• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نہ جانے اس قوم کو کس کی بددعا لگ گئی ہے کہ جس شخصیت کی جس وقت سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے،اسی وقت وہ اس کی صفوں سے اٹھ جاتی ہے۔

 آج افغانستان میں جو تبدیلی آئی ہے اور اس کے پاکستان پر جو اثرات مرتب ہوں گے، اس کے تناظر میں اس وقت افغانستان اور پاکستان دونوں کو اگر کسی فرد کے کردار اور رہنمائی کی سب سے زیادہ ضرورت تھی تو وہ رحیم اللّٰہ یوسفزئی تھے لیکن اس نازک وقت پراللّٰہ نے انہیں اپنے پاس بلا لیا۔

 اسی طرح اس وقت میڈیا بحرانوں کی زد میں ہےاور ان حالات میں بھی میڈیا کو رحیم اللہ یوسفزئی جیسے فرد کے سایے کی زیادہ ضرورت تھی لیکن اللّٰہ نے میڈیا کو اس سایے سے محروم کردیا۔

میں نے خود دیکھا ہے کہ کسی صحافی پر مشکل وقت آتا تو رحیم اللّٰہ یوسفزئی فوراً مدد کو پہنچ جاتے۔ صحافی آپس میں لڑپڑتے تو وہ مصالحت کے لئےآ جاتے۔ کسی آرگنائزیشن پر مشکل وقت آتا تو وہ اس کی جان بخشی کی کوشش میں لگ جاتے۔

مجھے براہ راست رحیم اللّٰہ یوسفزئی کی ٹیم میں کام کرنے کی سعادت نصیب نہیں ہوئی لیکن میں ان کے ساتھ کئی رشتوں میں بندھا ہوا تھا اور بالواسطہ ان سے بہت کچھ سیکھا۔میری پیدائش ضلع مردان کے اسی کاٹلنگ میں ہوئی، جہاں رحیم اللّٰہ صاحب کی ہوئی تھی ، اس لئے بھی وہ خصوصی شفقت فرماتے تھے۔ 

میں جب جنگ گروپ میں نہیں آیا تھا اور پشاور میں مزدوری کر رہا تھا تو میرے اور رحیم اللّٰہ صاحب کے دفاتر ساتھ ساتھ تھے اور ہمیشہ انہوں نے باپ جیسی شفقت سے نوازا۔ ان کے بیٹے ارشد یوسفزئی سے بھائیوں جیسا رشتہ رہا۔مجھے رحیم اللّٰہ یوسفرئی کے ساتھ بار بار سفر کرنے کا موقع ملا۔ ہم اکٹھے امریکہ گئے۔ تقریباً ایک ماہ ساتھ رہے۔ شام کو ہمارے گروپ کے ساتھی ایک طرف نکل جاتے اور ہم دونوں دوسری طرف۔ ہم اکٹھے جرمنی گئے، اکٹھے دبئی گئے۔ ملک کے اندر تو متعدد مرتبہ ایک ساتھ سفر کے مواقع ملے اور حقیقت یہ ہے کہ دورانِ سفر ان کی شفقت اور رحمدلی دوبالا ہوجاتی تھی۔ 

مغرب ہو یا مشرق، کسی ملک میں میں نے ان سے کوئی نماز چھوٹتے نہیں دیکھی اور کبھی کسی بیہودگی کی طرف ان کو راغب ہوتے نہیں دیکھا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک صاحبِ ایمان صحافی تھے۔ پشاور میں ہوتے تو حکمرانوں کے سامنے اپنے مردان اور کاٹلنگ کا مقدمہ لڑتے۔ 

وفاق میں ذمہ داروں کے ساتھ موجود ہوتے تو اپنے صوبے کا کیس لڑتے اور امریکہ یا کسی دوسرے ملک میں ہوتے تو پاکستان کا مقدمہ لڑتے۔ تقریباً ایک ماہ پر محیط سفر امریکہ کے دوران رحیم اللّٰہ یوسفزئی نے ہر معاملے پر جس طرح پاکستان کا مقدمہ لڑا ، کوئی کامیاب سفارتکار بھی اس طرح نہیں لڑسکتا۔ 

وہ افغان طالبان سے ملتے تو ان کو سمجھاتے بجھاتے اور جدید دنیا کی ضروریات سے آگاہ کرتے لیکن پاکستان میں ہوتے توطالبان کا مقدمہ لڑرہے ہوتے۔ یہی ایک مومن کی شان ہوتی ہے کہ سامنے تو تنقید کرے لیکن دوسروں کے سامنے اپنے قوم، علاقے، ملک یا دوستوں کی صفائی پیش کرے۔

میری طرح ان کے والد صحافی تھے، دادا اور نہ خاندان کا کوئی دوسرا فرد لیکن اپنی محنت اور قابلیت سے انہوں نے صحافت میں ایسا مقام بنایا کہ کوئی دوسرا اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ افغانستان کے حوالے سے رپورٹنگ کی وجہ سے عالمی سطح پر جو مقام اور پہچان رحیم اللّٰہ یوسفزئی کو ملی ، کوئی دوسرا اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ وہ ایسے قابل فخر انسان اور صحافی تھے کہ دیگر صحافی اپنے آپ کو ان کا شاگرد قرار دینے میں فخر محسوس کرتے تھے۔

اپنی شہرت اور اہمیت پر اترانا چاہتے تو بجا طور پر اتراسکتے تھے لیکن وہ ایسے پکے صاحبِ ایمان تھے کہ ان کی طرح کی سادگی، عاجزی اور انکسار میں نے آج تک کسی دوسرے صحافی کے ہاں نہیں دیکھا۔ سادگی اور عاجزی تو اس حد تک تھی کہ بعض ناداں ان پر بخل کا الزام لگاتے تھے لیکن ان نادانوں کو علم نہیں تھا کہ رحیم اللّٰہ یوسفزئی چوری چھپے کتنے غریب خاندانوں کی درپردہ کفالت کرتے ہیں۔ یہ راز صرف اس وقت کھلا جب شربت گلا کا کیس سامنے آیا اور پتہ چلا کہ رحیم اللہ یوسفزئی صاحب خاموشی کے ساتھ ان کے خاندان کی کفالت کرتےرہے۔ 

تبھی تو میں کہتا ہوں کہ صرف ارشد یوسفزئی، نجیب اللّٰہ یوسفزئی یتیم نہیں ہوئے بلکہ بہت سارے وہ غریب بچے بھی یتیم ہوگئے جن کی رحیم اللہ صاحب خاموشی کے ساتھ سرپرستی اور کفالت کیا کرتے تھے۔

رحیم اللہ یوسفزئی چاہتے تو ناجائز طریقوں سے دولت کے انبار لگاسکتے تھے لیکن ایسا کرنے کی بجائے وہ بیک وقت کئی اداروں کے ساتھ کام کرتے ، دن رات محنت کرتے۔ 

اپنے بچوں کی سفارش نہیں کرتے تھے لیکن جب بھی مجھ سے رابطہ کیا ، کسی غریب کے علاج معالجے یا کسی اور مسئلے کے سلسلے میں کیا۔آج مجھ ایسے درجنوں صحافی افغان امور کے ماہر بنے پھرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ افغانستان، طالبان اور القاعدہ وغیرہ سے متعلق جتنی معلومات رحیم اللّٰہ صاحب کے پاس تھیں، جتنے تعلقات اور روابط ان کے تھے، جتنا مطالعہ اور مشاہدہ ان کا تھا، ہم جیسے اس کے قریب بھی نہیں جاسکتے۔

اس لئے جب بھی ملاقات ہوتی تو میں ایک ہی مطالبہ کرتا کہ وہ کتاب لکھیں لیکن وہ روزمرہ کی صحافت اور خدمت انسانیت میں ایسے مگن تھے کہ ہمیشہ یہ عذر پیش کرتے کہ سلیم !وقت نہیں ملتا۔ چند ماہ قبل جب میری والدہ کی رحلت ہوئی تو وہ خودشدید بیمار بلکہ موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا تھے۔ میں ان کو منع کرتا رہا کہ آنے کی تکلیف نہ کریں لیکن میرے منع کرنے کے باوجود ایک دن اپنے بیٹے کا سہارا لے کر فاتحہ خوانی کے لئے میرے گھر پہنچ گئے۔ 

میں نے شکایت کہا کہ رحیم اللّٰہ صاحب ! ماں کے سائے سے محروم ہونے کے بعد اب ہمیں آپ جیسے لوگوں کے سائے کی زیادہ ضرورت ہے ، اس لئے آپ اپنی صحت کا زیادہ خیال رکھیں لیکن وہ کہنے لگے کہ آپ سے ملے بغیر اور فاتحہ خوانی کئے بغیر مجھے سکون نہیں آرہا تھا۔ 

اس روز بھی میں نے ان سے درخواست کی کہ اگر ممکن ہو تو وہ کسی کو ڈکٹیٹ کرکے کتاب لکھ لیں لیکن افسوس کہ وہ ہماری اس آرزو کو پورا کئے بغیر دارفانی سے کوچ کرگئے۔ کاش وہ کتاب لکھ لیتے لیکن ربِ کائناب کی اپنی حکمتیں ہواکرتی ہیں۔ ہم ان کے سائے اور رہنمائی سے محروم ہوگئے۔

اللّٰہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ ان کے پسماندگان، جن میں ہم خود بھی شامل ہیں، کو صبر جمیل عطا کرے۔ آمین۔ ثم آمین۔

تازہ ترین