کراچی کنٹونمنٹ بورڈ کے بلدیاتی انتخاب میں پی ٹی آئی نے میدان مار لیا۔کراچی کے 6 کنٹونمنٹ بورڈ کے 42 وارڈمیں سے پی ٹی آئی کو 14 میں کامیابی ملی جبکہ پی پی پی نے 11، جماعت اسلامی نے 5 ،مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم نے تین تین اور آزاد امیدواروں نے 6 ، وارڈ میں کامیابی سمیٹی جبکہ پی ایس پی ،اے این پی،جے یو آئی اور اللہ اکبر سیاسی جماعتیں کوئی سیٹ حاصل نہیں کر سکیں ان محدود الیکشن کا اتنا ہوا کھڑا کر دیا گیا تھا جسے کہ یہ قومی سطح کے انتخابات ہوں،اس الیکشن میں پی ٹی آئی نے کراچی کی سطح پر اپنی مقبولیت تسلم کرائی جبکہ حیدرآباد میں ایم کیو ایم کو غیر معمولی کامیابی ملی۔
ادھر پی ڈی ایم اور پی پی پی کے درمیان الزامات اور جوابی الزاماات کے بعد متحدہ اپوزیشن کے قیام کے امکانات معدوم ہوچکے ہیں اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کو ٹار گٹ کرنے کے بجائے ایک دوسرے کو ٹار گٹ پر رکھ لیا ہے اور ایک دوسرے پر اسٹیبلشمنٹ سے رابطوں کے الزامات دھرا رہے ہیں۔ حکومت کو اپوزیشن سے بظاہر اب کوئی بڑا خطرہ درپیش نہیں اپوزیش اور حکومت کی نظریں اگلے الیکشن پر مرکوز ہو چکی ہیں جبکہ بلاول بھٹو نے اچانک جنوبی پنجاب میں غیر اعلانیہ انتخابی مہم بھی شروع کر دی ہے۔
پی پی پی کی حکمت عملی بڑی واضح ہو چکی ہے وہ اپوزیشن بھی کر رہی ہے اور طاقتور حلقوں کی ناراضی بھی مول لینا نہیں چاہتی ایک جانب بلاول بھٹو نے پنجاب کا رخ کیا ہے تو دوسری جانب سندھ کے لیے وزیر اعظم کے معاون خصوصی ارباب رحیم کی سندھ میں پارٹی کو منظم کرنے اور با اثر شخصیات سے ملاقاتوں کا سلسلہ تھم گیا ہے سیا سی حلقے اسے معنی خیز قرار دے رہے ہیں اور یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا بلاول کی پنجاب میں پیش قدمی حکومت مخالف ووٹ تقسیم کرنے کی کوششیں تو نہیں اور کیا ا س بار بھی پی پی پی صرف سندھ تک محدود رہنا چاہتی ہے ؟
اِدھر پی پی پی کے رہنما فیصل کریم کنڈی کی جانب سے مولانا فضل الرحمن سے پوچھے جانے والے سوالات کے بعد جمعیت علماء اسلام سندھ کے جنرل سیکرٹری علامہ راشد محمود سومرو نے بلاول بھٹو کو دس سوالات کے جوابات دینے کا چیلنج کر دیا ہے انہوں نے کہا ہے کہ سینیٹ الیکشن میں میاں رضا ربانی صاحب جو بلامقابلہ چیئرمین بن رہے تھے ان کو کس کے کہنے پر چیئرمین سینیٹ نہیں بنایا اور صادق سنجرانی کو کس کے کہنے پر چیئرمین بنایا ؟
صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد تحریک انہوں نے کس کے کہنے پر ناکام کروائی؟، 2018 کے انتخابات مین انہوں نے وزیراعظم کے الیکشن میں میاں شہباز شریف کو کس کے کہنے پر ووٹ نہیں دیا؟ صدارتی الیکشن میں انہوںنے مولانا کے مقابل اپنا امیدوار اعتزاز احسن کس کے کہنے پر کھڑا کیا؟
صدارتی الیکشن کی رات انکے والد نے مولانا فضل الرحمن کو کونسی مجبوریاں بتا کر معذرت کی تھی ؟پی ڈی ایم کی تحریک کو استعفوں اور لانگ مارچ سے تحریک عدم اعتماد کی طرف کس کی خواہش پر موڑا گیا؟ استعفوں کا باقاعدہ انکار کرکے پی ڈی ایم کی تحریک کی پیٹھ میں چھرا گھونپا گیا؟یوسف رضا گیلانی کس طرح اپوزیشن لیڈر بنے؟
ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے ووٹ میں انکی جماعت نے پی ڈی ایم کے امیدوار مولانا حیدری کو کس کے کہنے پر ووٹ نہیں دیے؟انہوں نے سندھ کے وسائل ملٹی نیشنل کمپنیوں کو کس کے کہنے پر اور کتنے میں بیچے؟ لاڑکانہ کی سیٹ پر عبرتناک شکست سے بچنے اور جمعیت علماءاسلام کی جیتی ہوئی سیٹ چھیننے کے لیے کتنی پیمنٹ کس کو اور کہاں پر اور کس کے ہاتھ دی؟
ادھر بجلی کے بلوں میں کے ایم سی ٹیکس وصولی کے معاملے پرسندھ حکومت اور وفاق ایک بار پھر آمنے سامنے آ گئے ہیں، وفاقی حکومت نے کے ایم سی کے ٹیکس کی وصولی سے صاف انکارکر دیا ہے اس ضمن میں وفاقی وزیر اسد عمر نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ وفاق ،کے الیکٹرک کے بلوں میں کے ایم سی ٹیکس وصولی کی اجازت نہیں دے گا گورنر سندھ کا موقف ہے کہ بجلی کے بلوں میں کراچی کے عوام سے ٹیکس وصولی کراچی کے عوام پر اضافی بوجھ پڑے گا اس سے قبل وزیر اعلی سندھ کی زیر صدارت کے الیکٹرک اور کے ایم سی کے مشترکہ اجلاس میں کے الیکٹرک کے بلوں میں سو سے دو سو روپے عوام سے لینے کی بات کی گئی تھی تھی اس سے 9 ارب روپے ٹیکس کی آمد نی ہو ئی دوسری جانب و فاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقیات اسد عمر نے 2023 کے انتخابات نئی مردم شماری کے تحت کرانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل کی منظوری کے بعد مردم شماری پر کام شروع کر دیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ایک سال پہلے وزیرِ اعظم عمران خان نے کراچی کے لیے تاریخی پیکیج کا اعلان کیا تھا کراچی کے لیے گرین لائن پروجیکٹ جدید ٹرانسپورٹ کا منصوبہ ہے، اس کے متعدد مراحل مکمل ہوچکے ہیں، اس منصوبے کے لیے 80 بسیں لائی جا رہی ہیں ، وزیر منصوبہ بندی نے کہاکہ وفاق کی جانب سے تیسرا منصوبہ کراچی سرکلر ریلوے کا ہے، یہ اہم منصوبہ ہے، سرکلر ریلوے کراچی سے پپری تک کا منصوبہ ہے جس پر 70ارب روپے لاگت آئے گی، یہ 43 کلومیٹر پر محیط ہو گا، جس میں سے 29 کلو میٹر ٹریک بنے گا، وزیر اعظم 30 ستمبر سے پہلے کراچی کا دورہ کریں گے اور وہ کراچی سرکلر ریلوے کے انفراسٹکچر کا افتتاح کریں گے۔
ادھر پانی کی قلت کے خلاف جماعت اسلامی نے واٹر بورڑ کے دفتر کے سامنے احتجاجی دھرنا دیا حافظ نعیم الرحمن دھرنے سے اختتامی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اہل کراچی کے احساسات و جذبات کی ترجمانی کے لیے 5 گھنٹے سے زائد شاہراہ فیصل پر دھرنا جاری ہے،ہم کراچی کے حقیقی نمائندے ہیں اور جمہوریت کی اصل شکل یہاں شاہراہ فیصل پر موجود ہے۔
ہم وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ کراچی دشمنی ختم کردیں، ہم سڑکوں پر کراچی کا مقدمہ لڑیں گے، گرفتاریوں، لاٹھی چارج اور آنسو گیس سے ہم ڈرنے والے نہیں کراچی کا حق لے کر رہیں گے،آج کا دھرنا پر امن ہے،پر امن رہے گا لیکن عوام کو ان کا حق اور پانی دینا ہوگا، کراچی سے لیے جانے والا ٹیکس کا جواب دینا ہوگا، ہم اعلان کرتے ہیں کہ اگر عوام کو ان کا حق نہ ملا اور پانی نہ دیا گیا تو شہر کے ہر چوک اور چوراہوں پر احتجاج کریں گے۔