برطانیہ کی وزیر داخلہ یویٹ کوپر نے اعلان کیا ہے کہ پناہ کے دعوے مسترد ہونے والے افراد کی اپیلز اب ججوں کے بجائے نئے ’’پروفیشنل ایڈجوڈی کیٹرز‘‘ کے ذریعے سنی جائیں گی۔
اس اقدام کا مقصد پناہ کے کیسز میں بڑے پیمانے پر موجود بیک لاگ کو تیزی سے نمٹانا ہے۔
اس تجویز پر کئی ماہ سے کام جاری تھا، تاہم ایک عدالتی فیصلے کے بعد اس کام کو تیز کر دیا گیا جس کے تحت حکومت کو ایپنگ کے بیل ہوٹل میں رہائش پذیر 138 پناہ گزینوں کو فوری طور پر دوسری جگہ منتقل کرنا ہوگا، دیگر کونسلیں بھی اسی نوعیت کے مقدمات دائر کر رہی ہیں جس سے حکومت کو ملک گیر سطح پر پناہ گزینوں کی رہائش کے حوالے سے بحران کا خدشہ لاحق ہے۔
یویٹ کوپر نے کہا ہے کہ ہم پناہ گزین ہوٹلوں کے خاتمے کے منصوبے کے تحت پناہ کے نظام میں لوگوں کی تعداد کم کرنے کے لیے پرعزم ہیں مگر اپیلز میں غیر معمولی تاخیر ناقابلِ قبول ہے جس کے باعث ناکام درخواست گزار برسوں تک نظام میں رہتے ہیں اور اس کا بھاری بوجھ ٹیکس دہندگان کو اٹھانا پڑتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اپیل کے اس نئے نظام کو ’’تیز، منصفانہ اور آزاد‘‘ بنایا جائے گا اور اس کے لیے اعلیٰ معیارات قائم کیے جائیں گے، اس دوران ملک بھر کے شہروں میں پناہ گزینوں کے ہوٹلوں کے باہر احتجاج کی نئی لہر دیکھنے میں آئی ہے۔
ہفتے کے اختتام پر برسٹل، لیورپول، نیو کیسل، ویک فیلڈ اور ابردین سمیت کئی مقامات پر مظاہرے ہوئے جن میں کم از کم 15 افراد کو گرفتار کیا گیا۔
حالیہ ہفتوں میں ایپنگ کے بیل ہوٹل کے باہر مظاہرے اس وقت شدت اختیار کر گئے تھے جب وہاں مقیم ایک پناہ گزین پر 14 سالہ لڑکی کے ساتھ جنسی زیادتی کے الزام میں فردِ جرم عائد کی گئی۔
دائیں بازو کی ہوم لینڈ پارٹی ملک بھر میں ان مظاہروں کی تنظیم سازی میں ملوث پائی گئی ہے، حکومت کو اس وقت عوامی اور قانونی دونوں محاذوں پر شدید دباؤ کا سامنا ہے کہ پناہ گزینوں کے لیے ہوٹلوں کے بجائے کوئی پائیدار رہائشی متبادل فراہم کیا جائے۔