بیلا روس، مشرقی یورپ کا ایک ملک ہے۔ اس کے مشرق میں روس، جنوب میں یوکرائن، مغرب میں پولینڈ، شمال میں لیتوانیا اور لتھونیا واقع ہیں۔ یہ ملک ایک ایسی سرزمین ہے، جو مختلف حملہ آوروں کے تسلط میں رہی اور یہ خطہ کئی ممالک کی نوآبادی بھی بنا، ان میں سرفہرست روس ہے، جس سے 1991 میں اس نے حتمی آزادی حاصل کی، بطور جداگانہ اور آزاد ملک معرض وجود میں آیا۔ اس ملک کی اپنی زبان’’بیلا روسی‘‘ ہے، مگر ’’روسی‘‘ زبان بھی بڑے پیمانے پر لکھی پڑھی اور بولی جاتی ہے۔ 2015 میںپہلی مرتبہ اس ملک سے تعلق رکھنے والی صحافی اور ادیبہ’’سویٹلاناالیسیویچ‘‘ کو نوبیل ادبی انعام سے نوازا گیا۔
اسی ملک سے تعلق رکھنے والے ایک ناول نگار’’ویسل بائیکائو‘‘ ہیں، جن کا یہاں انتخاب کیا گیا ہے۔ ان کی پیدائش کا سال 1924 ہے، جبکہ ان کے رحلت کا برس 2003 ہے۔ انہوں نے اپنے ناولوں میں دوسری عالمی جنگ (جنگ عظیم دوم) کو ہی موضوع بنایا۔ بیلاروسی اور روسی زبان میں ناول نگاری کے حوالے سے یہ ایک معتبر نام ہیں، جنہوں نے اپنی کہانیوں کے ذریعے، دوسری عالمی جنگ کی حقیقت سے قریب ترین منظرکشی کی۔ ان دونوں زبانوں کے ادب میں ان کی بہت اہمیت ہے۔ ایک بار ان کو نوبیل ادبی انعام کے لیے بھی نامزد کیا گیا تھا۔
انہوں نے جب ہوش سنبھالا، تو آس پاس جنگی فضا تھی، یہ اسی ماحول کے عادی ہوگئے۔ سوویت یونین کی سرخ فوج کے لیے بھی کچھ عرصہ اعزازی طور پر کام کیا، پھر ایک موقع پر گرفتارہوئے اور بہت ممکن تھا، ان کو دشمن کا جاسوس سمجھ کر گولی مار دی جاتی، مگر ان کی قسمت میں زندہ رہنا باقی تھا، اس لیے یہ موت کے منہ سے نکل آئے۔ جنگ کے خاتمے پر بطور صحافی اپنے کیرئیر کی ابتدا کی، پھر اسی لکھنے کے عمل سے گزر کرناول نگار بنے۔ انہوں نے شروع میں مختصر ناول لکھے، بعد میں مفصل ناول نگاری کی اور اپنے ملک کی سرفہرست ادبی برادری میں شامل ہوگئے۔
’’ویسل بائیکائو‘‘ کو اپنے کیرئیر کی ابتدا ہی میں بہت توجہ ملی۔ روسی قبضے کے زمانے میں ان کے ادب کو دنیا کی کئی بڑی زبانوں میں ترجمہ بھی کیا گیا، جس سے ان کی شہرت بیلا روس سے باہر تک پہنچی۔ ان کو نمایاں ترین اعزازات سے بھی نوازا گیا، جن میں 1944 میں آرڈر آف دی ریڈ اسٹار، 1974 میں یوایس ایس آر اسٹیٹ پرائز اور 1984 میں لینن ایوارڈ شامل ہیں۔ اس میں آخری متذکرہ لینن ایوارڈ 1962 میں پاکستانی شاعر فیض احمد فیض کو بھی ملا تھا، جبکہ 1988 میں پاکستان میں ممتاز انسان دوست شخصیت عبدالستار ایدھی کو بھی دیا گیا تھا۔
1960 میں’’ویسل بائیکائو‘‘ کا پہلا مختصر ناول اشاعت پذیر ہوا۔ انہوں نے تقریباً درجن بھر ناول لکھے اور متعدد افسانوی مجموعے بھی شائع ہوئے۔ ان کی کئی کہانیوں اور ناولوں پر فلمیں بنائی گئیں۔ یہاں ان کا جو ناول منتخب کیا گیا ہے، اس کا روسی زبان میں عنوان’’سوتینکوف‘‘ ہے، جس کو انگریزی میں’’دی آرڈئیل‘‘ کا نام دیا گیا ہے، اردو زبان میں ہم اس کو’’آزمائش‘‘ یا’’امتحان‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ یہ ناول پہلی مرتبہ بیلاروسی اور روسی زبان میں 1970 میں شائع ہوا۔
اس ناول پر بننے والی فلم کا انگریزی عنوان’’دی ایسینٹ‘‘ ہے، یعنی بلندی کی طرف جانا، یا طلوع ہونے کا عمل، جس کو اس فلم میں دو فوجیوں کی اپنی منزل کی طرف پیش قدمی کی صورت میں منعکس کیا گیا ہے۔ وہ دونوں روسی فوجی اس فلم کے مرکزی کردار ہیں، جنہیں دوران جنگ، بیلا روس کے ایک گائوں میں غذا کی تلاش میں مارے مارے پھرتے دکھایا گیا ہے۔ غذا کی تلاش، سخت سرد موسم، دشمن کا خطرہ اور موت کے منڈلاتے سائے، اس صورتحال میںکئی فوجی بے رحمی سے موت کی بھینٹ چڑھ گئے۔ یہ فلم 1977 کو نمائش کے لیے پیش کی گئی۔
سوویت زدہ یوکرائن کے دور میںخاتون فلم ساز ’’لیریسا شیپکتو‘‘ نے اس فلم کی ہدایات دیں، جبکہ روسی فلم نویس’’یوری کلیپیکوف‘‘ کے ساتھ مل کر اس فلم کا اسکرپٹ لکھا اور’’ویسل بائیکائو‘‘ کے ناول سے بھی استفادہ کیا۔ اس فلم میں روسی اداکاروں نے خوب کام کیا۔ روسی اور جرمن زبان میںفلمائی گئی اس فلم کی روس ہی میں عکس بندی ہوئی۔ بلیک اینڈ وائٹ پرنٹ میں اس فلم کو تیار کیا گیا۔
ہدایت کارہ کی یہ آخری فلم ثابت ہوئی، کیونکہ 1979 میں ان کی کار حادثے میں موت ہوگئی۔ انہوں نے اپنے مختصر کیرئیر میں اداکاری، ہدایت کاری اور فلم نویسی میں منفرد مقام حاصل کیا۔ ان کی فلموں کویورپ کے تمام نمایاں فلم فیسٹیولز (فرانس، اٹلی اور جرمنی) میں نمائندگی ملی۔ خاتون فلم ساز ہونے کی حیثیت سے عالمی سینما کی تاریخ میں اپنی جگہ بناتے ہوئے صرف 41 برس کی عمر میں اس دنیا سے چلی گئیں۔
اس فلم کو ستائیسویں برلن انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں’’گولڈن بیئرایوارڈ‘‘ دیا گیا، جبکہ پچاسویں اکادمی ایوارڈز کے لیے، روس کی طرف سے آفیشل فلم کے طور پر اس کو نامزد کیا گیا، جو آسکرایوارڈز کی حتمی نمائندگی میں جگہ نہ بناسکی۔ پچھترویں وینس انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں اس فلم کو کلاسیکی فلموں کے سیکشن میں بھی شامل کیا اور نمائش بھی کی گئی۔ یہ فلم روس اور بیلاروس میں پابندی کا شکار ہوجاتی، لیکن مقتدر حلقوں کی حمایت کی وجہ سے پابندی سے بچ گئی۔
روسی زبان میں لکھے گئے ناولوں، بالخصوص جن کا پس منظر جنگ کا ہے، ایسے ناولوں کا مطالعہ اور اس طرح کے ناولوں پر بننے والی فلموں میں متذکرہ فلم کو ضرور دیکھنا چاہیے، اس سے تصویر کا دوسرارخ پتہ چلتا ہے، وگرنہ مغربی مصنفین اور فلم ساز تصویر کا ایک ہی رخ متواتر پیش کرتے رہتے ہیں، جس سے عالمی حالات کے بارے متوازن آگاہی نہیں ہوپاتی۔ یہ ناول اور فلم اس لحاظ سے اہم ہے۔