مومنہ حنیف
اس میں دورائے نہیں کہ ذمہ داری کا احساس کرنے والے نوجوان ہی ترقی کی مناز ل عبور کرتے ہیں۔ وہ اپنے کام کو اہمیت دیں، ذمہ داری کے ساتھ اپنے مستقبل کا تعین کرتے ہوئے اپنا کام دیانت داری سے سر انجام دیں، تو مستقبل کے بہترین معمار اور حقیقی قائد بن سکتےہیں۔ یہ بات صرف لفظوں کی حدتک ہی محدود نہیں بلکہ برطانیہ سے لے کر یورپ تک انگریزی تاریخ اور قرطبہ سے لے کر غرناطہ تک کی اسلامی تاریخ اس بات کی گواہ ہے۔
اسپین کے شہر قرطبہ کے نوجوان اپنی تعلیم، تدریس اور فنون لطیفہ میں مشغول رہتے تھے ،مگر جب انہوں نے ستی اور کاہلی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا تو پھر وہ زوال دیکھا کہ پورے اسپین میں قابل نوجوان ملنا محال ہوگئے۔ برطانیہ اور یورپ میں شیکسپئر، ویلیم وڈز ورتھ، ورجنیا ولف، ارسطو، نیوٹن، اسٹیفن ہاکنگ‘ سمیت علم واداب سے وابستہ ہزاروں افراد کا مطالعہ بتاتا ہے کہ نوجوانی میں ان کے ہاتھوں میں کتابیں ہوا کرتی تھیں، یہ کسی فن کی ایک گھاٹی عبور کرتے تھے تو دوسری کے لیے اپنے آپ کو تیار کرلیتے تھے، یہ صبح اپنی ذمہ داری کا کچھ حصہ ادا کرتے تھے تو شام کو پھر چاق چوبند ہوکر اپنے نئے کام کی تلاش میں نکل پڑتے۔
نتیجہ یہ ہوا کہ دنیا کے طول وغرض میں اپنا سکہ جمالیا۔ اس نوجوانوں کی محنت اور احساس ذمہ داری کا وہ کردار ہے، جس نےاپنی قوم کو عروج پر پہنچایا، مگر آج کےنوجوانوں کی اکثریت اپنی ذمہ داریوں سے بے بہرہ ہےاور بے زاری کا شکار نظر آتے ہیں۔ سستی و کاہلی کی عملی تصویر اور احساس ذمہ داری کے فقدان کا چلتا پھرتا نمونہ ہیں۔ ذمہ داریاں پوری کرنا نوجوانوں کی خصوصیت ہے۔
اس کی پرورش طاقتور صفات سے ہوتی ہے، جیسے نظم و ضبط، سماجی، مذہبی اقدار اور باطنی کردار سازی۔ ان کے بغیر کوئی بھی نوجوان خوش بختی کی بلند چوٹیوں پر نہیں پہنچ سکتا۔ ان کو پتا ہونا چاہیے کہ وہ کس ہدف و مقصد کی جانب بڑھ رہے ہیں اور راستے میں کون سی رکاوٹیں آسکتی ہیں۔ حیرت اس بات پر ہے کہ جدید آج کے جدید دور میں ٹیکنالوجی کی سہولیات میسر ہیں، ایسے میں تو نوجوانوں کو مزید اپنے کاموں کو احسن انداز میں سرانجام دینا چاہیے تھا، مگر ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھانا تو کجا، اس کے مثبت استعمال کو بھی منفی رخ دے رہے ہیں۔ سبز باغ دکھانے والوں نے الگ نئی نسل کوخیالی دنیاکا اسیر بنا رکھا ہے۔
وقت ضائع نہ کرنا، توجہ سے بات نہ سننا، کام پر توجہ نہ دینا، اقدار و روایات کی زبوں حالی، حب الوطنی کی پہچان، قومی وقار کے تقاضے ،،اپنے حقوق کا تحفظ ،انسانیت کو درپیش خطرات کے بارے میں حقیقی شعور کا ذمہ دارانہ تجزیہ آج کے نوجوان کے بس سے باہر ہے۔ وہ اپنی غیرذمہ داری کو قسمت کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ محنت اور اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے سے فرار اختیار کرتے ہیں ۔
ایک فی صد بھی نوجوان ایسے نہیں ہیں، جنہیں اپنے مستقبل کو کوئی فکر ہو، نہ ہی ان کا کوئی ویژن ہے اور نہ ہی زندگی کا کوئی لائحہ عمل ہوتا ہے، جس پر چل کر وہ کامیابی سے ہمکنار ہوسکیں۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ نوجوان ملک و ملت کی تعمیر وترقی میں بڑ ھ چڑھ کر حصہ لیں، احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے وقت کو قیمتی بنائیں۔ منفی سوچوں سےنکلیں۔ علامہ اقبال تو نوجوانوں کو احساس ذمہ داری یاد دلاکر ان کے محفوظ مستقبل کی نوید سناتے تھے، شاعر مشرق نے کہا تھا کہ ؎
جوانوں کی میری آہ سحر دے
تو ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے
صرف اقبال ہی نہیں، بانی ٔپاکستان قائداعظم محمد علی جناح جوانوں سے بہت زیادہ پُر امید تھے، انہوں نے ایک موقع پر نوجوان طلباء سے کہا تھا، کہ ’’میں آپ کی طرح جوان نہیں ہوں، لیکن آپ کے جوش و جذبے نے مجھے بھی جواں کر رکھا ہے، آپ کے ساتھ نے مجھے مضبوط بنادیا ہے۔‘ ‘اس قوم کی ترقی کی راہ میں کوئی بھی رکاوٹ حائل نہیں ہو سکتی، جس کے نوجوان محنتی و ذمہ دار ہوں۔ جن قوموں کے نوجوان اس سے عاری ہوں وہ قومیں ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتی ہیں۔
نوجوانو! اپنا مستقبل روشن کرنے کی تگ و دو کریں۔ ذمہ داری کا احساس کریں، اقبال کا شاہین اور قائد کے ارمانوں کی امنگ بنیں، غرناطہ اور قرطبہ کے عظیم نوجوانوں سے سبق سیکھیں۔ احساس ذمہ داری کو سمجھیں۔ وقت کی قدر کریں، ماں باپ اور اساتذہ کے حقوق ادا کریں اپنی تعلیم پر توجہ دیں۔اگر آپ ایساکرنے میں کامیاب ہوگئے تو وہ وہ وقت دور نہیں جب ملک دن دگنی رات چوگنی ترقی کرے گا۔
متوجہ ہوں!
قارئین کرام آپ نے صفحہ ’’نوجوان‘‘ پڑھا آپ کو کیسا لگا؟ ہمیں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔ اگر آپ بھی نوجوانوں سے متعلق موضوعات پر لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں۔ ہم نوک پلک درست کرکے شائع کریں گے۔
ہمارا پتا ہے:
صفحہ ’’نوجوان‘‘ روزنامہ جنگ، میگزین سیکشن،
اخبار منزل،آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔