پاکستان میں اردو ناول پر بات کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اردو ناول سے متعلق اس خیال یا غلط فہمی کاذکر کردیا جائے جو بہت عام ہے اور وہ یہ کہ اردو میں اچھے ناولوں کی بہت کمی ہے ۔ بلکہ بعض لوگوں کا تو خیال ہے کہ اردو میں اگر کوئی اچھے ناول لکھے بھی گئے ہیں تو ان کی تعداد دوچار سے زیادہ نہیں ہے۔ لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ یہ ضرور ہے کہ اردو میں افسانے کی صنف اتنی مقبول ہوئی کہ اس نے اردو ناول کوپیچھے چھوڑ دیا حالانکہ اردو افسانے کی عمر اردو ناول کی عمر سے کوئی تیس سال کم ہے ۔
اردو میں اچھے ناول کوئی سو(۱۰۰) سال سے زیادہ عرصے سے لکھے جارہے ہیں ۔ معروف انگریزنقاد اور اردو داں رالف رسل نے مرزا ہادی رسوا کے ناول امراو جان ادا کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہـ’’ اردومیں پہلا صحیح معنوں میں ناول ‘‘ہے اور یہ ’’اصلی ناول‘‘ ہے۔ حالانکہ اس وقت تک اردو میں ناول کے آغاز کو تیس سال کا عرصہ گزر چکا تھا اور اٹھارہ سو ستاون کے بعد انگریزی ادب کے اثر سے اردو میںناول کا ظہور ہوچکا تھا۔
گویا رالف رسل نذیر احمددہلوی (جن کے نام کے ساتھ اردو والے اب بھی ’’ڈپٹی ‘‘لکھنے سے باز نہیں آتے ) کے ناول مراۃ العروس کو اردو کا پہلا ناول نہیں مانتے ، حالانکہ یہ ۱۸۶۹ء میںشائع ہوچکا تھا جبکہ امراو جان اداکا سال ِ اشاعت ۱۸۹۹ء ہے۔اگرچہ بعض نقاد کریم الدین کے ناول خط ِ تقدیر کو اردو کا پہلا ناول قرار دیتے ہیں جو پہلی بار ۱۸۶۲ء میں شائع ہوا تھا۔بعض دیگرنقاد بھی امراوجان ادا سے پہلے لکھے گئے اردو ناولوں کو’’باقاعدہ‘‘ ناول نہیں مانتے کیونکہ وہ فنی لحاظ سے ناول کی جدید تعریف پر پورا نہیں اترتے۔
بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں ظفر عمر اور منشی تیرتھ رام فیرز پوری کے جاسوسی ناول (جن میں سے بعض انگریزی ناولوں سے ماخوذ تھے) کی مقبولیت کے باوجود انھیں اگرچہ کوئی خاص ا دبی درجہ نہیں دیا جاتا لیکن ناول کی صنف کی مقبولیت میں ان ناولوں کا بڑا ہاتھ تھا۔ اسی طرح عظیم بیگ چغتائی کے مزاحیہ ناول بھی بیسویں صدی کی ابتدائی چند دہائیوں میں بہت مقبول رہے لیکن ان میں کوئی فکری گہرائی نہیںپائی جاتی۔
قاضی عبدالغفار کا ناول لیلیٰ کے خطوط (۱۹۳۲ء)جو خطوط کی شکل میں ہے اور جس میں ایک طوائف کی دکھ بھری زندگی کو موضوع بنایا گیا ہے بہت مقبول ہوااگرچہ اس میں مذہبی طبقے پر سخت تنقید کی گئی تھی۔ بہرحال، بیسویں صدی کے نصف ِ اول میں چند اچھے اردو ناول ضرور لکھے گئے تھے ، مثلاًمنشی پریم چند کا گئو دان (۱۹۳۶ء)، سجاد ظہیر کا لندن کی ایک رات (جو ۱۹۳۵ء میںلکھا گیا اور ۱۹۳۸ء میں شائع ہوا)، کرشن چندر کا شکست (۱۹۴۳ء)، عصمت چغتائی کا ٹیڑھی لکیر (۱۹۴۴ء) اور عزیز احمد کا گریز (۱۹۴۵ء)۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ اردو کے ادبی افق پر ناول کو چھانے میں خاصا وقت لگا کیونکہ افسانے کی گرم بازاری نے ناول کو دبا لیا تھا اور ویسے بھی ناول لکھنا افسانہ لکھنے کے مقابلے میں زیادہ ریاضت اور مہارت چاہتا ہے۔ ناول کے عروج میں اسی تاخیر کی وجہ سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ اردو میں اچھے ناول نہیں ہیں اور پھر اس مفروضے کو اتنا دہرایا گیا کہ اسے سچ سمجھ لیا گیا۔
قیام ِ پاکستان کے بعد کے پہلے عشرے میں لکھے گئے ناولوں میں دو رجحان بہت نمایاں ہیں :ایک تاریخی کرداروں اور واقعات پر مبنی ناول اور دوسراآزادی اور ہجرت کے وقت پیش آئے المیہ واقعات کی عکاسی(اگرچہ تاریخی ناول میں تاریخ کم ہوتی ہے ناول زیادہ ہوتا ہے)۔ اس ابتدائی دورکے تاریخی ناولوں میں رئیس احمد جعفری، رشید اختر ندوی، نسیم حجازی، قیسی رام پوری اور بعض دیگر لکھنے والوں کے ناول شامل ہیں ۔ لیکن ان تاریخی ناولوں کی بے پناہ مقبولیت کے باجود انھیں فنی اور ادبی لحاظ سے بڑا کارنامہ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ ان میں سے بیش تراخلاقی یا نیم مذہبی ہیںاور ان کے زیر تہہ تبلیغ اور اصلاح کا جذبہ کارفرما نظر آتا ہے۔ناول میں اخلاقی رجحان ہوناکوئی عیب نہیں لیکن اسے بہت فن کاری اور چابک دستی سے پیش کرنا چاہیے ، یہ نذیر احمد کے ناولوں کی طرح نہ ہو جس کے کردار لمبے لمبے وعظ کرنے لگتے ہیں۔
آزادی کے دنوں میں ہونے والے قتل عام اور الم ناک واقعات کی عکاسی کرنے والے پاکستانی ناولوں میں ادبی محاسن کے مقابلے میں غصہ اور جذباتیت زیادہ پائے جاتے ہیں۔ ان میں انسانیت کا پرچار تو ہے لیکن اس کے ساتھ جانب داری کا رجحان بھی ہے ۔پاکستان میں آزادی اور اس کے بعد کی افراتفری کے پس منظر میں لکھے گئے کم از کم دو ناول ضرور قابلِ ذکر ہیں: ایم اسلم کا رقص ِ ابلیس (۱۹۴۷ء) اور قدرت اللہ شہاب کا ناولٹ یا خدا (۱۹۴۹ء)۔ لیکن ان پر تعریفی انداز میں لکھے گئے دیباچے وجہ ِ تنازع بن گئے کیونکہ ترقی پسندوں نے ان دیباچوں کو جانب دارانہ اور مبنی بر تعصب قراردیا۔ رقص ِ ابلیس کا دیباچہ محمد حسن عسکری اور یاخدا کا دیباچہ ممتاز شیریں نے لکھا تھا۔ لیکن اگر یہ دیباچے جانب دارانہ تھے تو ان پر کی گئی تنقید بھی جانب دارانہ اور نظریاتی اختلاف پر مبنی تھی۔
دراصل ترقی پسندوں کا کہنا تھا کہ یہ آزادی (جسے وہ آزادی کی بجاے تقسیم یا پارٹیشن کہنا پسند کرتے ہیں) انگریزوں کی ’لڑائو اور حکومت کرو ‘کی پالیسی کا نتیجہ ہے اور اس کو ہندو مسلم تنازع کے تناظر میں نہیں دیکھنا چاہیے۔ آزادی کے خلاف ترقی پسندوں کایہ نقطۂ نظر بہت سہولت کا حامل تھا کیونکہ اس سے انھیں یہ آسانی مل جاتی تھی کہ وہ آزادی کے وقت ہونے والے بہیمانہ واقعات کا الزام دونوں فریقوں (یعنی ہندو اور مسلم)پر لگاسکتے تھے ۔ یہ کام ہندوستانی ناول نگار راما نند ساگر نے اپنے ناول اور انسان مرگیا (۱۹۴۸ء) میں بھی کیا اور کہا کہ آزادی کے بعد ہونے والے فسادات میں نہ ہندو مرا، نہ مسلمان مرا، بلکہ انسان مرگیا۔ یہی کام کرشن چندر نے اپنے بعض افسانوں میں کیا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہجرت کے وقت ہونے والے خوں ریز فسادات کی زد زیادہ تر مسلمانوں ہی پر پڑی تھی۔
قرۃ العین حیدر کے ناول میرے بھی صنم خانے (۱۹۴۹ء) کا پس منظر بھی آزادی اور اس سے متعلق حالات و واقعات ہیں۔ البتہ انھوں نے فسادات کی بجاے یوپی سے۱۹۴۷ء میں ہجرت کرنے والے مسلمانوں کے حالات کو پیش کیا ہے۔ قرۃ العین حیدر کا ذکر یہاں اس لیے کیا گیا ہے کہ وہ ہجرت کرکے پاکستان آگئی تھیں اور ان کے کچھ ناول پاکستان ہی میں شائع ہوئے تھے ، اگرچہ وہ تقریبا ً دس سال کے بعد ہندستان واپس چلی گئیں اورپھر وہیں رہیں۔ برعظیم پاک و ہند کی تاریخ و تہذیب اور ثقافت کو شعوری طور پر اپنے ناولوں میں پیش کرنا قرۃ العین حیدر کی وہ خصوصیت ہے جو ان کے بعد کے ناولوں مثلاً سفینۂ غم ِ دل (۱۹۵۲ء ) میں زیادہ نمایاں ہوئی۔
اسی طرح محمد احسن فاروقی کے ناول شام ِ اودھ (۱۹۴۸ء) میں اودھ کی زوال آمادہ تہذیب کی عکاسی کی گئی ہے اور عزیز احمد کے ناول ایسی بلندی ایسی پستی (۱۹۴۸ء) میںدکن کے طبقۂ امرا کی سماجی و ثقافتی زندگی کے کم زور پہلوئوں کی عکاسی کی گئی ہے۔پاکستان کے ابتدائی برسوں میں لکھا گیا ایک اور اہم ناول محمد خالد اختر کا بیس سو گیارہ (۱۹۵۰ء)ہے جو جارج اورویل کے ناول نائنٹین ایٹی فور سے متاثر ہوکر لکھا گیا اور جس میں خالد اختر نے ترقی پسندانہ رجحانات کے تحت پاکستان اور ہندوستان کی نوزائیدہ مملکتوں کو ’’فسطائی‘‘ قرار دیا۔
پاکستان کو ہجرت اور اس کے نتیجے میں پید اہونے والے نفسیاتی اور سماجی مسائل کو بھی بعض ناولوں میں موضوع بنایا گیا۔ انتظار حسین کے لیے اس نئے ملک کو ہجرت کرنا دراصل بے گھری اور اپنی جڑوں سے کٹے ہوئے ہونے کا استعارہ ہے اور ان کے ناول چاند گہن (۱۹۵۲ء) میںاسی کی طرف اشارہ ہے۔قیام ِ پاکستان کے بعد مقامی ماحول اور سماجی صورت حال کو بھی ناول میں پیش کیا گیا ، مثال کے طور پر اندرون لاہور شہر کے ماحول کی عکاسی ریاض شاہد کے ناول ہزار داستان اور اے حمیدکے ناول ڈربے میں کی گئی۔
جو ناول پاکستان میں تجارتی مقاصد کے تحت لکھے گئے ان کے لیے ادبی معیار یا فنی محاسن کبھی کوئی مسئلہ ہی نہیں تھے ۔ ایسے ناول یا تو خواتین نے لکھے یا ایسے ادبی نما نسوانی ناموں سے لکھوائے اور شا ئع کرائے گئے جن سے ادبیت جھلکتی ہو اورجن کی خاصی تعداد درحقیقت مردوں کی قلم کاری کا نتیجہ تھی۔لیکن یہ ادبیت صرف ناموں کی حد تک ہی رہی۔رضیہ بٹ جیسی مقبول (اورحقیقی نہ کہ فرضی )کئی خواتین ناول نگاروں کا ادبی تاریخ اور تنقید میں عموماًکوئی ذکر نہیں ملتا کیونکہ ان کے ہاں یہ بنیادی تصور ناپید ہے کہ ادبی اور فنی لحاظ سے ناول ہوتا کیا ہے۔
ماضی کی( بلکہ آج کی بھی کچھ)خواتین ناول نگاروں کے نزدیک دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ایک حسین اور نوجوان لڑکی کی کسی طرح اچھے اور خوش حال گھرانے میں شادی ہوجائے۔ ڈائجسٹوں میں لکھنے والی خواتین کے نزدیک بھی زندگی صرف اسی مسئلے کا نام ہے کہ کسی طرح ہیروئن کی مناسب جگہ شادی کرادی جائے اور وہ ہیروئن کبھی کوئی عام لڑکی نہیں ہوگی۔
ہاں البتہ کچھ خواتین ناول نگار (یہاں ناول سے مراد ہے جدید ، ادبی معنوں میں’’ صحیح‘‘ ناول )ایسی بھی ہیں جنھوں نے اس فن میں اپنا لوہا منوایا اور اس میدان میں مردوں کو کہیں بہت دور پیچھے چھوڑ دیا(ان کا ذکر آگے بھی آرہا ہے)۔ پاکستان بننے کے کچھ عرصے بعد کے دور میں جوخواتین ناول نگار نمایاں تھیں ان میں قرۃ العین حیدر سب سے آگے تھیں بلکہ مردوں میں بھی شاید ہی کوئی ناول نگار ان کامقابلہ کرسکے۔ ان کے ناول آگ کا دریا (۱۹۵۷ء) کا آغاز چوتھی صدی قبلِ مسیح کے بدھ مت کے دور کے ہندوستا ن کے ذکر سے ہوتا ہے اوراس کا اختتام پاکستان بننے کے بعد کے کراچی کے ماحول کی بھرپور عکاسی پر ہوتا ہے۔
ناول میں ہندوستان میں مسلم کلچر کے آغاز و ارتقا کو نہایت ہنرمندی سے اورموثر انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ البتہ آگ کا دریا تنازعات کا بھی شکار رہا ۔ اس پر ایک اعتراض محمد احسن فاروقی نے یہ کیا کہ ورجینیا وولف کے ناول ’’اورلینڈو‘‘ کی نقل ہے لیکن ڈاکٹر عبدالسلام نے اس الزام کی تردید کی ہے۔ قرۃ پر لگائے گئے دیگر الزامات کہ مثلاً یہ کہ وہ بھارتی ہیں اور اسرائیلی ایجنٹ ہیں وغیرہ کو نقاد اور قارئین خاطر میں نہ لائے اور آج بھی آگ کا دریا اگر اردو کا عظیم ترین ناول نہیں تو اردو کے چند عظیم ناولوں میں شمار کیے جانے کے لائق ضرور ہے۔ قرۃ کے بعد کے ناولوں اور افسانوں نے بھی انھیں ایک عظیم تخلیق کار ثابت کیا۔ اس دور کے بعض ناول مثلاً احسن فاروقی کا سنگم (۱۹۶۱ء) بھی آگ کا دریا کی باز گشت معلوم ہوتے ہیں ۔
پاکستان بننے کے بعد کے دوسرے عشرے میں شوکت صدیقی کا ناول خدا کی بستی (۱۹۵۸ء)بھی بہت مقبول ہوا ۔شوکت صدیقی نے شہری زندگی اور صنعتی معاشرے میں عوام کو درپیش سماجی اور معاشی مسائل سادہ زبان میں اپنے مارکسی نقطۂ نظر کے تحت پیش کیے۔ فضل کریم فضلی کا خون ِ جگر ہونے تک (جو پہلے برطانیہ سے ۱۹۵۸ء میں اور پھر پاکستان میں ۱۹۶۰ء میں شائع ہوا) انیس سو پینتالیس کے قحط ِ بنگال کے پس منظر میں لکھا گیا ایک پُر اثر ناول ہے۔
جن پاکستانی خواتین ناول نگاروں نے اردو ادب کے سنجیدہ قارئین اورناقدین دونوں کو متاثر کیا ان میں نثار عزیز بٹ بھی شامل ہیں۔لیکن وہ ان ادیبوں میں شامل ہیں جو ادبی رسالوں میں افسانے یا مضامین وغیرہ نہیں لکھتے اور اسی لیے عرصے تک قاری اور نقاد دونوں کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ ان کے پہلے ناول نگری نگری پھرا مسافر (۱۹۶۰ء) کے ساتھ یہی ہواکہ مصنفہ کے ادبی حلقوں میں زیادہ معروف نہ ہونے کے سبب اس کی ایسی پذیرائی نہ ہوسکی جیسی ہونی چاہیے تھی ۔ ایک سبب شاید یہ بھی ہو کہ یہ ناول بعض مقامات پر بوجھل سا ہوجاتا ہے۔ ان کا دوسرا ناول نے چراغے نے گُلے (۱۹۷۳ء) پاکستانی معاشرے کے تناظر میں یوں اہم ہے کہ یہ صوبہ سرحد (اب خیبر پختون خوا) اور پشاور شہر کے پس منظر میں لکھا گیا ہے جو اردو ادب میں خال خال ہی ملتا ہے۔
ممتاز مفتی کے ناول علی پور کا ایلی (۱۹۶۱ء) کے بارے میں ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ سوانحی ناول ہے اور مفتی صاحب نے کردار کے پردے میںخود اپنی زندگی کے واقعات اس میں بیان کیے ہیں۔ اس میں ایلی کے کردار کے ذریعے انسانی نفسیات کی پیچیدگیاں بڑی مہارت سے پیش کی گئی ہیں۔ ناول کا اختتام ان الفاظ پر ہوتا ہے ’’پاکستان پاکستان ، ایلی کا دل دھک دھک کررہا تھا‘‘ جو علامتی ہے۔
جمیلہ ہاشمی کے ناول تلاش ِ بہاراں (۱۹۶۱ء) کا موضو ع برطانوی ہندوستان میں دو آزاد ریاستوں پاکستان اور بھارت کا قیام ہے۔ اس کا مرکزی خیال یہ ہے کہ ایک قوم بہاروں کی تلاش میں تھی مگر اسے خون دیکھنا پڑا۔ اگرچہ اس ناول کی خاصی مدح سرائی بھی ہوتی ہے مگر کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس کی جتنی تعریف کی جاتی ہے یہ اس پاے کا ناول نہیں ہے۔ خدیجہ مستور کے ناول آنگن (۱۹۶۲ء)کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ایک اچھے ناول کا مکمل نمونہ ہے۔
اس میں تحریکِ پاکستان کے دنوں کی کہانی اور اس دور کا سیاسی ماحول بڑی مہارت سے اور فنکارانہ انداز میں، خوب صورت اور با محاورہ زبان میں پیش کیا گیا ہے۔ قیام ِ پاکستان کے کچھ عرصے بعد کے واقعات کے بعد ناول اختتام کو پہنچتا ہے اور اس میں بر عظیم پاک و ہند کے جاگیردارانہ سماج کی خامیوں کو بھی پیش کیا گیا ہے۔ خدیجہ مستور کا ایک اور ناول زمین (۱۹۸۷ء )کے نام سے ہے اور اس کا آغاز قیامِ پاکستان کے بعد مہاجر کیمپ سے ہوتا ہے ۔ ناول میں اس دور کی سیاسی اور معاشی ابتری کی عکاسی کی گئی ہے۔
عبداللہ حسین کے ناول اداس نسلیں (۱۹۶۳ء) میں پہلی جنگ ِ عظیم کے بعد کے دو ر کی مقامی تہذیبی اور سماجی تاریخ کا بیان تو ہے ساتھ ہی اس میں یہ سوال بھی اٹھایا گیا ہے کہ اس اداس یا گم شدہ نسل کو کیا ملاجو اس عرصے میں پروان چڑھی تھی؟ اس کا جواب ہے مادّی یا معاشی ترقی کی بے سود دوڑ۔ لیکن اداس نسلیںپر قرۃ العین حیدر نے اعتراض کیا کہ اس کتاب میں آگ کا دریا سے پورے پورے پیراگراف معمولی تبدیلیوں کے ساتھ لے لیے گئے ہیں ۔ قرۃ العین نے کار جہاں دراز ہے میں ان صفحات کے حوالے بھی دیے ہیں جہاں سے (بقول ان کے) مواد نقل کیا گیا ہے۔
رضیہ فصیح احمد نے اپنے پہلے ہی ناول آبلہ پا(۱۹۶۴ء) سے ادبی دنیا میں شہرت حاصل کرلی ۔ محمد خالد اختر کے ناول چاکی واڑا میں وصال (۱۹۶۵ء) کی بھی ایسی ہی پذیرائی ہونی چاہیے تھی جیسی آبلہ پا کی ہوئی ،لیکن جب تک فیض احمد فیض نے اس ناول کی تعریف نہ کی تب قارئین اور نقاد اس طرف متوجہ نہ ہوئے ۔ یہ کراچی کی ایک پس ماندہ بستہ چاکی واڑا کے ماحول اور وہاں کے دل چسپ کرداروں کی کامیاب عکاسی ہے۔
بہرحال اس عشرے میں خواتین ناول نگار چھائی رہیں اور اس عشرے کا اختتام بھی خواتین کے دو اچھے ناولوں پر ہوا ، ایک الطاف فاطمہ کا دستک نہ دو (۱۹۶۵ء) اور رشیدہ رضویہ کا لڑکی ایک دل کے ویرانے میں ۔ اس عشرے میں بھی ابن صفی کے جاسوسی ناولوں کا طوطی بولتا رہا ۔
انیس سو ستر کے بعد کے تقریباً دس برسوں کے بارے میں ایک عام لیکن غلط تاثر یہ ہے کہ اس عشرے میں اردو میں اچھے ناولوں کا قحط رہا۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اس’’ادبی قحط‘‘ میں کیسے کیسے ناول منظر ِ عام پر آئے۔رشیدہ رضویہ کے دو ناول اسی شمع کے آخری پروانے (۱۹۷۰ء) اور گھر میرا راستے غم کے (۱۹۷۰ء)، رضیہ فصیح احمد کا نیم مزاحیہ ناول آزار ِ عشق (۱۹۷۱ء)، نثار عزیز بٹ کاناول نے چراغے نے گلے (۱۹۷۳ء)، جمیلہ ہاشمی کے دو ناول چہرہ بہ چہرہ رو بہ رو اور روہی ، سید شبیر حسین کا جھوک سیال اور انتظار حسین کا بستی ۔یہ سب اسی عرصے میں شائع ہوئے اور ان میں سے بعض بہت قابل ِتعریف ہیں ۔ شوکت صدیقی کا ناول جانگلوس ایک ڈائجسٹ میں تقریباًسات برس تک (۱۹۷۷ء تا ۱۹۸۴ء)قسط وار شائع ہوتا رہااور پھر کتابی صورت میں آیا۔ درحقیقت یہ ایک عظیم پاکستانی ناول ہے، ان معنوں میں کہ اس میں پاکستان کے لوگوں، ثقافتوں ، زبانوں اور دیہات کے علاوہ جاگیردارانہ سماج کی نہایت موثر عکاسی کی گئی ہے۔
انیس سو اسی سے انیس سو نوے کے عرصے میں ناول کی صنف میں ایک نئی دل چسپی پیدا ہوئی اور اس میں کچھ تجربات بھی کیے گئے۔ اس عرصے کے نمایاں ناولوں میں سے کچھ یہ ہیں : پاگل خانہ (حجاب امتیاز علی، ۱۹۸۰ء)، راجا گدھ (بانو قدسیہ، ۱۹۸۰ء)، خوشیوں کا باغ (انور سجاد ، ۱۹۸۱ء)، چلتا مسافر (الطاف فاطمہ، ۱۹۸۱ء)، میرا گائوں (غلام الثقلین نقوی، ۱۹۸۲ء)، باگھ (عبداللہ حسین ۱۹۸۲ء)، دشت ِ سوس(جمیلہ ہاشمی ، ۱۹۸۳ء)، دیوار کے پیچھے (انیس ناگی، ۱۹۸۳ء)، جنم کنڈلی (فہیم اعظمی، ۱۹۸۴ء)، ابوالفضل صدیقی (ترنگ، ۱۹۸۷ء)، تنہا (سلمیٰ اعوان ، ۱۹۸۹ء) ، شوکت صدیقی(چہار دیواری، ۱۹۹۱ء)، صدیوں کی زنجیر (رضیہ فصیح احمد، ۱۹۹۵ء)، قید (عبداللہ حسین ، ۱۹۹۵ء)، آگے سمندر ہے (انتظار حسین، ۱۹۹۵ء) ، راکھ (مستنصر حسین تارڑ(۱۹۹۷ء)، کیمپ (انیس ناگی، ۱۹۹۸ء)، اور دیگر بہت سے ناول ۔
اکیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی اردو میں ناول نگاری کی ایک نئی لہر اٹھی اور اسے بعض لکھنے والے، مثلاً عرفان جاوید ، اردو میں ناول کا احیا قرار دیتے ہیں۔ نئے ناولوں کی تعداد بھی اکیسویں صدی میں بڑھ گئی اور نئے اسلوب بھی متعارف کرائے گئے۔ گذشتہ بیس سال کے عرصے میں جو نمایاں ناول لکھے گئے ان میں سے کچھ یہ ہیں :دائرہ (عاصم بٹ، ۲۰۰۱ء)، کاغذی گھاٹ (خالدہ حسین، ۲۰۰۲ء)، حاصل گھاٹ (بانو قدسیہ، ۲۰۰۳ء)، زینو (وحید احمد، ۲۰۰۳ء)،غلام باغ (مرزا اطہر بیگ، ۲۰۰۶ء)، مٹی آدم کھاتی ہے (محمد حمید شاہد ، ۲۰۰۷ء)، دھنی بخش کے بیٹے (حسن منظر، ۲۰۰۸ء)آخری زمانہ( آمنہ مفتی،۲۰۱۰ء)، کنجری کا پل (یونس جاوید، ۲۰۱۱ء)مندری والا (وحید احمد، ۲۰۱۲ء)، راجپوت (عبیداللہ بیگ، ۲۰۱۲ء)، برف (محمد الیاس، ۲۰۱۰ء)، بارش (محمد الیاس، ۲۰۱۲ء)، حسن منظر (انسان اے انسان، ۲۰۱۳ء)، جاگے ہیں خواب میں (اختر رضا سلیمی، ۲۰۱۵ء )، خلیج (خالد فتح محمد، ۲۰۱۵ء)،طائوس فقط رنگ (نیلم احمد بشیر،۲۰۱۷ء)، جندر (اختر رضا سلیمی، ۲۰۱۷ء) ، منتارا (محمدحفیظ خان ، ۲۰۲۱ء)،اور دوسرے بہت سے۔
مستنصر حسین تارڑ نے اپنے پہلے ناولٹ ’’فاختہ ‘‘سے سب کو چونکا دیا تھا اور پھر راکھ اور بہاو جیسے اہم ناول لکھے۔ اکیسویں صدی میں تارڑ کے ناول لکھنے کی رفتار اور بھی تیز ہوگئی اور پچھلے بیس برسوں میں انھوں نے کم از کم چھے (۶)ناول لکھے ہیں۔
یہاں یقینا بہت سے نام رہ گئے ہیں لیکن افسوس کہ جگہ کی تنگی کے باعث سارے نام دینا ممکن نہیں ہے۔ ویسے نام شماری مطلوب بھی نہیں۔مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ پاکستان میں اردو ناول نگاری عروج پر ہے اور اگر اس مفروضے کو تسلیم کرلیا جائے کہ انیس سو ستر اور انیس سو اسی اور اس کے بعد کا کچھ عرصہ اردو میں ناول کے لیے زوال کا دور تھا تو اکیسویں صدی میں اردو ناول دوبارہ جی اٹھا ہے اور کئی اہم، خوب صورت اور مختلف ناول لکھے جارہے ہیں ۔
شاعر علی شاعر کے مطابق اکیسویں صدی کے ابتدائی بیس برسوں میں پاکستان اور ہندوستان میں ڈیڑھ سو اردو ناول لکھے گئے (یہاں ادبی ناول مراد ہیںنہ کہ خواتین کے لکھے ہوئے ’’گھریلو، رومانی ، اصلاحی ، معاشرتی‘‘) اور پاکستان میں لکھے گئے اچھے ناولوں کی تعداد بھی کم نہیں ۔
مختصرا یہ کہ پاکستان میں اردو ناول عروج پر ہے، اس میں موضوع اور اسلوب کے تجربات بھی ہورہے ہیں اور ایک نئی اورمختلف پاکستانی اردو بھی لکھی جارہی ہے۔ ان میں پاکستان کے سیاسی، سماجی اورمعاشی مسائل کی بھی عکاسی ہے اور تہذیب و ثقافت کی جھلکیاں بھی۔ اس لحاظ سے پاکستان میں لکھے گئے اردو ناول ہندوستان میں لکھے گئے اردو ناولوں سے بہت مختلف ہیں ۔ یہ ہماری شناخت کا بھی اظہار ہے او رہمارے معاشرے کا بھی۔