اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین کے اعداد وشمار کے مطابق خیبرپختونخوا میں اس وقت 14لاکھ رجسٹرڈ افغان پناہ گزین رہائش پذیر ہیں جبکہ تین لاکھ سے زائد غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین ہیں۔دارلحکومت کابل سمیت ملک کے بیشتر حصوں میں افراتقری اور بے یقینی کا فضا ہے،کوئی بھاگ کراپنی جان بچارہا ہے توکوئی اپنے بچوں اور گھر کو بچانے کے لئے دوڑ لگارہا ہے،کوئی اندرون ملک دربدر ہوگیا ہے تو کوئی جہازوں کے ساتھ لٹک کر ملک سے باہر بھاگنے کی کوشش میں ہے،بار بار وضاحتوں کے اور ماضی کے تجربات کی روشنی میں کوئی شخص طالبان کی یقین دہانیوں پر یقین کرنے کے لئے تیار نہیں انہیں خدشہ ہے کہ طالبان کا رویہ کسی بھی وقت تبدیل ہوسکتا ہے۔
ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن ہی ہوئے ہیں کہ یہ لوگ تخت کابل تک پہنچے ہیں کہ افغانستان انسانی حقوق کی خلاف ورزیوںکی اطلاعات موصول ہونا شروع ہوچکی ہیں۔اگرچہ پاکستان عالمی اداروں کے دبائو کے باوجود واضح سٹینڈ لیا ہے کہ وہ مزید افغان مہاجرین نہیں لے سکتا مگر اسی انسانی المیہ کے خدشات کے پیش نظر پاکستان کا خدشہ ہے کہ پانچ سے سات لاکھ تک نئےافغان مہاجرین پاکستان خصوصاً خیبرپختونخوا کا رخ کرسکتے ،تاہم ماضی کے برعکس اس مرتبہ ممکنہ طورپر آنے والے نئے افغان مہاجرین کو شہری علاقوں سے باہر کیمپوں میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے،اسی وجہ سے صوبائی حکومت نے ضم شدہ قبائلی اضلاع میں افغانستان کے ساتھ سرحدی علاقوں میں تین ایسے مقامات کی نشاندہی کی ہے جہاں عارضی کیمپ بنائے جائیں گے ان علاقوں میں قبائلی ضلع خیبرکے سرحدی علاقے لوئے شلمان ،ضلع شمالی وزیرستان کے سرحد علاقے انگو اڈا اور ضلع چترا ل کے سرحد ی علاقے ارندو شامل ہے ۔
خیبر پختونخوا میں بلدیاتی ادارے جنوری2019 میں تحلیل ہوچکے ہیں مگرا س کےبعد صوبائی حکومت نے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں کوئی دلچسپی نہیں لی جسکی وجہ سے عوام کو چھوٹے مسائل کے حل کیلئے بھی صوبائی حکومت سے رجوع کرنا پڑا۔ آئین کے مطابق تین ماہ کے اندر بلدیاتی انتخابات نہ کرانا غیر آئینی اقدام ہے الیکشن کمیشن نے بار بار حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ مقررہ مدت کےاندر بلدیاتی انتخابا ت انعقاد یقینی بنائیں الیکشن کمیشن نے اس حوالے سےتمام تیاریاں مکمل کررکھی ہیں مگر صوبائی حکومت اور کورونا وبا اور امن وامان کی صورت حال کی آڑ میں مسلسل تاخیری حربے استعمال کررہی ہے۔
دوسری جانب پارلیمانی سال کے آغاز کے ساتھ ہی صوبے میں میگا ترقیاتی منصوبوں پر کام تیز کردیا گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے گذشتہ روز اسلام آباد میں وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کی ہے اس دوران وزیر اعظم نے انہیں گومل زام ڈیم اور چشمہ رائٹ بنک کینال منصوبوں پر کام تیز کرنے کی ہدایت کی، وزیر اعظم کو ان منصوبوں کے بار ے میں بتایا گیا کہ گومل زائم ڈیم کی تکمیل سے ایک لاکھ ساٹھ ہزار ایکڑ زمین سیراب ہوگی جبکہ سی آر بی سی لفٹ کینال سے تین لاکھ ایکڑ زمین سیراب ہوگی جو صوبے کی زراعت کی ترقی میں اہم کردار ادا کریگی ۔
دیگر میگا پراجیکٹ میں مہمند ڈیم کی تعمیر کا منصوبہ بھی شامل ہے جس پر تیزی سے کام جاری ہے وزیر اعلیٰ محمود خان کی صدارت میں پشاور میں ہونیوالے اجلاس میں مہمند ڈیم کی تعمیر سے متاثر ہونے والے ضلع مہمند اور دیگر ملحقہ اضلاع کیلئے ساڑھے چار ارب روپے مالیت کا خصوصی ترقیاتی پیکیج تیار کیا گیا ہے جس میں ضلع مہمند کے علاوہ باجوڑ، ملاکنڈ اور چارسدہ کی متاثر ہونے والی آبادی کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ مجموعی ترقیاتی پیکیج کا 86 فیصد حصہ ضلع مہمند ، آٹھ فیصد باجوڑ، تین فیصد ملاکنڈ، جبکہ تین فیصد چارسدہ کیلئے مختص ہے۔ ترقیاتی پیکیج میں مذکورہ اضلاع کا حصہ اْن کی متاثرہ زمین کے تناسب کے مطابق رکھا گیا ہے ۔
وزیر اعلیٰ کو مہمند ڈیم کی تعمیر سے متاثر ہونے والے علاقوں کیلئے خصوصی ترقیاتی پیکیج کے تحت مذکورہ علاقوں کیلئے مواصلات، توانائی ، آبنوشی ، صحت اور تعلیم سمیت دیگر شعبوں میں متعدد اہم منصوبے تجویز کئے گئے ہیں۔ اجلاس کو بتایا گیا ترقیاتی پیکیج کے تحت مہمند میں 700 ملین روپے کی لاگت سے 132 کے وی گرڈ اسٹیشن تعمیر کیا جائے گا۔ اسی طرح 700 ملین روپے کی لاگت سے تحصیل پڑانگ غر میں 30 کلومیٹر لمبی سڑک کی بحالی اور کشادگی ، 75 ملین روپے کی لاگت سے تحصیل پنڈیالی میں چھ کلومیٹر لمبی سڑک تعمیر،ضلع مہمند میں تعلیم کے شعبے میں 236 ملین کے مختلف منصوبے شروع کئے جائیں گے۔
صحت کے شعبے میں بھی 135 ملین روپے مالیت کے مختلف منصوبوں سمیت کھیلوں کے شعبے میں 60 ملین روپے کے منصوبے رکھے گئے ہیں۔ خطے کے موجودہ حالات کے تناظر میں ضم قبائلی اضلاع کے عوام کے مسائل کے حل اور انہیں بنایدی سہولیات کی فراہمی وقت کا اہم تقاضا ہے جس میں صوبائی اور وفاقی حکومت نے کافی تاخیر کی ہے ۔ صوبے کے ضم اضلاع کے عوام کے ساتھ کئے گئے وعدوں میں تاخیر سے وہاں کے عوام میں مایوسی او ربے چینی کی لہر دوڑ گئی ہے ۔
بنیادی سہولیات کی فراہمی میں صوبائی حکومت کی جانب سے ضم قبائلی اضلاع کی تعمیر و ترقی کیلئے اٹھائے جانیوالے اقدامات سست روی کا شکار رہیں اور اسکی بنیادی وجہ وفاق اور دوسرے صوبوں کی جانب سے قومی مالیاتی ایوارڈ میں ضم قبائلی اضلاع کا تین فیصد حصہ ڈالنے سے انکار رہا ہے اگر چہ سندھ کے علاوہ پنجاب میں بھی پی ٹی آئی کی حکومت ہے لیکن تین سال کے دوران وفاقی حکومت دیگر صوبوں کو اس بات پر راضی کرنے میں ناکام رہی ہے کہ جن علاقوں کے عوام نے سالہا سال تک دہشت گردوں کے سامنے دیوار بن کر دیگر صوبوں تک اسکے نٹ ورک کو روکنے کیلئے جان و مال کی بے پناہ قربانیاں دی گئیں ملک کے دیگر حصوں کی طرح بنیادی سہولیات پر انکا بھی حق ہے ۔