یورپی ملک سویڈن کے دو ممتاز ناول نگاروں کو عالمی شہرت حاصل ہوئی کیونکہ انہوں نے ساٹھ اور ستر کی دہائی میں دس ناولوں پر مبنی جاسوسی سیریز تخلیق کی، جس کو بہت پسند کیا گیا۔ پاکستان میں مظہرکلیم کے مشہور ناول سلسلے کے تحت لکھی گئی’’عمران سیریز‘‘ اور یونس جاوید کی لکھی ہوئی ڈراما سیریز’’اندھیرا اجالا‘‘ اسی خیال سے متاثر ہیں ، کیونکہ سویڈن سے تعلق رکھنے والے دونوں قلم کاروں نے ساٹھ کی دہائی میں، پولیس کے شعبے کے تناظر میں جرم و سزا کی کہانیوں کو قلم بند کیا تھا۔ یورپ میں بھی بی بی سی فور سمیت کئی عالمی اور مقامی نشریاتی اداروں نے، ان کہانیوں سے متاثرہ مزید کہانیاں تخلیق کروائیں، جنہیں سینما اسکرین پر پیش کیا گیا۔ ان دونوں سویڈش لکھاریوں کے نام’’ماج سیول‘‘ اور ’’پروالے‘‘ ہیں۔
خاتون ناول نگار’’ماج سیول‘‘ کی گزشتہ سال ہی رحلت ہوئی، وہ طویل عرصے سے بیمار تھیں۔ انہوں نے ناول نگاری کے علاوہ تراجم نویسی میں بھی اپنی صلاحیتیں صرف کرتے ہوئے خود کو منوایا۔ ان کے تخلیق کردہ جاسوسی کردار’’مارٹن بیک‘‘ کو عالمگیر مقبولیت ملی۔
انہوں نے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد مختلف اشاعتی اداروں میں کام کیا، جہاں سے ان کو لکھنے کا شوق ہوا۔ اپنے شریک مصنف کے ساتھ 10 ناولوں کی شاندار جاسوسی سیریز لکھی، جس کو کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا اور دنیا کے معروف ناشرین نے شائع کیا۔ سویڈن کے شہر’’اسٹاک ہوم‘‘ کے پس منظر میں لکھی گئی یہ کہانیاں آج بھی مقبول ہیں۔ اپنے اسی شریک مصنف کے ساتھ افسانے بھی لکھے، جو بعد میں کتابی صورت میںشا ئع ہوئے، انہوں نے چند اور مصنفین کے ساتھ بھی اشتراک سے لکھنے کے تجربات کیے۔ ان کی ذاتی زندگی ناآسودہ رہی، البتہ انہوں نے پیشہ ورانہ طورپر بہت کامیابیاں سمیٹیں اور پاپولر فکشن کی دنیا میں نام کمایا۔
مرد ناول نگار’’پروالے‘‘ کو سب سے زیادہ شہرت اپنے ان دس ناولوں سے ملی، انہوں نے جو بطور شریک مصنف’’ماج سیول‘‘ کے ساتھ مل کر لکھے۔ یہ ایک ناول نگار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک صحافی بھی تھے، انہوں نے کرائم رپورٹنگ کی، اسی سے ان کو ناول لکھنے کی طرف رغبت ہوئی، جرم و سزا کی کہانیوں پر رپورٹنگ کرتے کرتے اس میں اپنے تخیل کی مدد سے کہانیوں کی نئی جہتیں تراشنے لگے۔ انہوں نے سیاحت کی غرض سے کافی ممالک کے دورے بھی کیے۔ اپنی ساتھی ناول نگار کے ساتھ ساتھ تخلیق کے علاوہ، ایک دوسرے کے جذبات میں بھی شریک کار تھے۔ ایک دہائی سے زیادہ عرصے پریہ رومان مشتمل تھا، جب تک موت نے ان کی زندگی کے دروازے پر دستک نہ دی۔ دونوں اشتراکی نظریات کے حامل تھے، جنہوں نے سویڈن کے جاسوسی ادب میں خاطر خواہ اضافہ کیا۔
ان دونوں ناول نگاروں کی، اس مشہور زمانہ دس ناولوں پر مشتمل سیریز کے نام بالترتیب اشاعت درج ذیل ہیں۔
۔روزینا (1965)
۔وہ آدمی جو دھواں چھوڑتا ہے (1966)
۔بالکونی پر کھڑا ہوا آدمی (1967)
۔خوش مزاج پولیس والا (1968)
۔آگ بجھانے والے انجن کی گمشدگی (1969)
۔ساووئے میں قتل (1970)
۔مکروہ آدمی (1971)
۔مقفل کمرہ (1972)
۔پولیس کا قاتل (1974)
دہشت گرد (1975)
ان میں سے ہم نے جس ناول کا انتخاب کیا ہے، اس کا نام’’خوش مزاج پولیس والا‘‘ ہے۔ اس ناول کے مرکزی خیال میں بتایا گیا ہے کہ ایک بس میں دہشت گردی کا واقعہ ہوتا ہے، جس میں کئی ہلاکتیں ہوتی ہیں، پولیس ان مجرموں تک کیسے پہنچتی ہے، وہی اس کہانی کا کلائمکس ہے۔ یہ ناول پہلی مرتبہ 1968 میں شائع ہوا، دو برس بعد اس کا انگریزی ترجمہ بھی شائع ہوگیا۔ اس کے تین سال بعد ہی ناول پر اسی نام سے فلم بن گئی، البتہ کہانی اور کرداروں میں معمولی تبدیلیاں کی گئیں۔ ناول اور فلم دونوں کو یکساں مقبولیت بھی حاصل ہوئی۔
ان ناولوں کا مشہور کردار’’مارٹن بیک ‘‘ کی حیثیت فلموں کی دنیا میں بھی ایسی ہی ہے، جس طرح برطانوی سینما میں جیمز بونڈ کو حاصل ہے۔ اس ناول پر بننے والی فلم کا اسکرین پلے’’تھامس ریک مین‘‘ نے لکھا جبکہ اس فلم کے ہدایت کار’’اسٹورٹ روزنبرگ‘‘ ہیں۔ امریکی اداکار’’والیٹر میتھیو‘‘ نے مرکزی کردار نبھایا۔ اس فلم میں جاسوسی کردار کو سویڈن کے شہر ’’اسٹاک ہوم‘‘سے امریکی شہر’’سان فرانسسکو‘‘ جاتے ہوئے دکھایا ہے۔ ان دونوں ناول نگاروں کے دس ناولوں پر بننے والی فلموں میں سے چھ فلموں میں جس سویڈش اداکار نے کام کیا، ان کا نام’’گوسٹا ایکمان‘‘ ہے۔ اس کے علاوہ سویڈش سینما میں اس کردارپر بہت ساری فلمیں اور بنیں، ان میں جس نے سب سے زیادہ یہ کردار نبھایا، ان کا نام’’پیٹر ہیبر‘‘ ہے۔
اس کردار کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دونوں ناول نگاروں کے ان دس ناولوں کو’’مارٹن بیک‘‘ کی کہانیوں کے نام سے فروخت کیا جاتا ہے، جو پوری دس کتابوں کا سیٹ ہے اور یہ وہ کردار ہے، جو فرضی ہے اور ان دونوں نے ان کہانیوں میں اس کو تخلیق کیا اور اب اس کی شہرت پوری دنیا میں پہنچ چکی ہے، یہی ان کے فن کی معراج ہے۔ یہ ناول اور اس پر بننے والی فلمیں، جاسوسی ادب اور سینما کی دنیا میں کلیدی حوالہ بنتی رہیں گی۔
معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے
ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر
روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی