا وہاں ایک اہم مسئلہ مقامی اور مہاجر کی تقسیم نے کھڑا کردیا تھا۔ معاشی عدم اطمینان کا نتیجہ وسیع تر قومی مفاد اور قومی یک جہتی کی بجاے محدود قسم کی مقامیت، جغرافیائی اور علاقائی حد بندیوں پر زور دینے کی صورت میں نکلا ، بلکہ قومی کلچر کی بجاے ذیلی کلچر پر اصرارنے ایک خوف ناک جنگ کی صورت اختیار کرگیا۔
۱۹۵۵ء میں ون یونٹ کے قیام سے صوبوں کے درمیان تفاوت بظاہر کم ہوا لیکن دراصل سندھ، بلوچستان اور مشرقی پاکستان پر اس کے نہایت مضر اثرات پڑے جو اندر ہی اندر لاوے کی طرح کھولتے رہے۔ سندھیوں، بلوچوں اور بنگالیوں کی شکایات اور احساسِ محرومی میں اضافہ ہوتا گیا ۔قومی زبان اور دیگر پاکستانی زبانوں میں تصادم کی صورت پیدا ہوتی گئی ۔
مقامی اور مہاجر کے جھگڑے نے ان لوگوں میں ایک عجیب کیفیت پیدا کردی جنھوں نے اپنا گھر بار ، گلیاں اور اجداد کی قبریں چھوڑ کر ہجرت کی تھی۔ان کے ذہن میں سوالات اٹھنے لگے کہ کیا ہم اپنے نئے وطن میں اجنبی ہیں؟ یہ کرب اردو ادب میں بھی جھلکا ۔بلکہ ہجرت اور اس کے اثرات پوری دنیا کے ادب کا اہم موضوع ہے اور۲۰۰۸ء کا نوبیل انعام بھی جس ادیب کو دیا گیا اس کی تحریریں تارکینِ وطن کی مشکلات اور کرب کو موضوع بناتی ہیں۔
ہجرت کو موضوع بنانے کے ضمن میں انتظار حسین کا نام بطور خاص لیا جاتا ہے گو ان پر ماضی پرستی یا ناسٹلجیا (nostelgia)کا الزام بھی لگا۔ کراچی میں مہاجروں اورپٹھانوں کے درمیان ہونے والے فسادات کے بعد ایوب خان سے یہ جملہ منسوب کیا گیا کہ مہاجروں کے لیے آگے سمندر ہے ۔ انتظار حسین کا ناول آگے سمندر ہے اسی کی باز گشت ہے۔ ان کے ناول بستی کو تارکین وطن کا نوحہ کیا گیا ۔
۱۹۵۸ء کا مارشل لا کسی سانحے سے کم نہ تھا ۔ لیکن آمریت کو خوش آمدید کہنے والوں نے نہ صرف مارشل لا کے حق میں مضامین لکھے اور کتابیں بھی چھپوائیں بلکہ بعض تنظیمیں بھی بنائیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستان رائٹرز گلڈ کا قیام بھی دراصل مارشل لا کے لیے ادیبوں کی وفاداری حاصل کرنے کے لیے عمل میں لایا گیا تھا ۔ جن لوگوں نے مارشل لا کی حمایت میں لکھا ان کی ایک طویل فہرست ہے، لیکن با ضمیر ادیبوں نے مارشل لا کے خلا ف صداے احتجاج بھی بلند کی اور اس کی پاداش میں بہت کچھ صعوبتیں بھی اٹھائیں۔ دوسری طرف حلقہ ٔ اربابِ ذوق میں چونکہ مختلف الخیال ادیب اور شاعر موجود تھے لہٰذا ان کی طرف سے بھی تحریری احتجاج سامنے آیا ۔ گو مارشل لا کے خلاف اہل قلم کی جانب سے ایسا احتجاج سامنے نہیں آیا جو آنا چاہیے تھا ۔غالباً کچھ لوگوں نے عہدے ، اعزازات ، انعامات اور غیر ملکی دوروں سے فیض یاب ہونا اختلاف ِ رائے سے بہترسمجھا۔
البتہ بعض نقادوں کے نزدیک پاکستانی ادیب مارشل لا کے خوف اور اظہار رائے پر پابندیوں کے نتیجے میں داخلیت کی طرف مائل ہوگئے اور اس زمانے میں اردو غزل کے احیا میں شاید اس کا بھی کچھ ہاتھ تھا۔ کچھ لوگوں نے علامت نگاری میں پناہ ڈھونڈی ۔ اسی دور میں جدیدیت بھی عروج پر آئی ۔ ۱۹۶۰ء کے لگ بھگ لاہور میں ایک نئی ادبی تحریک چلی جس کو نئی شاعری کی تحریک کا نام دیا گیا۔ پاکستانی اردو ادب میں ۱۹۶۰ء کے بعد آنے والے ان تمام رجحانات اور تحریکوں کو مارشل لا سے جوڑنا تو درست نہ ہوگا لیکن بہرحال مارشل لا کے کچھ نہ کچھ اثرات ضرور ان ادبی رجحانات کی تہہ میں کام کررہے تھے۔ کیونکہ اہل قلم کے اضطراب نے تخلیقی سطح پر اظہار کی راہ ضرور پائی اور اس کا ظہور مختلف اصناف میں ہوا۔
اسی تحریک کے نتیجے میں افتخار جالب نے نئی لسانی تشکیلات کی بات کی۔ لیکن اس تحریک نے اپنے ادب پاروں کے ذریعے اس نئی زبان اور اسلوب کی تشکیل کرنے میں عملی طور پر کوئی خاص یا کامیاب کوشش نہ کی جس کا وہ پرچار کرتے تھے گو پرانے لسانی ڈھانچے اور اسلوب کو وہ رد بھی کرتے رہے۔ اگر کسی نے عملاً یہ دکھایا کہ نئے دور کی نئی اردو زبان اور نیا شعری اسلوب کیا ہوگا تو وہ ظفر اقبال تھے جنھوں نے اپنی شاعری اور زبان سے کچھ عرصے کے لیے ہلچل مچائے رکھی ۔ گو ان کی زبان اور شاعری کے خلاف بھی بہت کچھ لکھا گیا لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ ظفر اقبال نے بڑے اعتمادسے نئی پاکستانی اردو زبان اور نئی پاکستانی اردو غزل کی تشکیل میں اپنا حصہ ڈالا، معاصر احساس کو بھی پیش کیا اور بہرحال اپنے اثرات قائم کیے(یہ اور بات ہے کہ اب وہ خود کو نقصان پہنچا رہے ہیں)۔
ادبی ہل چل کے اس دور میں ۱۹۶۵ء کی جنگ نے پاکستانی معاشرے کوا نتشار اورتصادم سے ہٹا کر،گو وقتی طور پر ہی سہی ،اتحاد اورقومی احساسات کی لڑی میں پرو دیا۔۱۹۶۵ء کی جنگ کے تناظر میں تخلیق کیے گئے ادب کا خاصا حصہ گو وقتی اور ہنگامی نوعیت کا تھا لیکن اس نے پاکستانی اردوا دب اور بالخصوص شاعری کو پاکستانی قوم کی امنگوں کا ترجمان اورقومی یک جہتی کا عکاس بنادیا۔ ۱۹۶۵ء کی جنگ کے پس منظر میں لکھا گیا ادب پاکستان کی ادبی تاریخ کا روشن باب ہے۔ لیکن افسوس کہ ان جنگی ترانوں اور شادمانی کے نغموں کی جگہ بہت جلد دعا، نوحوں اور مناجات نے لے لی کیونکہ سقوطِ مشرقی پاکستان کا سانحہ رونما ہوچکا تھا۔اس قومی سانحے نے ہماری شاعری پر وقتی اور جذباتی ردعمل کے علاوہ کچھ دیرپا اثرات بھی مرتب کیے جو ہمارے قومی شعور اور فکر کا حصہ بن گئے ۔
سانحہ ٔ سقوطِ مشرقی پاکستان کے المیے کا اظہار ہمارے ادب میں نہ صرف یہ کہ ۱۹۶۵ء کی جنگ کی نسبت زیادہ ہے بلکہ زیادہ فن کارانہ اور معروضی ہے اور اس کے بعض الم ناک پہلو افسانوں کی صورت میں بھی پیش کیے گئے۔اردو فکشن پر سقوطِ مشرقی پاکستان کے اثرات نمایاں ہیں ۔اردو شعرا نے بھی اس سانحے پر بعض نہایت متاثر کن منظومات پیش کیں۔ اس سانحے کے بعد لکھی گئی پاکستانی اردو غزل بھی تخلیقی عمل کی بنیاد روایت کی بجاے براہِ راست حاصل ہونے والے موادپر رکھتی ہے۔ ان دو جنگوں کے بعد شعرا کے ہاں وطن اور اس کی محبت کا رومانی تصور بھی ابھرا۔
البتہ ۱۹۷۲ء میں سندھ میں ہونے والی لسانی فسادات نے ایک بار پھر محبِ وطن حلقوں میں تشویش پیدا کی۔ اردو بولنے والوں اور سندھی بولنے والوں کے درمیان ہونے والی اس کشیدگی اور ہنگاموں کے پس منظر میںلکھا گیا ادب مقدار کے لحاظ سے کچھ زیادہ نہیںہے۔ لیکن بعض افسانے اس سلسلے میں یادگار ہیں، مثلاً قمر عباس ندیم کا افسانہ دھواں سندھ میں لسانی بنیادوں پر پھیلائی گئی نفرتوں کے خارجی عوامل پر نظر ڈالتا ہے۔سندھ کے معاشی، سماجی اور لسانی مسائل پر بعض نہایت خوب صورت افسانے لکھے گئے ہیں۔
۱۹۷۷ء کے مارشل لا کے اثرات میں سے ایک یہ بھی تھا کہ ادب میں اسلامی جذبات اور احساسات کے اظہار نے پھر کروٹ لی لیکن تحریکِ ادبِ اسلامی میں وہ جوش اور ولولہ پیدا نہ ہوسکا جو پہلے دور میں تھا ۔ ویسے بھی اسلامی ادب کی تحریک نے بعض بہت اچھی تحریریں دیں اور ادبی فکر کی مثبت راہ متعین کرنے کی کوشش کی لیکن ترقی پسند تحریک کے برعکس کوئی غیر معمولی ادیب یا شاعر یا نقاد پیدا نہ کرسکی۔ ۱۹۷۷ء کے مارشل لا کا دوسرا اثر یہ ہوا کہ کچھ عرصے بعد مارشل لا کے خلاف سیاسی نیز ادبی حلقے صف آرا ہونے لگے اور ایم آرڈی کی تحریک چلی تو مزاحمتی ادب تخلیق کیا جانے لگا۔
کئی علامتی افسانے بھی لکھے گئے اور ان پر پابندیاں بھی لگیں۔ مثلاً مستنصر حسین تارڑ کے افسانے سیاہ آنکھ میں تصویر کی اشاعت پر مارشل لا حکام کو شدید اعتراض ہوا۔اخبارات پر غیر اعلانیہ سنسربھی تھا۔ البتہ ۱۹۸۸ء میں جمہوریت کی بحالی کے بعد مزاحمتی ادب کو خاص طور پر شائع کیا گیا۔ ۱۹۸۰ء کے لگ بھگ جب افغانستان پر روس نے تسلط جمایا تو اس کے اثرات بھی ہمارے ملک اور ادب پر پڑے اور نظم و نثر دونوں میں اس پر اظہار خیال کیا گیا۔
کراچی میں طویل عرے تک ہونے والی بد امنی اور قتل و غارت کو بھی موضوع بنایا گیا اور اس موضوع پر بعض رسالوں نے خصوصی نمبر بھی شائع کیے جن میں ایسی تحریروں کو جمع کیا گیا جن کا موضوع کراچی کے حالات تھے۔ اجمل کمال نے اپنے رسالے آج میں خاص طور پر اس موضوع پر بہت سی تحریریں شائع کیں۔
افسوس کہ بہت سے واقعات اور حالات ہمارے ادب کا اس طرح موضوع نہ بن سکے جس طرح بننے چاہییں تھے، مثلاً پرویز مشرف کا مارشل لا، ۲۰۰۵ء کا قیامت خیز زلزلہ یا بعض دیگر سیاسی حالات و واقعات۔ ہمارے ادیبوں نے الجیریا اور فلسطین پر تو خوب لکھا لیکن کشمیر کے مسئلے کو اس طرح تسلسل کے ساتھ اجاگر نہیں کیا جس طرح کرنا چاہیے تھا۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ ہمارے اہل قلم نے ملکی مسائل پر خوب اظہار خیال کیا ۔ ۱۹۴۷ء کے بعد تخلیق ہونے والے پاکستانی اردو ادب میں پاکستان سے محبت اور پاکستانیت واضح طور پر جھلکتی ہے۔ پاکستان کے شہر، گلی کوچے ، کھیت ، پہاڑ ، میدان ہما رے ادب میں اپنی انفرادیت کے ساتھ موجود ہیں ۔
ان زمینی اورجغرافیائی مظاہر کے ساتھ فکری اور ذہنی عامل بھی گزشتہ چوہتر سال کے پاکستانی اردو ادب میں موجود ہیں۔ پاکستانی کلچر، ماحول ، تہذیب ، رسوم ورواج، عقائد ایک نئی اور پاکستانی اردو زبان میں پیش کیے جارہے ہیں جس میں پاکستان کی دیگر زبانوں کے الفاظ و مرکبات ایک نیا ذائقہ اور نیا حسن پیدا کرتے ہیں۔ بعض شعرا کے قومی گیت حب وطن کو بڑی فن کاری سے اور سرشاری کے جذبات کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ امید کرنی چاہیے کہ اہم واقعات بڑی تخلیقات کا موضوع بنیں گے اور اہل قلم ہمارے معاشرے اور ثقافت کو فن کاری کے ساتھ اپنی تحریروں میں محفوظ کرتے رہیں گے۔