جمال احسانی کوجہانِ ظاہرسے اوجھل ہوئے برسوں بیت گئے۔ہم ایسے زود فراموشوں کو کسی یاد کو دل سے محو کرنے میں کتنی دیر لگتی ہے جو اپنے شاعرِ باکمال جمال کو یاد رکھتے۔کچھ دن پہلےکتابوں میں دبی "کلیاتِ جمال" کچھ ایسے طلوع ہوئی کہ جمال کا ہنستا مسکراتا چہرہ دل ودماغ پر ماہ منیر کی طرح چمک اٹھا اوراس کی باتیں، اس کی غزلیں ، اس کی آوارہ مزاجی۔۔۔ایک ایک منظر یادوں کا ہجوم لیے تارے کو مہتاب کرنے لگا۔
اُس رستے میں پیچھے سے اتنی آوازیں آئیں جمال
ایک جگہ تو گھوم کے رہ گئی ایڑی سیدھے پائوں کی
جمال ان لوگوں میں سے تھے ،جن سے پہلی یا آخری نہیں ، بس ملاقات ہو جاتی ہے اور اسے ثبات مل جاتا ہے۔ جب بھی ملتے۔محبت اور اپنائیت سے ملتے اور اپنے ہی سوال کے اثبات میں اکثر یہی کہتے۔’’پیارے صاحب!خوب غزلیں ہورہی ہیں؟
غزل سے انہیں جنون کی حد تک عشق تھا۔جسے انہوں نے آخری سانس تک نبھایا۔مزے کی بات یہ ہے کہ غزل نے بھی ان سے بے وفائی نہیں کی۔ جمال کے شاعرانہ خلوص کو دیکھیئے کہ کبھی کسی سے چشمک یا پرخاش نہیں رکھی۔ہر اچھے شعر پر دل کھول کر داد دیتے۔نوجوانوں کی حوصلہ افزائی جمال احسانی اور عبیداللہ علیم کی مشترکہ صفت تھی۔جب بھی کوئی نوجوان تازہ غزل کے ساتھ وارد ہوتا۔اس کی غزل کی آمد کو پورے شہر میں اس طرح celebrate کرتے جیسے گھر میں اولاد نرینہ کا ظہور ہوا ہو۔
جمال یوسف ایک مرتبہ بتارہے تھے۔جمال احسانی اور صابر ظفر جب محکمہ ء اطلاعات سندھ میں ملازمت کے حصول کے لیے آئے تو ضیائی ظلمت کا زمانہ تھا۔انٹرویولینے والوں میں ان کے ساتھ بشری خوبیوں سے عاری افسران بھی شامل تھے۔جیسے ہی جمال احسانی کمرے میں آئے۔جمال یوسف نے ان سے پوچھا ۔آپ شاعری بھی کرتے ہیں؟ مشفقانہ مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا۔جی ہاں۔۔۔انہوں نے کہا ، اپنا کوئی تازہ شعر سنائیے۔برجستہ گویا ہوئے۔
چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا
یہ سانحہ میرے وہم و گمان بھی نہ تھا
جمال یوسف نے کہا جائیے آپ کا انتخاب ہو گیا۔یہی نسخہ انہوں نے صابر ظفر کی آمد پر بھی آزمایا۔صابر نے شرماتے ہوئے دھیمے انداز میں اپنا یہ شعر سنایا۔
ہمارا عشق ظفر رہ گیا دھرے کا دھرا
کرایہ دار اچانک مکان چھوڑ گیا
جمال یوسفنے کہا ، جائیے آپ منتخب ہوگئے۔ساتھ بیٹھے افسران دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے اورخالص انسانی جذبوں سے بھرپور دو شاعر محکمہ ء اطلاعات کے جزیرہ جہلامیں نقب لگانے میں کامیاب ہو گئے۔ماہنامہ ’’اظہار ‘‘ کا اجراء انہی اصحاب کی مشق سخن کے لیے عمل میں لایا گیا۔ فاطمہ حسن بھی ان دنوں اسی محکمے کا حصہ تھیں۔ بعد میں شہناز نور نے اپنی ریٹائرمنٹ تک جرات اظہار کا مظاہر ہ کرتے ہوئے ’’اظہار‘‘ کو اپنے اس شعر کی مثال زندہ رکھا۔
عجیب خوف ہے اندر کی خامشی کا مجھے
کہ راستوں سے گزرتی ہوں گنگناتے ہوئے
شہناز نور کے محکمہ ء اطلاعات سے ’’رخصتی ‘‘ کے بعد یہ ذمہ داری ایک بار پھر صابر ظفر پر آن پڑی تھی۔واقعہ یہ ہے کہ انہیں اپنے ایک افسر سے یہ طعنہ بھی سننے کو مل چکا ہے کہ ’’میاں اپنی اردو درست کرو۔‘‘یہ الگ بات ہے کہ اردو کے مارے اس افسر کو اپنے گھر میں بھی کوئی نہیں جانتا۔ صابر ظفر کو ایک دنیا جانتی اور مانتی ہے۔
یہی مقام جمال احسانی کے حصے میں بھی آیا ہے۔ اور تو اور منیر نیازی بھی ان کے شاعرانہ اعتماد کی داد دیتے تھے۔ جس پراحمد فراز نے کہا تھاکہ منیر نیازی کہتے ہیں کہ جمال احسانی مجھ سے بہتر شاعر ہے۔انہیں منیر نیازی سے اختلاف ہو سکتا ہے۔مگروہ ا س کی تصدیق کے لیے جمال کو ایک بارپھر پڑھیں گے۔اور جب جمال کا یہ شعر سامنے آیا۔
اس آنکھ میں اک رنگ ہے اور رنگ ِ ندامت
یہ ہار ہے اور ماننے والے کے لیے ہے
تو پروین شاکر نے کہا۔وہ دن ہے اور آج کا دن۔میں نے جمال احسانی کو معاف نہیں کیا۔یقینی طور پر احمد فراز نے جمال کو دوبارہ ضرور پڑھا ہو گا۔اور محسوس کیا ہو گا کہ ان کی فکری اڑان میں جو طرحداری ہے اس کا کسی کے ساتھ تقابل نہیں کیا جاسکتا۔
ہزاروں سال یہاں خستہ و خراب رہے
اب اس زمیں کو فلک سے بدل کے دیکھتے ہیں
کسی کے عشق سے کوئی سبق نہیں لیتا
یہ آگ وہ ہے کہ سب اس میں جل کے دیکھتے ہیں
اور پھر جمال کا یہ شعر آج کے حالات و واقعات سے کتنی مطابقت رکھتا ہے۔
پرائی آگ کو گھر میں اٹھا کے لے آئے
یہ کام ہم نے بغیر اُجرت و خسارہ کیا