میں اپنا امریکہ کا دورہ مکمل کرکے واپس اسلام آباد پہنچا تو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے موقع پر پارلیمانی تاریخ کا ایک عجیب نظارہ میرا منتظر تھا، صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے خطاب کے دوران ایک طرف اپوزیشن جماعتیں روایتی انداز میں روڑے اٹکارہی تھیں تو دوسری طرف صحافی سراپا احتجاج تھے، میڈیا تنظیموں کی کال پر پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر صحافیوں کی بڑی تعدادوزارت اطلاعات و نشریات کے متعارف کردہ پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے فیصلے کے خلاف دھرنا دئیے بیٹھی تھی۔اگر دنیا کے مختلف ممالک کا جائزہ لیا جائے تو جمہوری اقدارپر عمل پیرا، انسانی حقوق کے علمبردار اور کرپشن کے خلاف نبرد آزما معاشروں کی خصوصیت وہاں آزاد میڈیا کی موجودگی ہے، صحافی معاشرے کی بہتری کی خاطر بلا خوف و خطر اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی میں مصروف عمل ہوتے ہیں ، وہاں کا میڈیا حکومتی اداروں کی کارکردگی پر گہری نظر رکھتا ہے، فنڈز کی خوردبرد ہو یا پھر اختیارات سے تجاوز ، مختلف اسکینڈل نہ صرف میڈیا کے توسط سے منظرعام پر آتے ہیں بلکہ ذمہ داران کو کٹہرے میں بھی لایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ نے یونیورسل ڈیکلریشن آف ہیومن رائٹس کے آرٹیکل 19کے تحت آزادی اظہار رائے کو بنیادی انسانی حقوق میں شمار کیا ہے، اقوام متحدہ کے تحت دنیا بھر میںہرسال 3مئی کو ورلڈ پریس فریڈم ڈے منایا جاتا ہے۔ بانی پاکستان قائداعظم آزاد اور ذمہ دارانہ صحافت کے حامی تھے، صحافیوں سے ایک ملاقات کے دوران قائداعظم نے فرمایاتھا کہ صحافت ایک عظیم طاقت ہے،یہ فائدہ بھی پہنچاسکتی ہے اورنقصان بھی،اگرصحیح طریقے سے صحافت کی جائے تویہ رائے عامہ کی رہنمائی اورہدایت کافرض بخوبی سرانجام دے سکتی ہے۔اگرچہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل انیس کے تحت آزادی اظہار رائے کی ضمانت تو دی گئی ہے لیکن مختلف ادوار میں صحافت کو پابند سلاسل کرنے کا سلسلہ بھی ہماری قومی تاریخ کاشرمناک حصہ ہے۔بدقسمتی سے صحافت پر قدغن کبھی سیاہ صحافتی قوانین بناکر لگائی گئی تو کبھی نڈر اور بے باک صحافیوں کو کوڑوں کی سزا سنا ئی گئی، کبھی صحافیوںکو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلا گیا تو کبھی نان اسٹیٹ ایکٹرز کی جانب سے انھیں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا ، آج بھی چند ٹی وی اینکر شکایت کرتے ہیں کہ ان کوکلمہ حق ادا کرنے کی پاداش میں زبردستی ٹی وی اسکرین سے آف ایئر کردیا گیا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ اکیسویں صدی کے ڈیجیٹل میڈیا کے دور میں صحافت کو سب سے بڑا چیلنج بعض انتہائی غیر ذمہ دار یوٹیوب چینلز اور نیوز ویب سائٹس کی صورت میں درپیش ہے، ایک طرف گورنمنٹ سے رجسٹرڈ شدہ میڈیا اداروں سے وابستہ اعلیٰ صحافتی اقدار پر عمل پیرا پروفیشنل صحافی ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کا قیمتی حصہ صحافت کے پُر خطر میدان میں گزار دیا تو دوسری طرف سوشل میڈیا پر لائکس، کمنٹس اور ویوز حاصل کرنے کے چکر میں بے بنیاد خبریں پھیلانے والے عناصر ہیں جو اپنے آپ کو کسی قاعدے قانون کا پابند نہیں سمجھتے۔ایسے حالات میں وفاقی وزیراطلاعات و نشریات فواد چوہدری کی جانب سے پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی صورت میں ایک نئے حکومتی ادارے کے قیام کی حکومتی کاوش منظرعام پر آئی ہے اس کے خیال میں اس کا مقصد تمام ملکی ذرائع ابلاغ بشمول پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کوقانون کے دائرہ کار میں لاتے ہوئے ایک واحدحکومتی ادارے کے تابع کرنا ہے، اس حوالے سے وفاقی وزیر کا موقف ہے کہ سوشل میڈیا گمراہ کُن معلومات کے پھیلاؤ کا سب سے بڑا ذریعہ بن چکا ہے ، ان کے بقول حکومتی اقدام ملک میں زرد صحافت اور فیک نیوز کا تدارک کرنے میں معاون ثابت ہوگاجبکہ مذکورہ اتھارٹی کے تحت ورکنگ جرنلسٹس کے حقوق کا تحفظ بھی یقین بنایا جاسکے گا، مذکورہ اتھارٹی سرکاری اشتہارات کی جائز تقسیم بھی یقینی بنائے گی ۔دوسری طرف پاکستان کے تمام بڑے میڈیا ادارے پاکستان میڈیا ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (پی ایم ڈی اے) کے قیام کو آزادی صحافت پر حملے سے تعبیر کررہے ہیں، روزانہ کی بنیادوں پر آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی، پاکستان براڈکاسٹنگ ایسوسی ایشن، کونسل آف پاکستان نیوزپیپرز ایڈیٹرز اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی جانب سے حکومتی اقدام پر احتجاج جاری ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ نئی میڈیااتھارٹی مشکلات سے دوچار صحافت کا گلہ گھونٹنے کا باعث بنے گی۔میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت پاکستان میں صحافت کو اس کا کھویا ہوا جائزمقام دلوانے کیلئے فیک نیوز پھیلانے والے عناصر کا سدباب بہت ضروری ہے، ایک طرف میڈیاکے رجسٹرڈ ادارے مالی مسائل کا شکار ہیں تو دوسری طرف انٹرنیٹ پر جعلی خبریں پھیلانے والے نہ صرف آن لائن اشتہارات کے حصول میں سب سے آگے ہیں بلکہ صحافت کے مقدس پیشے کو بھی بدنام کیا جارہا ہے۔ اس امر کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ صحافی کمیونٹی ماضی کے کچھ تلخ تجربات کی بناء پر شکوک و شبہات کا شکار ہے کیونکہ گزشتہ ادوار میں ایسے قوانین میڈیا کی آزادی سلب کرنے کا باعث بنے ہیں،آج وقت کا تقاضا ہے کہ تمام صحافتی تنظیموں کو اعتماد میں لینے کیلئے گول میز کانفرنس بلائی جائے، صحافیوں کے جائز مطالبات کو سنا جائے اور متنازع شقوں پر اتفاق رائے پیدا کیا جائے،انہیں یقین دہانی کرائی جائے کہ مذکورہ اقدام آزادی صحافت پر حملہ نہیں بلکہ صحافت کو مستحکم کرنے کی ایک کڑی ہے، مذکورہ بل کا مسودہ صحافتی تنظیموں کے نمائندگان اور سول سوسائٹی سے ڈسکس کرنے کے بعد پارلیمنٹ میں بحث کیلئے پیش کیا جائے ،میں اس سلسلے میں حکومت اور صحافی کمیونٹی کے مابین اعتماد کی بحالی کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کیلئے بھی تیار ہوں۔ بقول علامہ اقبال، آئین ِ نو سے ڈرنا طرزِ کہن پہ اَڑنا، منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)