حکومت اور اپوزیشن کے درمیان محاذ آرائی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور ہر حکومتی اقدام پر اختلاف رائے کی تلخی کشیدگی میں بدلتی جارہی ہے۔ جو فریقین کیلئے ہی نہیں بلکہ قومی امور پر بھی منفی طریقے سے اثر انداز ہورہی ہے۔ دیگر عوامل کے علاوہ اس کی ایک بڑی وجہ وفاقی حکومت اور اپوزیشن کے مابین رابطوں اور مذاکرات کا عمل ’’ڈیڈ لاک‘‘ کی صورتحال ہے۔ آنیوالے دنوں میں چیئرمین نیب کی تقرری کا معاملہ ہوگا جو وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر نے مل کر طے کرنا ہوتا ہے لیکن بداعتمادی اور تلخی کی فضا میں کیا یہ ممکن ہوگا کہ اس معاملے پر فریقین کے درمیان براہ راست مشاورتی عمل ہو سکے۔ یا کسی ایک نام پر اتفاق رائے ہو۔
اسی طرح انتخابی اصلاحات کا معاملہ بھی کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔ وزیراعظم عمران خان آئندہ انتخابات کیلئے ووٹنگ کا ذریعہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو بنانے کے خواہشمند ہیں تاکہ ہارنے والی جماعت دھاندلی کے الزامات نہ لگا سکے اور ان کے اس ’’وژن‘‘ کی ترجمانی کرتے ہوئے ان کے وزراء ووٹنگ مشین کی افادیت کے بارے میں اظہار خیال کرتے رہتے ہیں لیکن اپوزیشن کے پاس وزیراعظم کے ’’وژن‘‘ کے برعکس اپنا موقف ہے جس کی روشنی میں وہ اس جدید ٹیکنالوجی کو بھی بعض خدشات اور الزامات کی روشنی میں بیان کرتے ہیں۔ وزیراعظم نے اس حوالے سے ایک سیاسی کمیٹی بھی قائم کی تھی جس نے نیب قوانین میں ترامیم اور انتخابی اصلاحات کے حوالے سے کام کرنا تھا۔ اس کمیٹی میں شاہ محمود قریشی، شیخ رشید احمد، اسد عمر اور پرویز خٹک سمیت6 وفاقی وزراء شامل تھے۔
اس سلسلے میں حکومت اپوزیشن سمیت تمام سیاسی جماعتوں سے بات چیت کیلئے تیار ہیں۔ جس نے عید الاضحیٰ کے فوری بعد اپنی ذمہ داریوں کا آغاز کرنا تھا اور اس حوالے سے روزانہ وزیراعظم کو رپورٹ دینی تھی لیکن نہیں معلوم اس کمیٹی کا کیا بنا۔ ظاہر ہے کہ اپوزیشن نے اس حوالے سے بھی قطعی طور پر عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ امر واقعہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کےدرمیان عدم اعتماد کی ایسی فضا بن چکی ہے جس میں کوئی مشترکہ پیش رفت خواہ وہ ملک وقوم کیلئے کتنی ہی اہمیت و افادیت کیوں نہ رکھتی ہو، ہو ہی نہیں سکتی۔ اس لئے بنیادی بات عدم رابطوں اور عدم اعتماد کی فضا کو ختم کرنا ہے۔
قومی امور میں انا،ضد اور مخالفت برائے مخالفت کے روئیے قومی خسارے کا سبب بنتے ہیں۔ اس لئے حکومت اور اپوزیشن دونوں کو اپنے رویوں کا جائزہ لینا ہوگا اور اس کیلئے بہرحال پیش رفت کا آغاز حکومت کی جانب سے ہی ہونا چاہئے اور جواباً اپوزیشن کو بھی کشادہ ذہن سے کام لینا ہوگا۔ یہی طرز عمل حکومت اور اپوزیشن دونوں کیلئے ہی نہیں بلکہ جمہوریت اور ملکی مفاد کا متقاضی ہے۔ میاں نواز شریف کے لندن میں قیام میں توسیع کی درخواست مسترد کیا ہوئی پاکستان میں ان کے مخالفین نے ایک جشن کا سماں پیدا کردیا بالکل اسی طرح جیسے پاکستان میں کسی عدالتی فیصلے کے عارضی ریلیف پرمسلم لیگ ن کے معاملے کے تمام پہلوئوں کو سمجھے بغیر ہی مٹھائیاں تقسیم کردیتی تھی جبکہ امر واقعہ ہے میاں نواز شریف کو ان کی مرضی کے بغیر پاکستان نہیں لایا جاسکتا اور جب تک وہ اپنے لئے پاکستان میں ’’موزوں حالات‘‘ کا یقین نہ کرلیں وہ پا کستان واپس نہیں آئیں گے۔
پاکستان میں ان کے مخالفین کو دو پہلو پیش نظر رکھنے چاہئیں پہلا تو یہ کہ پاکستان کی عدالتوں کا ایک سزا یافتہ مجرم جو جیل میں سزا کاٹ رہا ہے اس کا بیرون ملک جانا کس طرح ممکن ہوا چلیں اسے پاکستان کے عدالتی نظام کی کمزوریاں قرار دے لیں ٗقانونی سقم کہہ لیں یا تین مرتبہ ملک کے وزیر اعظم کے منصب پر فائز ’’متمول شخصیت‘‘ کااثر و نفوذ سمجھ لیں ان کے لئے ایسے حالات پیدا کرنا مجبوری بن گئے تھے کہ انہیں بیرون ملک بھیجنا پڑا لیکن دوسرا پہلو اس سے زیادہ اہم ہے وہ یہ کہ برطانیہ جو قانون پر عملداری کی پوری دنیا میں مثال کی حیثیت رکھتا ہے اس نے ایک سزا یافتہ ’’مجرم‘‘ جس کی سزا جاری تھی جو اسے پاکستانی اعلیٰ عدالتوں کی طرف سے دی گئی تھی اس نے ایسے شخص کو اپنے ملک میں داخلے کی اجازت کیوں دی ۔
اسے برطانوی امیگریشن کی تاریخ میں ایک مثال اس لئے قرار دیا جاسکتا ہے کہ اس سے قبل کسی اہم شخصیات جن میں سابق امریکی صدر باراک اوباما کے بھائی بھی شامل ہیں دنیا کے نامور فٹ بالرز اور متعدد اہم نام شامل ہیں آنہیں ان کی اہمیت، مقبولیت اور دیگر عوامل کو نظر انداز کرکے صرف اس لئے برطانیہ میں داخلے کی اجازت نہیں دی گئی کیونکہ امیگریشن قوانین کے مطابق کسی ایسے غیر ملکی شخص کو جس کے خلاف اس کے ملک میں کوئی مقدمہ چل رہا ہو اور وہ ضمانت پر رہا ہو برطانیہ داخلے کی اجازت نہیں لیکن میاں نواز شریف کو برطانیہ میں داخلے کی اجازت ملی اور اب بھی لندن میں ان کے قیام میں توسیع کی جو درخواست مسترد ہوئی ہے وہ 6 ماہ کا ویزہ ختم ہونے کے باعث ضابطے کی کارروائی ہے جس میں قانون کے مطابق انہوں نے اپیل دائر کردی ہے۔
اس صورتحال سے حقائق کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ برطانیہ میں کووڈ 19 کی وجہ سے محکمہ داخلہ میں اس سمیت مختلف نوعیت کی اپیلوں کا کام گزشتہ کافی عرصہ سے رکا ہوا تھا اس لئے میاں نواز شریف ایک سے ڈیڑھ سال تک کسی فکرمندی کے بغیر لندن میں قیام کرسکتے ہیں اور لندن میں رہتے ہوئے پاکستان میں سیاسی منظر کی تبدیلی کا انتظار کرسکتے ہیں بصورت دیگر ان کے لئے سعودی عرب اور قطر بالخصوص چشم براہ ہوں گے اور اپنا خصوصی طیارہ بھیج کر انہیں اپنے ملک میں ’’شرف میزبانی‘‘ بخشیں گے اس لئے اس حوالے سے تو میاں نواز شریف کے مخالفین کو ان کا پاکستان میں آنے کا انتظار نہیں کرنا چاہئے اور نہ ہی اس حوالے سے خدشات کے اضطراب میں رہنا چاہئے اور پھر ان کے سیاسی رفیق مولانا فضل الرحمن نے بھی یہ دعویٰ کیا ہے کہ نواز شریف جب تک چاہیں بیرون ملک رہ سکتے ہیں اور یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ ملک میں چونکہ جابروں کی حکومت ہے اس لئے وہ یہاں سے دور ہی رہیں البتہ مسلم لیگ (ن) کو اپنی جماعت کے اندر داخلی سطح پر انتشار اور گروپنگ کی طرف ضرور توجہ دینی چاہئے۔