15 فروری 1989 کو جب سوویت یونین کا آخری فوجی دستہ افغانستان کی سرزمین سے کوچ رہا تھا اسی دن امریکہ میں مقیم محمد اشرف غنی احمد زئی کا ایک تفصیلی مضمون لاس انجلیس ٹائمز میں شائع ہوا جس میں انھوں نے سوویت انخلا سے پیدا ہونے والی بدلتی ہوئی صورتحال میں امریکی حکومت کو افغانستان کے مستقبل کے بارے میں کئی مفید تجاویز پیش کی تھیں۔ اس مضمون کا پہلا جملہ اس قدر دلچسپ ہے کہ میں اس کا من و عن ترجمہ پیش کر رہا ہوں: ’’سوویت افغانستان چھوڑ چکے ہیں اب کابل میں محصور کٹھ پتلی حکومت کا خاتمہ بس وقت کی بات ہے‘‘۔ سوویت روس کے انخلاکے بعد نجیب اللہ چار سال تک کابل پر قابض رہے۔ پھر ہندوستان بھاگنے کی ناکام کوشش کے بعد اقوام متحدہ کے دفتر میں لگ بھگ ساڑھے چار سال تک قیدیوں کی طرح رہے اور بالآخر طالبان کے کابل پر قبضے کے وقت ہلاک کردیئے گئے۔ حالات نے پلٹا کھایا، سوویت قبضے کے بعد افغانستان پر امریکہ نے قبضہ کیا جس کی ایک نشانی کے طور پر اشرف غنی بھی صدر بنائے گئے مگر شومئی قسمت کہ وہ اپنی دوسری مدت پوری نہیں کرسکے۔ ’محصور کٹھ پتلی‘ نجیب ﷲ کے حالات کے برعکس وہ اپنی ڈولتی حکومت کے آخری وقت طالبان کے خوف سے اس قدر مغلوب ہوئےکہ کابل میں امریکی فوج کی موجودگی کے باوجود وہ انتہائی عجلت میں قصرصدارت چھوڑکر بھاگ گئے۔ وہ اس قدر جلدی اور رازداری میں نکلے کہ ان کے قریبی مصاحبین میں دو یا تین افراد کے علاوہ کسی کو بھی پتہ نہیں چل سکا یہاں تک کہ ان کے نامزد کردہ قومی حفاظت کے قائم مقام وزیر بسم ﷲ محمدی جو کابل کی حفاظت پر مامور تھے بھی بےخبر نکلے۔ محمدی نے اس ہزیمت کا بدلہ ایک ٹویٹ کے ذریعے یوں لیا کہ بگھوڑے صدر پر لعنت بھیجی اور ان پر ملک کو بیچ دینے کا الزام لگایا۔ غنی منہ چھپا کر جس بے عزتی سے بھاگے ان کے مقابلے میں افغانستان سے سوویت یونین کے آخری فوجی دستے کا انخلا کئی درجہ باوقار تھا جنہیں اشرف غنی نے اپنے فروری1989 کے اخباری مضمون میں تضحیک کا نشانہ بنایا تھا۔ غنی کے فرار نے امریکی امداد سے چلنے والے تمام اداروں اور افراد کو بے یارومددگار کردیا۔ مقبول افغان ٹیلی ویژن طلوع کے سربراہ سعد محسنی نے انہیں بزدل قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ لوگ اگلے سو سال تک غنی کی قبر پر تھوکیں گے۔
بحیثیت ایک اکیڈمک اور ماہر معاشیات اشرف غنی نےافغانستان پر کافی کام کیا جن میں درجنوں مقالوں اور کتابوں کے علاوہ علمی تقریریں اور مباحثے بھی شامل ہیں حتیٰ کہ آپ کی پی ایچ ڈی کا تحقیقی مقالہ بھی افغانستان کے بارے میں ہی تھا۔ آپ نے امریکہ کی اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں میں پڑھایا، ورلڈ بینک میں کام کیا اور اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے اداروں کے ساتھ مل کر دنیا کے ممالک کے نظام کو بہتر بنانے کیلئے ایک ادارہ قائم کیا۔ 2001میں امریکی حملے کے بعد طالبان حکومت کا خاتمہ ہوا تو اشرف غنی فورا’’اپنی ورلڈ بینک کی نوکری چھوڑکر 24 سال بعد افغانستان وارد ہوگئے اور صدر حامد کرزئی کے مشیر اعلی مقرر کئے گئے۔ اس کے بعد آپ وزیر خزانہ بنائے گئے یہاں تک کہ آپ دو بار صدر کے منصب پر پہنچائے گئے۔ اس دوران بھی آپ نے افغانستان کے بارے میں لکھا اور تقریریں کیں۔ 2005میں آپ نے ایک عالمی فورم پر افغانستان جیسے ’ٹوٹے ہوئے ملک‘ کی تعمیر نو کیلئے ایک خاکہ پیش کیا جسے کافی پذیرائی ملی۔ اس کے بعد آپ نے 2008میں ایک برطانوی خاتون اکیڈمک کلیر لوک ہارٹ کے ساتھ مل کر ’’ناکام ریاستوں کا سلجھاؤ: جہانِ شکستہ کی تجدید کیلئے ایک فریم ورک‘‘ نامی کتاب لکھی جس کے بیشتر خیالات بقول مصنفین انھوں نے 2001سے 2005 کے درمیان افغانستان میں اپنے کام کے دوران تشکیل دیئے اور نافذ کئے۔
جدید دنیا کے رائج مزاج اور مغربی طرز حکومت کی روایات سے عین مطابقت رکھنے والے فہم و دانش اور عالمی اداروں میں بےپناہ تجربے سے لیس اشرف غنی اپنے ہموطنوں کو ترقی یافتہ دنیا کے کشید کردہ نعروں کے علاوہ کچھ بھی نہیں دے پائے۔ آخرکار امریکہ کی کولمبیا یونیورسٹی کا پی ایچ ڈی اور عالمی بینک اور اقوام متحدہ میں بڑے بڑے عہدوں پر رہنے والا غنی جو مفلس اور فساد زدہ ممالک کے نظام کو درست کرنے کے خواب دکھا رہا تھا ڈاکوؤں کی طرح غریب افغانوں کے لاکھوں ڈالر چرا کر بھاگ گیا۔ غنی کے جس اخباری مضمون کا حوالہ میں نے ابتدا میں دیا اسی مضمون کے آخری جملے کے ترجمے پر میں اختتام کرتا ہوں: ’’اگر واشنگٹن اپنی سوویت مخالف جنگ میں افغانوں کو کرائے کے فوجیوں کے طور پر دیکھنا چھوڑ دے تو شاید وہ آزادی، امن اور خوشحالی کیلئے ان کی آرزوؤں کو سمجھنے کے قابل ہو سکے‘‘۔