کسی کو عمران خان سے اچھی امیدیں وابستہ تھیں، کوئی نواز شریف کے بغض میں ان کو ہیرو بنارہا تھا، کوئی اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر ایسا کررہا تھا، کوئی زیادہ ریٹنگ لینے کے چکر میں ان کوحکومت میں لانے پر تلا ہوا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کو کرکٹر سے سیاسی لیڈر اور پھر سیاسی لیڈر سے وزیراعظم بنوانے تک کے عمل میں میڈیا نے جو حصہ ڈالا ، وہ کسی اور سیاستدان کے حصے میں نہیں آیا۔ یہ مہربانی صرف ان کے لئے خاص تھی۔
وہ صرف طاقتور حلقوں کے نہیں بلکہ میڈیا کے بھی لاڈلے رہے ۔ اسی لئے ان کے جلسے چھ چھ گھنٹے مسلسل لائیو دکھائے جاتے رہے ۔ ان کے ون ٹو ون فرینڈلی انٹرویوز کئے گئے جبکہ ان کی خاطر ان کے مخالف سیاستدانوں کی کردارکشی ہوتی رہی ۔
انہوں نے کسی کے خاندان کو چھوڑا ،کسی کی اولاد کو اور نہ کسی کے گھر کی خواتین کو معاف رکھا لیکن اس کے برعکس میڈیا نے ان کی نجی زندگی کو کبھی موضوعِ بحث نہیں بنایا۔
ان کے چھ حلقوں کی وجہ سے میڈیا نے پانچ سال تک قیامت برپا کئے رکھی لیکن ان کی خاطر آر ٹی ایس فیل کروانے، پولنگ ایجنٹوں کو باہر نکلوانے اور بدترین پولیٹکل انجینئرنگ کامیڈیا نے چند روز تک بھی تذکرہ کرنا گوارا نہ کیا۔انہوں نے تمام سیاسی جماعتوں سے کرپٹ لوگوں کو اپنے گرد جمع کیا لیکن میڈیا ان کو مسٹر کلین قرار دیتا رہا۔
اسی طرح سوشل میڈیا کا سب سے پہلے اور سب سے زیادہ غلط استعمال عمران خان کی جماعت نے کیا۔ یہ واحد جماعت تھی جس نے کئی سال قبل برطانیہ، امریکہ ،سنگاپور اور یورپ میں خصوصی اور خفیہ سوشل میڈیا سیل قائم کئے تھے جو فیک اکائونٹس سے عمران خان کے نقادوں کی کردار کشی کرتے رہے۔
ملک کے اندر جہانگیر ترین، عارف علوی، اسد عمر، علیم خان اور عثمان ڈار وغیرہ نے سوشل میڈیا کے اپنے اپنے سیٹ اپ بنالئے تھے جبکہ عمران خان اور پی ٹی آئی کی تنظیم کے سوشل میڈیا کے سیٹ اپس اس کے علاوہ تھے ۔ یہ اپنے مخالفین کی کردار کشی کرتے ۔
فیک نیوز پھیلاتے اور عمران خان کو مسیحا ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے ۔میں گزشتہ دس سال سے پی ٹی آئی کی ان سوشل میڈیا ٹیموں کے ہاتھوں کردارکشی اور گالم گلوچ برداشت کررہا ہوں لیکن تماشہ یہ تھا کہ کچھ عرصہ قبل تک میڈیا کے اکثر ساتھی یہ ماننے کو تیار نہیں تھے کہ میرے ساتھ یہ سب کچھ عمران خان کے حکم پر ہورہا ہے ۔
تاہم ﷲ نے یہ کرم کیا کہ عمران خان صاحب کو وزیر اعظم بنوا دیا گیا(یہاں جملہ معترضہ کے طور پر عرض کردوں کہ ایک اینکر جو چند ماہ قبل تک عمران خان کے بڑے مداح تھے اور اب ان کی حکومت کے خلاف احتجاج میں بہت آگے آگے رہتے ہیں، نے انتخابات کے بعد مجھے طعنہ دیا کہ صافی! تم تو کہتے تھے کہ عمران خان وزیراعظم نہیں بن سکتا لیکن وہ تو بن گیا۔
میں نے جواب دیا کہ میں نے کہا تھا کہ بن نہیں سکتا یہ نہیں کہا تھا کہ بنوایا نہیں جاسکتا ۔ یوں تو اس ملک میں شوکت عزیز اور میر ظفرﷲ جمالی کو بھی منتخب وزیراعظم بنوایا گیا تھا) چنانچہ اقتدار سنبھالتے ہی وہ سب سے پہلے میڈیا پر پابندیاں لگانے میں مصروف ہو گئے۔
اس کام کے لئے انہوں نے دنیا بھر سے بدزبانوں کو میڈیا منیجرز کے نام پر جمع کیاچونکہ کرکٹر سے لے کر وزیراعظم بننے تک وہ میڈیا کے لاڈلے رہے تھے، اس لئے ان سے معمولی تنقید بھی برداشت نہیں ہوئی اور ان میڈیا پرسنز کو بھی نوکریوں سے محروم کردیا جنہوں نے چندبرسوں ان کی مدح سرائی کی تھی ۔
میڈیا کے لئے آزادی سانس یا آکسیجن جبکہ مالی وسائل غذا کی حیثیت رکھتے ہیں اور عمران خان نے برسر اقتدار آتے ہی میڈیا کو ان دونوں سے محروم کرنا چاہا۔ میں ابتدا سے عرض کرتا رہا کہ اتنی گھٹن اور پابندیاں ہم نے جنرل مشرف کے مارشل لا میں نہیں دیکھی تھیں جتنی کہ اس دور میں ہیں لیکن کچھ لوگ ماننے کو تیار نہیں تھے اور اب تین سال کے مختصر عرصے میں تمام صحافتی تنظیمیں یہ بات کرنے لگی ہیں ۔
دو گروپوں کے سوا باقی گروپوں کے مالکان شاید مزے میں ہیں لیکن اینکرز، کالم نگاروں، رپورٹرز اور کیمرہ مینوں پر جتنا مشکل وقت اب آیا ہے، پہلے کبھی نہیں آیا تھا۔
تاہم خان صاحب اس پر بھی اکتفا کرنے کو تیار نہیں ۔ وہ اب پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے نام سے ایک نیا قانون لانا چاہتے ہیں جو حقیقت میں پاکستان میڈیا ڈیمولیشن (Demolition) اتھارٹی ہے ۔
قانون بن گیا تواس کے بعد حکومت پر تنقید کرنا ناممکن ہوجائے گا۔صرف اخبار نہیں اور الیکٹرونک چینلز نہیں بلکہ سوشل میڈیا کا کنٹرول بھی حکومت کے ہاتھ میں آجائے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ آزادی اظہار کے حوالے سے اس کے بعد پاکستان ،اسلامی جمہوریہ نہیں رہے گا ، شمالی کوریا بن جائے گا۔ تماشہ یہ ہے کہ اس ڈریکونین قانون کے لئے عمران خان اور ان کے ترجمان یہ بھونڈی دلیل دے رہے ہیں کہ وہ فیک نیوز کا خاتمہ چاہتے ہیں حالانکہ سب سے زیادہ فیک نیوز خود یہ حکومت پھیلارہی ہے ۔
کواڈے نہ دینے سے انکار، بجٹ میں جی ڈی پی کے غلط اعدادوشمار پیش کرنا وغیرہ فیک نیوز نہیں تو اور کیا ہے ؟ اسی طرح پاکستان میں سب سے زیادہ غلط الزامات اگر کسی شخص نے لگائے ہیں تو وہ عمران خان صاحب ہی ہیں ۔
سیٹھی کے خلاف پینتیس پنکچر لگانے کا الزام ، جنگ اور جیو کے مالکان پر را سے پیسے لینے کا الزام وغیرہ سب کیا ہیں؟ حکومت اگر فیک نیوز کا خاتمہ چاہتی ہے تو اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ قذف کا قانون لاگو کردے اور یہ قانون بنادے کہ جن لوگوں کے خلاف ہتک عزت کے کیسز چل رہے ہیں ، ان کا فیصلہ ایک ماہ کے اندر ہونا چاہئے ۔
میرے خلاف ، دیگر صحافیوں کے خلاف ، خود عمران خان کے خلاف ، شہباز شریف اور زرداری وغیرہ کے خلاف ہتک عزت کے جتنے کیسز ہیں ، ان کا فیصلے جلدازجلد کروا لیں، تو ایک دوسرے پر بغیر ثبوت کے الزام لگانے کا سلسلہ خود بخود ختم ہوجائے گا۔
تازہ ترین اور سب سے بڑی فیک نیوز بھی کسی میڈیا پرسن نے نہیں بلکہ خود ایک حکومتی وزیر نے دی جب انہوں نے الیکشن کمیشن پر اپوزیشن سے پیسے پکڑنے کا الزام عائد کیا ۔
اب اگر ثبوت ہیں تو سپریم جوڈیشل کونسل میں کیوں نہیں لائے جاتے اور اگر نہیں ہیں تو پھر اس وزیر کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جاتی؟