’’پا ‘‘ فارسی کا لفظ ہے اور اس کے معنی ہیں پائوں یا قدم۔ ’’پا ‘‘ بنیاد یااصل کو بھی کہتے ہیں۔ پاپوش (جوتی) میں بھی یہی ’’پا‘‘ ہے جو پائوں کے معنی میں ہے۔فارسی لفظ’’پوش ‘‘کے معنی پہننے والا بھی ہے ، جیسے نقاب پوش یا سفید پوش ، اور چُھپانے والا بھی ، جیسے عیب پوش۔ پوش اس چیز کو بھی کہتے ہیں جو پہنی جائے جیسے
پاپوش (یعنی وہ چیز جو پاؤں میں پہنی جائے، جوتا)۔
لیجیے پاپوش پر ایک مشہور شعر یاد آگیا :
پاپوش میں لگائی کرن آفتاب کی
جو بات کی خدا کی قسم لاجواب کی
دراصل ’’کرن ‘‘سورج کی شعاع کو کہتے ہیں اورگوٹا کناری یا سنہرے تار کو بھی ’’کر ن ‘‘کہتے ہیں۔اس تارکو بعض اوقات جوتی میں بھی آرائش کے لیے لگایا جاتا ہے، شاعر نے اسی سے فائدہ اٹھا کر بات کہاں سے کہاں پہنچادی ۔
خیر، یہ کوئی اور ذکر نکل آیا ، بات ہورہی تھی ’’پا ‘‘کی، جس کے معنی پائوں بھی ہیں اور بنیاد یا اصل بھی۔ایک اور لفظ ہے ’’پایہ‘‘۔ یہ بھی فارسی کا لفظ ہے ۔ سیڑھی کے جس تختے یا ڈنڈے پرپائوں رکھتے ہیں اسے پایہ کہتے ہیں۔ گویازینے کا وہ حصہ جس پر پیر رکھ کر اوپر چڑھتے ہیں پایہ کہلاتا ہے۔ پایہ عزت، مرتبے اور درجے کے معنی میں بھی آتا ہے۔ کرسی یا پلنگ وغیرہ کے پائوں کو اوربکرے یاگاے کے پائوں کو بھی پایہ ؍پایا کہتے ہیں اور پائے کھانے والے جانتے ہیں کہ لاہور میں ’’پھجے دے پائے ‘‘ یعنی ’’پھجے کے پائے ‘‘کتنے مشہور ہیں ( حالانکہ وہ ہوتے گائے ہی کے ہیں) ۔ پایہ کا لفظ درجے یا رتبے کے معنی میں بھی آتا ہے ، جیسے وہ بڑے اعلیٰ پائے کے فن کار ہیں ۔
ہمارے ایک دوست نے عید الاضحی پر قربانی کی تواپنے ذبح شدہ بکرے کے درجات بلند کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’اس کی تو سِری بھی پائے کی تھی‘‘۔ لیکن یہاں پائے کا لفظ درجے یا مرتبے کے لیے آیا ہے ۔
بنیاد یا اصل یا قدم کے معنی میں’’ پایہ‘‘ نہیں بلکہ ’’پا‘‘ استعمال کرنا چاہیے ۔ ’’پا ‘‘ استحکام یا مضبوطی کا کنایہ بھی ہے اور اسی لیے دارالحکومت یا دارالسلطنت (یا دارالخلافہ، حالانکہ اب خلافت کہاں رہی لیکن دارلحکومت کو دارلخلافہ بھی کہتے ہیں ) کو’’ پاے ‘‘تخت کہتے ہیںاور اسے ’’پایۂ ‘‘تخت لکھنا اور بولنا درست نہیں ہے۔اسٹین گاس نے بھی اپنی لغت میں ’’پای تخت ‘‘ (یعنی چھوٹی ’’ی ‘‘سے)لکھا ہے۔
یہاں ذرا سی وضاحت کردی جائے کہ جدید فارسی میں یاے مجہول (یعنی بڑی ے) استعمال نہیں ہوتی اور صرف یاے معروف (یعنی چھوٹی ی ) کا رواج ہے ۔ اسی لیے اسٹین گاس کی لغت میں پاے تخت کو پای تخت (چھوٹی ی سے) لکھا گیا ہے ۔ نیز ایسے موقعے پر ہمزہ (ء)کا کوئی کام نہیں ہوتا اوراردو میں بھی اسے ’’پائے تخت ‘‘ لکھنے کی بجاے بغیر ہمزہ کے یعنی’’ پاے تخت ‘‘لکھنا چاہیے ۔
قبلہ حضرت ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خاں صاحب بھی یہی تاکید کرتے تھے کہ ایسے مرکبات (مثلاً پاے تخت، باباے اردو وغیرہ ) پر ہمزہ نہیں لکھنا چاہیے اور ڈاکٹر گیان چند جین نے بھی اپنی کتاب عام لسانیات میں ایسے موقعوں پر ہمزہ کے استعمال کو غیر ضروری قرار دیا ہے۔
دراصل ایسے مواقع پر ’’ے ‘‘ حرف ِ اضافت کے طور پر آتی ہے اور ہمزہ سے بھی مرکبات میں حرف ِ اضافت کا کام لیا جاتا ہے ۔ لہٰذا سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک لفظ پر دوبار حرف ِ اضافت لکھنا کس طرح درست ہوسکتا ہے؟ لیکن بھائی لوگ ’’باباے ‘‘اردو کو’’ بابائے ‘‘اردو (یعنی بڑی ’’ی‘‘ اور ہمزہ دونوں کے ساتھ ) لکھتے ہیں ۔ بقول ِ شاعر:
جنوں خرد کے مقابل ہے، کیا کِیا جائے ؟