اسلام آباد (زاہد گشکوری) دنیا کے چھ ممالک میں 80 فیصد سے زائد اوور سیز ووٹرز ہیں، 58 فیصد ووٹ پاکستان کے 20 اضلاع سے تعلق رکھتے ہیں۔ بیرون ممالک ووٹ کا زیادہ فائدہ پی ٹی آئی کو ہوگا، ن لیگ کو بھی اپنا حصہ مل سکتا ہے، جب کہ پیپلزپارٹی کا امکان کم ہے۔
تفصیلات کے مطابق، پاکستان کے تقریباً ایک کروڑ شہری 200 ممالک میں رہائش پذیر ہیں اور ان کے پاس قومی شناختی کارڈ برائے بیرون ملک مقیم پاکستانی (نکوپ) موجود ہے۔ انہیں عام انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا حق مل سکتا ہے۔
ان میں سے صرف چھ ممالک ایسے ہیں جہاں 80 فیصد سے زائد (9906175) پاکستانی موجود ہیں ان ممالک میں سعودی عرب، یو اے ای، برطانیہ، اومان، کینیڈا اور امریکا شامل ہیں۔
جیو نیوز کے پاس موجود سرکاری اعدادوشمار کے مطابق، ممکنہ غیر ملکی ووٹرز میں 58 فیصد سے زائد کا تعلق 20 اضلاع سے ہے جن میں لاہور، راولپنڈی، گجرات، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، فیصل آباد، کراچی شرقی، کراچی وسطی، کراچی جنوبی، ڈیرہ غازی خان، جہلم، اٹک، ملتان، صوابی، پشاور، اسلام آباد، سرگودھا، منڈی بہاالدین، مردان اور سوات شامل ہیں۔ نکوپ حاملین کی سب سے بڑی تعداد لاہور سے تعلق رکھتی ہے، ان کی تعداد 709821 ہے۔
اس کے بعد راولپنڈی سے 546507، پھر سیالکوٹ سے 472795، سندھ میں کراچی وسطی سے 346960، کراچی شرقی سے 221312 اور کراچی جنوبی سے 169321 ووٹرز نکوپ کے حاملین ہیں۔ خیبر پختون خوا میں سب سے زیادہ تعداد سوات سے 225764، جب کہ اسلام آباد سے نکوپ حاملین کی تعداد 206600 ہے۔
ان 20 اضلاع میں قومی اسمبلی کی کم از کم 91 سیٹیں ہیں۔ جب کہ ان اضلاع میں پی ٹی آئی کی فی الوقت 52 ایم این ایز، ن لیگ کے 30 ایم این ایز ، پیپلزپارٹی کا ایک اور ایم کیو ایم کے دو ایم این ایز ہیں۔ غیرملکی ووٹرز کی شمولیت سے پی ٹی آئی کو امید ہے کہ اس کی پوزیشن مستحکم ہوسکتی ہے۔
گزشتہ عام انتخابات میں پی ٹی آئی کو 16903702 ووٹ ملے تھے ، ن لیگ کو 12934589 اور پیپلزپارٹی کو مجموعی طور پر 6924356 ووٹ ملے تھے۔ جیو نیوز کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اگر 35 سے 50 فیصد ووٹرز اپنے ووٹ کا حق استعمال کرتے ہیں اور ن لیگ کو ان کا 20 فیصد ووٹ بھی ملتا ہے تو لگ بھگ 6 سے 10 لاکھ ووٹ ن لیگ کو مل سکتے ہیں، جس کی مدد سے وہ 3 سے 5 سیٹیں جیت سکتے ہیں۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ ن لیگ اگر زیادہ ووٹ بھی لے تو وہ ضروری نہیں کہ زیادہ سیٹیوں کے حصول کا سبب بھی بنے۔
2018 کے عام انتخابات میں ن لیگ نے 64 سیٹیں حاصل کی تھیں اور مجموعی ووٹ 12934589 تھے۔ اس طرح فی سیٹ 202102 ووٹ بنتے ہیں۔ یہ تعداد پی ٹی آئی کے مقابلے میں 60 ہزار ووٹ اور پیپلز پارٹی کے مقابلے میں 40 ہزار ووٹ زیادہ تھی۔
یہی وجہ ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ووٹ ن لیگ کے مقابلے میں پی ٹی آئی کو زیادہ فائدہ پہنچاسکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کو بھی اس سے زیادہ فائدہ نہیں ہوگا کیوں کہ حالیہ رجحان سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پنجاب میں ان کی زیادہ حمایت نہیں ہے، لہٰذا غیرملکیوں کے ووٹ میں تبدیلی کا بھی کوئی امکان نہیں ہے۔
تاہم، سندھ میں پیپلزپارٹی کی پوزیشن مستحکم ہے۔ ایم کیو ایم کو بھی کراچی میں فائدہ ہوسکتا ہے کیوں کہ اس کے 310979 ممکنہ ووٹ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ہیں۔ تاہم، جیو نیوز کی تحقیقات کے مطابق اگر غیرملکی ووٹرز کی بڑی تعداد ووٹ نہیں ڈالتی تو 2023 کے عام انتخابات میں کوئی خاطر خواہ اثر نہیں پڑے گا۔
عالمی رجحان دیکھا جائے تو بیرون ملک مقیم افراد کا ووٹنگ ٹرن آئوٹ عموماً 10 فیصد سے کم رہتا ہے۔ پی ٹی آئی، ن لیگ اور پیپلزپارٹی نے متعدد کوششوں کے باوجود اس نمائندے سے اپنے بیرون ملک مقیم ممبرشپ کی تفصیلات کا تبادلہ نہیں کیا اور نا ہی ان کے پاس کوئی منظم اعدادوشمار ہیں۔
پی ٹی آئی کے ڈاکٹر عبداللہ ریار جو کہ پارٹی کے بیرون ملک امور کی نگرانی کررہے ہیں ان کا دعویٰ ہے کہ پی ٹی آئی کے مختلف ممالک میں ہزار ہا ارکان رجسٹرڈ ہیں ، تاہم انہوں نے مزید تفصیلات کا اشتراک نہیں کیا۔
جب کہ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں میں ہماری حمایت کا تخمینہ 60 فیصد سے زائد ہے، جیسا کہ ہماری تقاریب میں دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں ان کی موجودگی سے ظاہر ہوتا ہے۔ تاہم، ان کا کہنا تھا کہ بیرون ملک مقیم ووٹرز کی ناموں کی فہرست تیار نہیں کی گئی ہے کیوں کہ ایسا عموماً نہیں ہوتا ہے۔
راجا پرویز اشرف جو کہ پیپلز پارٹی کی بیرون ملک ونگ کی نگرانی کررہے ہیں۔ انہوں نے بھی کسی قسم کے اعدادوشمار فراہم نہیں کیے۔ تاہم، ذرائع نے جیو نیوز کو بتایا ہے کہ پیپلزپارٹی کی بیرون ملک مقیم ارکان کی تعداد میں گزشتہ پانچ برس میں کمی واقع ہوئی ہے۔
پیپلزپارٹی کے ایک سینئر رہنما نے اس نمائندے کو بتایا ہے کہ پیپلزپارٹی کے 30 فیصد کے قریب کارکنان پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرچکے ہیں۔ جب کہ پیپلزپارٹی رہنما رحمان ملک کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی بیرون ممالک میں اپنا وقار بحال کرنے کی کوشش کررہی ہے۔
پاکستان کی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں سے پس پردہ ملاقاتوں اور انٹرویوز میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مجموعی طور پر پی ٹی آئی، ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی ممکنہ حمایت 60 لاکھ ووٹرز کے قریب ہے، جس میں پی ٹی آئی کو برتری حاصل ہے۔
تاہم، ان جماعتوں کے ریکارڈ کے مطابق متحرک ارکان کی تعداد پی ٹی آئی کے 5 لاکھ، ن لیگ کے 3 لاکھ اور پیپلزپارٹی کے 120000 ہے۔ اگر مجوزہ ترامیم ہوجاتی ہیں تو یہی تعداد ممکنہ طور پر انتخابات میں حصہ لینے والی ہوسکتی ہے۔