• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

2ستمبر 21ء کو جو کالم شائع ہوا، اس کے دو موضوعات تھے جن میں سے ایک کا مرکزی خیال یہ تھا کہ پاکستان میں فری اینڈ فیئر المعروف شفاف الیکشن جیسے خواب کی تعبیر تقریباً ناممکن ہے۔ 

دلیل میری برسوں پرانی گھسی پٹی تھی کہ جس غیور باشعور کے قدموں تلے زمین اور سر کے اوپر چھت اپنی نہیں، اس کی رائے او ر ووٹ بھی اپنا نہیں ہوسکتا۔ 

غربتوں، مجبوریوں، محرومیوں، خوف اور لالچ میں جکڑے ’’آزاد‘‘ عوام کا ووٹ بھی جکڑا ہوا ہوتا ہے جو قیمے والے نانوں اور بریانی کی پلیٹوں پر آگے پیچھے اور دائیں بائیں کھسکتا رہتا ہے۔

پھر یوں ہوا کہ اگلے روز ہی ٹی وی سکرینوں پر یہ دلچسپ منظر دیکھا جس کا تعلق کنٹونمنٹ بورڈ کے الیکشن سے تھا۔ ایک ’’جمہوری‘‘ امیدوار بیش قیمت گاڑیوں کے نرغے بلکہ حصار میں کھڑا گاڑی کے اوپر سے زندہ دل عوام پر نوٹوں اور کپڑے کے تھانوں کی بارش کر رہا تھا اور لوگ ٹوٹے پڑرہے تھے۔

 پنجابی زبان کامحاورہ یاد آیا کہ ’’منہ کھائے تو آنکھ شرمائے‘‘ اوریہ سوچ کر دل باغ باغ ہوگیا کہ پاکستانی جمہوریت قیمے والے نانوں اور بریانی کی پلیٹوں سے پروموٹ ہو کر عمدہ کپڑے کے تھانوں اور کرنسی نوٹوں تک پہنچ چکی ہے۔ 

بعد ازاں یہ ’’نوید مسرت‘‘ سنائی دی کہ سرعام جمہوریت کے اس بانک پن اور حسن و جمال کو خراج تحسین پیش کرنے والے اس جمہوری سپوت یعنی امیدوار کو کنٹونمنٹ بورڈ کی طرف سے ’’شوکاز نوٹس‘‘ بھیجا جائے گا۔ . . . . صرف ایک عدد شوکاز نوٹس۔ 

کرنسی نوٹ اور کپڑوں کے تھان لوگوں کے آگے یوں پھینکے جا رہے تھے جیسے بلیوں کے آگے چھیچھڑے، ڈبوئوں کے سامنے ہڈیاں، کبوتروں کے سامنے دانہ، مرغیوں کے لئے چوگا۔

یہ ہے وہ جمہوریت جس کے استحکام کی باتیں کرتے اور سوچتے ہیں کہ اس کے نتیجہ میں جمہور یعنی عوام کی قسمت بدل جائے گی تو بھائی! ملاوٹ زدہ گندے کیمیکل سے بنے ’’دودھ‘‘ سے خالص پانی بدرجہا بہتر ہوتا ہےا ور ہم تو وہ بدنصیب ہیں جنہیں نہ خالص جمہوریت ملی نہ خالص آمریت۔

 جمہوریت میں آمریت اور خیانت کی ملاوٹ اور آمریت میں ’’مزید جعلی جمہوریت‘‘ کی ملاوٹ ورنہ حبیب جالب کو یہ نہ پوچھنا پڑتا کہ ’’جن تھا یا ریفرنڈم تھا؟‘‘

اور اب اس جمہوریت کی شان میں کچھ ’’قصائد‘‘

٭٭٭

ہائو جلیں جو لاکڑی، کیس جلیں جو گھاس

ہر گھر جلتا دیکھ کر بھیئے کبیر اداس

٭٭٭

تنکا کبھی نہ نندئے پائوں تلے جو ہو

کبھواڑ آنکھ میں جا گھسے پیڑ گھنیری ہو

نوٹ: تنکا سے مراد عوام

٭٭٭

جہاں دَیا تہاں دھرم ہے، جہاں لُوبھ تہاں پاپ

جہاں کرودھ تہاں کال ہے، جہاں چھما تہاں آپ

٭٭٭

من میلا تن اجلا، بگلا کا سا بھیکھ

توہ سے کاگا ہے بھلا جو باہر بھیتر ایک

٭٭٭

مالا پھیرت جُگ بھیا، پھرا نہ من کا پھیر

ہاتھ کا منکا چھوڑ کر تو من کا منکاپھیر

٭٭٭

بڑا ہوا تو کیا ہوا، جیسے بڑی کھجور

پنچھی کو چھایا نہیں، پھل لاگے اتنی دور

٭٭٭

بہت پسارا مت کرو، کر تھوڑے کی آس

بہت پسارا جن کیا، وہ بھی گئے اداس

٭٭٭

کنچن تجنا سہج ہے، سہج تریا کا نیھ

مان بڑائی ایرشا، درلبھ تجنی ایہہ

٭٭٭

مایا تجَی تو کیا ہوا، مان تجا نہیں جائے

مان ور گلےبڑےمنی، مان سبھی کو کھائے

٭٭٭

برا جو دیکھن میں چلا، برا نہ دیکھا کوئے

جو دل کھوجا آپنا، مجھ سے برا نہ کوئے

٭٭٭

یہ جگ کوٹھی آگ کی، چھوندے لاگے آگ

بھیتر رہے تو جل مرے، سادھو پرے تو بھاگ

٭٭٭

موند منڈائے کیا ہوا جو کیتا گھوٹم گھوٹ

منوا تو مونڈا نہیں جس کا سگرا کھوٹ

٭٭٭

گروتے چیلالالچی، دونوں کھیلیں دا

گرو ہے خدمت مانگتا، چیلا مانگے راہ

٭٭٭٭

جس کو راکھے سائیاں، مار سکے نہ کوئے

بال نہ بیکا کرسکے جو جگ بیر ی ہوئے

٭٭٭

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین