• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’ایک رسا چغتائی بھی تھا یار ہمارا یاروں میں‘


وہ ایک راجستھانی تھے جو کسی مغلانی کے انتظارمیں پتھر تو نہیں ہوئےلیکن ناقدریء دوراں کے پتھر اپنے سرپر برستے ہوئے ضرور محسوس کرتے رہے۔روح کے زخموں کا تریاق یہی ہے کہ آدمی ہوش میں نہ رہے، مدہوش ہو جائے۔رساچغتائی کے روزوشب بھی بادہ و ساغر کی گردشوں میں آ گئے تھے۔والدین انتہائی مذہبی تھے۔وہ انہیں کسی ندامت سے دوچار بھی نہیں کرنا چاہتے تھے۔اہلیہ کو بھی بتادیا تھا کہ شادی کابندھن تو ٹوٹ سکتا ہے ،منہ سے لگی ہوئی یہ کافر نہیں چھوٹ سکتی لیکن جب تائب ہوئے تو ایسے کہ کبھی نام تک نہ لیا۔

وہ اپنے چاہنے والوں کو پیارے صاحب کہہ کر پکارتے تھے۔پھر یہ سلسلہ عبیداللہ علیم اور جمال احسانی سے ہوتا ہو ا شاہد رسام،جاویدصبا، اجمل سراج اور خالدمعین تک چلاآیا۔ہم آج بھی ایک دوسرے کو پیارے صاحب کہہ کر بلاتے ہیں۔رساچغتائی پیارے صاحب بھی تھے اور رسابھائی بھی۔شایدیہ جے پورکے گہرے گلابی رنگوں کا اثرتھاکہ رندانہ سرمستیوں کے جتنے رنگ تھے ، سب کے سب رسابھائی کی شاعرانہ طبیعت کا حصہ بنتے چلے گئے۔

تیرے آنے کا انتظار رہا

عمر بھر موسمِ بہار رہا

سوائی مادھوپور کی مٹی نے ہمیں مرزامحتشم علی بیگ نامی ایک سرکاری ملازم دیا،سندھڑی نے اُسے رساچغتائی کانام دیا۔ایک ایسا نام جوانورشعوراور جون ایلیاکےساتھ مل کر ایک شعری تکون بناتا ہے تو اُردو شاعری کے منظر نامے پر یہی کراچی کا لہجہ کہلاتا ہے۔جو بہت سادہ بھی ہے ، پرکار بھی۔یہی’ زنجیرِ ہمسائیگی‘ ہے جو کراچی سے اُبھرنے والی آوازوں کو ایک دل کش و دل آویزلہجے کی لڑی میں پروتی چلی جاتی ہے۔

1960ء کی دہائی میں رسا چغتائی ایک معتبر شاعر کے طور پر ادبی حلقوں میں روشناس ہو چکے تھےلیکن اپنی فقیرانہ روش کے باعث کبھی بھی کسی انجمنِ ستائش باہمی کا حصہ نہیں رہے۔اُن کے ساتھ اُٹھنے بیٹھنے والے دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ رسابھائی واحد شاعر تھے جن کے منہ سے کبھی کسی نے کسی دوسرے شاعر کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں سنا۔قناعت پسندی کی انتہایہ تھی کہ کسی نے مشاعرے میں بلا لیا تو چلے گئے۔کسی نے نہیں بلایا تو شکایت نہ کی۔ساری زندگی لانڈھی کے ایک چھوٹے سے مکان میں گزاردی۔

انہیں حکومتِ پاکستان نے تمغہ ء حسن کارکردگی سے بھی نوازاتھا۔جس کے بارے میں کینیڈا میں مقیم ہمارے شاعردوست عرفان ستار کا کہنا ہے کہ ایک بار جب وہ رسابھائی سے ملنے ان کے گھر گئے توایک کاغذنیچے پڑا تھا اُٹھا کر دیکھا تو وہ اسی تمغے کا سرٹیفیکیٹ تھا۔رسابھائی سے پوچھا کہ اسے دیوار پر آویزاں کیوں نہیں کردیتے۔وہ کہنے لگے دیوار پر لگایا تھا لیکن دیوار خستہ ہونے کی وجہ سے بار بار گر جاتا ہے۔

حکومتِ پاکستان ہر سال شاعروں، ادیبوں اور فنکاروں کو قومی اعزازات سے نوازتی ہے۔اعزازات کے ساتھ معمولی رقم بھی دی جاتی ہے لیکن اس بات کا خیال نہیں رکھا جاتا کہ اعزازات اور اعزازیافتگان کے مستقبل کا کیا ہو گا۔بھارت میں جب کسی شاعر یا ادیب کو قومی اعزاز سے نوازا جاتا ہے تو اس کے ساتھ انہیں نہ صرف خطیر رقم دی جاتی ہے بلکہ ماہانہ اعزازیہ بھی مقرر کیا جاتا ہے۔یہ اعزازیہ بھی اتنی مالیت کا ہوتا ہے کہ اگر شاعر یا ادیب کوئی اور کام نہ بھی کرے تو اس کی گزربسر آسانی سے ہو جاتی ہے۔

رساچغتائی بظاہر اپنی زندگی سے بہت مطمئن دکھائی دیتے تھےلیکن واقفانِ حال جانتے ہیں کہ ان کی زندگی درحقیقت دُکھوں سےبھری پڑی تھی۔ساری زندگی محنت مزدوری کرتے رہے۔جوان بیٹے کے انتقال ہواتو اس کے بچوں کی کفایت بھی کی اور بیٹیوں کو بھی پڑھایا۔شکوہ شکایت ان کا شیوہ نہ تھا۔کتاب چھپوانے کا کہا جائے تو کہتے آ جائے گی۔اپنے شعرسنانے میں بھی بغل سے کام لیتے تھے۔شکیل عادل زادہ سے گاڑھی چھنتی تھی لہذا ’’سب رنگ‘‘ کے دفتر میں ہونے والی نشستوں میں باقاعدگی سے شریک ہوا کرتے تھے۔

بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ رسا بھائی کو پرندوں کا بہت شوق تھے۔لانڈھی میں ان کے گھر کے قریب پرندوں کی مارکیٹ لگا کرتی تھی ۔وہاں کا چکر ضرور لگاتے تھے۔ایک زمانے مین انہوں نے کبوتر بھی پال رکھے تھے۔کبوتر جب چھوٹی بڑی اُڑانیں بھرتے تویہ اُڑانیں چھوٹی بڑی بحروں کے مصرعوں میں ڈھلنے لگتیں۔اگر غزل کو خودکلامی یا ایک طرح کی سرگوشی کا نام دیا جائے اور اس کام پر کسی شاعر کو مامورتصور کیا جائے تو سب سے پہلے جو نام دل ودماغ میں گھونجتا ہے وہ رساچغتائی کا ہے۔انہوں نے بہت دھیمے لہجے میں اپنے آپ سے جو باتیں کی ہیں یا اس شہر کے درودیوار سے جو سرگوشیاں کی ہیں۔ان کی بازگشت ان کے درج ذیل اشعار میں تادیر سنائی دیتی رہے گی۔

شہر کراچی یاد ہے تجھ کو تیرے شب بیداروں میں

ایک رساچغتائی بھی تھا یار ہمارا یاروں میں

گرمی اُس کے ہاتھوں کی

چشمہ ٹھنڈے پانی کا

باہر ایک تماشا ہے

اندر کی حیرانی کا

میں نے سوچا تھا اس اجنبی شہر میں زندگی چلتے پھرتے گزر جائے گی

یہ مگر کیا خبر تھی تعاقب میں ہے ایک نادیدہ زنجیرِ ہم سائیگی

صرف مانع تھی حیا ء بندِقبا کھلنے تلک

پھر تو وہ جانِ حیا ایسا کھلا ایسا کھلا

ترے نزدیک آکر سوچتا ہوں

میں زندہ تھا کہ اب زندہ ہوا ہوں

جن آنکھوں سے مجھے تم دیکھتے ہو

میں اُن آنکھوں سے دنیا دیکھتا ہوں

وہ پہروں آئینہ کیوں دیکھتا ہے

مگر یہ بات میں کیوں سوچتا ہوں

اور پھر یہ ہوا کہ بچوں نے

چھینا جھپٹی میں توڑ ڈالا مجھے

زندگی اک کتاب ہے جس سے

جس نے جتنا بھی اقتباس کیا

بلاتی ہیں تمہیں یادیں پرانی

چراغ ِ رفتگاں فرصت نکالو

کہاں اب وہ لباس ِ وضع داری

بہت جانو اگر غربت چھپا لو

کھڑکیاں بے سبب نہیں ہوتیں

تاکتے جھانکتے رہا کیجئے

زلف اُس کی ہے جو اُسے چھو لے

بات اُس کی ہے جو بنا لے جائے

بس یہیں تک ہے قصہ ء درویش

اس سے آگے ہے اب سفر تنہا

آن اپنی جگہ مغل زادے

عشق تو ٹوٹ کر کیا ہوتا

رساچغتائی کےچلے جانے سے اُردو غزل کلاسیکی رچائو کے ساتھ شعر کہنے والےایک ایسے شاعر سے محروم ہو گئی ہےجس کے خلا کو پر کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرورہو گا۔غزل کےاس مغل زادے کو رُخصت کرتے وقت ان کی ایک نظم بھی پڑھ لیجئے جس میں انہوں نے انتہائی خوبصورتی کے ساتھ اپنی سیلفی کھینچی ہے۔

سنتے ہیں اس گلی میں

اک شخص منحنی سا

کچھ رنگ گندمی سا

ہونٹوں پہ مسکراہٹ

آنکھوں میں کچھ نمی سی

باتوں میں زندگی سی

کچھ دن سے آبسا ہے

تم جس کو ڈھونڈتے ہو

یہ شخص وہ نہیں ہے

وہ شخص اب کہاں ہے؟

تازہ ترین