پچھلے74سالوں کے دوران کرکٹ کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو پاکستان نے دنیا کے تمام بڑے ٹورنامنٹ جیتے،پاکستانی کرکٹ ٹیم کا شمار اس وقت دنیا کی صف اول کی ٹیموں میں ہوتا ہے۔ عبدالحفیظ کاردار سے بابر اعظم تک پاکستان کے کپتانوں نے کئی تاریخی فتوحا ت میں کردار ادا کیا۔ ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان نے روایتی حریف بھارت سمیت دنیا کی تمام ٹیموں کے خلاف فتح حاصل کی۔ پاکستان کو عالمی ٹیسٹ رینکنگ میں نمبر ایک پوزیشن پر رہنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔1992میں میلبورن کرکٹ گراونڈ میں پاکستان نے انگلینڈ کو شکست دے کر ورلڈ کپ کرکٹ ٹورنامنٹ جیتا جبکہ1999میں پاکستان نے آسٹریلیا کے خلاف لارڈز میں ورلڈ کپ فائنل کھیلا۔
یونس خان پاکستان کی جانب سے سب سے زیادہ ٹیسٹ رنز بنانے والے بیٹسمین ہیں ،ان کی قیادت میں پاکستان نے2009میں لارڈز میں سری لنکا کو شکست دے کر ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا ٹائٹل اپنے نام کیا اس جیت کے ہیرو شاہد خان آفریدی تھے۔2017میں اوول میں سرفراز احمد کی قیادت میں پاکستان نے روایتی حریف بھارت کو شکست دے کر آئی سی سی چیمپنز ٹرافی کا اعزاز اپنے نام کیا۔
سرفراز احمد کی کپتانی میں پاکستانی ٹیم ایک سال تک ٹی ٹوئینٹی میں نمبر ایک رہی۔کرکٹ کے میدانوں میں کئی اعزاز سمیٹنے والی پاکستانی ٹیم نے دو بار ایشیا کپ کرکٹ ٹورنامنٹ بھی جیتا۔جبکہ پاکستان کو دوورلڈ کپ کی میزبانی کا اعزاز بھی حاصل ہے۔1996میں قذافی اسٹیڈیم نے ورلڈ کپ فائنل کی میزبانی کی۔2008میں نیشنل اسٹیڈیم کراچی نے ایشیا کپ کی میزبانی کا اعزاز حاصل کیا کراچی اور لاہور میں ہونے والے دونوں ٹائیٹل سری لنکا نے جیتے۔
پاکستانی کرکٹ ٹیم نے1952میں جب اپنا پہلا ٹیسٹ کھیلا تو اسے بھارت کے خلاف نئی دہلی میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔لیکن عبدالحفیظ کاردار کی کپتانی میں پاکستان نے اپنے دوسرے ہی ٹیسٹ میں بھارت کو شکست دے کر عالمی کرکٹ کے دروازے پر دستک دی اور دنیا کو خبردار کیا کہ یہ ٹیم مستقبل میں خطرناک ٹیم ثابت ہوگی۔ لکھنوء میں بھارت کے خلاف پاکستان کی جیت کے ہیرو فضل محمود تھے جنہوں نے میچ میں بارہ وکٹ حاصل کئے۔
فضل محمود نے بھارت کی پہلی اننگز میں باون رنز دے کر پانچ وکٹیں حاصل کیں۔ دوسری اننگز میں وہ زیادہ خطرناک ثابت ہوئے اور بیالیس رنز دے کر سات وکٹیں حاصل کیں۔ جبکہ مدثر نذر نے بیٹ کیری کرتے ہوئے سنچری بنائی۔بھارت نے پہلا ٹیسٹ اننگز اور 70 رنز سے جیتا لیکن پاکستان نے لکھنؤ میں دوسرے ٹیسٹ میں اننگز اور 43 رنز تاریخی فتح اپنے نام کی۔بھارت کو شکست دینے کے کچھ عرصے بعد فضل محمود نے پاکستان کو اوول ٹیسٹ میں انگلینڈ کے خلاف کامیابی دلوائی۔اس کے بعد پاکستان نے مڑ کر نہیں دیکھا۔
1992میں موجودہ وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں ورلڈ کپ کی جیت کو پاکستان کرکٹ کی تاریخ کا سب سے یادگار لمحہ قرار دیا گیا۔ پچھلے تین ورلڈکپ مقابلوں میں سیمی فائنل سے آگے نہ بڑھنے والی پاکستانی ٹیم نہ صرف پہلی بار فائنل تک پہنچی بلکہ عالمی چیمپئن بھی بنی لیکن جس انداز سے یہ سب کچھ ہوا وہ ایک خواب سا معلوم ہوتا ہے۔ ورلڈ کپ کے لیے جو ٹیم منتخب کی گئی تھی وہ اچھی تھی لیکن بدقسمتی سے دو میچ ونر کھلاڑی سعید انور اور وقار یونس ان فٹ ہوگئے تھے۔
عام طور پر ٹیم میں چار یا پانچ کھلاڑی ہی میچ ونر ہوا کرتے ہیں لیکن جب دو کھلاڑی باہر ہوجائیں تو آپ سوچ سکتے ہیں کہ اس سے کتنی مشکلات ہوسکتی ہیں۔ ٹیم جب ورلڈ کپ میں پہنچی تو اس وقت جاوید میانداد بھی فٹ نہیں تھے اور عمران خان بھی ان فٹ تھے،لیکن اس ٹیم کی فائٹنگ اسپرٹ کی داد دینی ہوگی کہ اس نے اس مقام سے جیت کا سفر شروع کیا جہاں عام طور پر ٹیمیں ہمت چھوڑ دیتی ہیں۔
یہی اس ٹیم کی سب سے بڑی خوبی تھی۔عمران خان کے عزم اور کھلاڑیوں کے جذبےنے خواب کو حقیقت کا روپ دیا۔کپتان عمران خان کا سر کالن کاؤڈرے کے ہاتھ سے کرسٹل ٹرافی لینا پاکستان کی کرکٹ کی تاریخ کا سب سے یادگار لمحہ سمجھاجاتا ہے۔ورلڈ کپ کے ہیرو وسیم اکرم اور جاوید میاں داد تھے۔ابتدائی میچوں میں ٹیم کی کارکردگی بہت مایوس کن رہی تھی اور وہ پہلے پانچ میچوں میں سے تین ہارچکی تھی لیکن بعد میں اس نے آسٹریلیا۔
سری لنکا اور نیوزی لینڈ کو شکست دی تاہم انگلینڈ کے خلاف بارش سے متاثرہ میچ میں ملنے والا ایک پوائنٹ ہی اسے سیمی فائنل تک لے گیا۔سیمی فائنل میں اس نے نیوزی لینڈ کو زیر کیا اور پھر ملبورن کے فائنل میں اس نے انگلینڈ کو 22 رنز سے شکست دی۔ وسیم اکرم فائنل کے ہیرو تھے جن کی لگاتار دو گیندیں امر ہوچکی ہیں جن پر انہوں نے ایلن لیمب اورکرس لوئس کو بولڈ کیا تھا۔اس ورلڈ کپ میں نوجوان انضمام الحق ایک زبردست دریافت کے طور پر سامنے آئے۔سیمی فائنل میں انہوں نے صرف37 گیندوں پر60 رنز کی اننگز کھیلی جبکہ فائنل میں وہ 25 گیندوں پر 42 رنز بنانے میں کامیاب ہوئے تھے۔
2007 ء میں پاکستانی کرکٹ ٹیم پہلے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا فائنل دلچسپ مقابلے کے بعد بھارت سے ہاری تھی لیکن دو سال بعد اس نے یونس خان کی قیادت میں ٹی ٹوئنٹی کا عالمی چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ پاکستان نے سیمی فائنل میں جنوبی افریقاکو سات رنز سے ہرایا جس میں شاہد آفریدی کی نصف سنچری اور دو وکٹوں کی عمدہ کارکردگی کا عمل دخل نمایاں تھا۔فائنل میں پاکستان نے سری لنکا کو آٹھ وکٹوں سے شکست دی ۔ شاہد آفریدی نے ایک بار پھر فتح گر کا کردار ادا کیا اور ناقابل شکست نصف سنچری بناکر مسلسل دوسرے میچ میں مین آف دی میچ رہے۔اس ٹورنامنٹ میں پاکستانی بولرز کی کارکردگی بہت عمدہ رہی ۔
عمرگل تیرہ وکٹوں کے ساتھ سرفہرست رہے جبکہ سعید اجمل نے بارہ اور شاہد آفریدی نے گیارہ وکٹیں حاصل کیں۔ ایک ایسا ٹورنامنٹ ہے جسے پاکستانی ٹیم انیس سال سے جیتنے کی کوشش کررہی تھی لیکن کامیاب نہیں ہوپارہی تھی۔ سرفراز احمد کی قیادت میں اس کی یہ کامیابی اتار چڑھاؤ کے بعد ممکن ہو سکی۔سری لنکا کے خلاف تین وکٹوں کی جیت نے اسے سیمی فائنل میں پہنچایا جہاں اس نے انگلینڈ کو آٹھ وکٹوں سے ہرایا۔فائنل میں پاکستانی ٹیم کا مقابلہ بھارت سے تھا جس سے وہ پہلا میچ ہاری تھی لیکن فائنل میں اس نے 180 رنز کی بھاری جیت سے روایتی حریف کو آؤٹ کلاس کردیا۔اس جیت میں فخرزمان کی سنچری اور محمد عامر کی تین وکٹوں نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔
پاکستان کرکٹ کی تاریخ کئی یادگار فتوحات سے بھری ہوئی ہے لیکن مارچ 1987 میں پاکستان نے بنگلور میں کھیلے گئے ٹیسٹ میچ میں حاصل کی تھی۔ اس جیت میں کئی اتار چڑھاؤ آئے لیکن اس کا نتیجہ یہ تھا کہ 16 رنز کی اس ڈرامائی جیت کے بل پر پاکستان نے بھارتی سرزمین پر پہلی بار ٹیسٹ سیریز جیتی تھی۔ اقبال قاسم اور توصیف احمد اس جیت کے ہیرو تھے۔اکستان نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کی لیکن پوری ٹیم صرف 116 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی جس میں سب سے بڑا انفرادی اسکور سلیم ملک کے 33 رنز تھے۔لیفٹ آرم سپنر منندر سنگھ نے صرف 27 رنز دے کر سات وکٹیں حاصل کیں۔بھارت نے اپنی پہلی اننگز میں 146 رنز بنائے۔
اقبال قاسم نے 48 اور توصیف احمد نے 54 رنز دے کر پانچ، پانچ وکٹیں حاصل کیں۔ پاکستانی ٹیم دوسری اننگز میں 249 رنز بنا کر آؤٹ ہوئی، روی شاستری نے چار اور منندر سنگھ نے تین وکٹیں حاصل کیں۔ میزبان ٹیم کو جیت کے لیے 221 رنز کا ہدف ملا تھا لیکن اقبال قاسم اور توصیف احمد کی چار، چار وکٹوں نے اس کے قدم 204 رنز پر روک دیے۔ اقبال قاسم نے نہ صرف 96 رنز بنانے والے گاواسکر کو پویلین کی راہ دکھائی بلکہ اپنی ہی گیندوں پر روی شاستری اور اظہر الدین کے غیر معمولی کیچز بھی لیے تھے۔ بنگلور ٹیسٹ میچ پاکستان جیتا۔ نو، نو وکٹیں اقبال قاسم اور توصیف احمد نے حاصل کیں لیکن حیران کن طور پر مین آف دی میچ ایوارڈ سنیل گاواسکر کو دیا گیا تھا۔امپائروں کی بے ایمانی بھی بھارت کو شکست سے نہ بچاسکی۔ اس جیت کے بعد پاکستان ٹیم کا لاہور میں فقید المثال استقبال کیا گیا۔
ملک میں اس وقت کرکٹ ہی واحد کھیل ہے جس میں شائقین کرکٹ کو اچھی خبر مل جاتی ہے لیکن ملک میں کھیلوں کے حالات ناگفتہ بے ہیں۔ قومی کھیل ہاکی بھی زوال پذیر ہے اسکواش میں کئی سالوں تک حکمرانی کے بعد اب یہ کھیل بھی ملک میں اپنی شناخت کھو رہا ہے۔ دیگر کھیلوں میں بھی حالات زیادہ اچھے نہیں ہیں۔جاپان میں منعقد ہونے والے اولمپکس مقابلوں میں شرکت کرنے والے پاکستانی کھلاڑی ایک مرتبہ پھر کوئی بھی تمغہ جیتنے میں ناکام رہے اور پاکستان کا اولمپکس میں میڈل جیتنے کا تقریباً تین دہائی سے جاری انتظار مزید طویل ہو گیا ہے۔
پاکستان نے آخری مرتبہ اولمپکس میں کوئی بھی تمغہ 1992 میں بارسلونا میں جیتا تھا۔ اس برس ہاکی ٹیم تیسرے نمبر پر آ کر کانسی کا تمغہ جیتنے میں کامیاب ہوئی تھی۔ انفرادی مقابلوں میں آخری مرتبہ پاکستان نے کوئی بھی تمغہ 1988 میں جیتا تھا اور یہ میڈل جیتنے والے باکسر حسین شاہ تھے۔عمران خان پاکستان میں کھیلوں کے سب سے بڑے اسٹار کے طور جانے جاتے ہیں وہ خود کہتے ہیں کہ میں نے کھیلوں میں ٹرپل پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے۔امید ہے کہ ان کے بقیہ دو سالوں میں پاکستان کرکٹ میں مزیدتسلسل کے ساتھ فتوحات حاصل کرے اور دیگر کھیلوں میں بھی پروفشنل ازم آئے گی اور مافیاز کا خاتمہ کیا جائے گا۔