• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا کی عالمی وباء کے دوران دنیا بھر کےنوجوانوں نے جہاں بہت سے بحرانوں کا مقابلہ کرنا سیکھا، وہیں تعلیم، معاش ، صحت اور کاروبار سے جڑے نئے تصورات بھی لوگوں کے سامنے آئے۔ اس سے پہلے کبھی بھی آفاقی سطح پر اتنی بڑی بیماری کا مقابلہ نہیں کیا تھا ،لہذا بہت سے غیر روایتی تصورات کو بھی دیکھا۔ کم و پیش تمام ہی ممالک میں بچوں کی بہت بڑی تعداد نے اسکول جانے سے گریز کیا۔ کئی ماہ تو اسکول ہی بند کر دیے گئے۔ اس صورتحال میں کچھ نوجوانوں نے تعلیم سے محروم بچوں کو زیور علم سے آراستہ کرنے کے لیے قدم بڑھائے۔ 

ایک ایسے ہی پاکستانی نوجوان زین اشرف مغل ہیں ، جنہوں نے کورونا کے دوران ہزاروں خاندانوں کومعاشی طورپراپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے کام کیا جب کہ مالی پریشانیوں کی وجہ سے تعلیم چھوڑنے والے ہزاروں بچوں کو واپس اسکولوں میں بھیجا ان کے کام کی بدولت اسلامک ڈویلپمنٹ ایوارڈ سے نوازا گیا۔ یہ بین الاقوامی ایوارڈ 57 اسلامی ممالک میں سے پہلی بار پاکستانی نوجوان کو ملا ہے۔ بلاشبہ یہ ا یوارڈ ان کو نئی بلندیوں کو چھونے کا حوصلہ دے گا۔، ان کی فلاحی تنظیم نے 1400 خاندانوں کو بلاسود قرضے دے کر انٹرپرینور بنایا، اور تعلیم چھوڑ جانے والے 4200 بچوں کو اسکول بھجوایا۔

پر عزم، پُر اعتماد کئی ایسے نوجوان عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن کر رہے ہیں اور اسی وجہ سے عالمی سطح پر ان نوجوانوں کو ابھرنے والے نئے لیڈر شمار کیا جارہا ہے۔ دنیا میں نالج بیس اکانومی کے جو تصورات اب رائج ہوتے جارہے ہیں، ان میں سب سے اہم تصور اور نظریہ ، یہ بھی ہے کہ "نوجوان" جو ملک کا اہم ستون ہیں، ملکی سرمایہ کاری کا رخ ان کی طرف موڑ دیا جائے۔ 

صرف پاکستان ہی نہیں دنیا کے بڑے بڑے ادارے نوجوانوں کو اسکالر شپس فراہم کرنے میں آگے آگے ہیں۔ زین اشرف مغل 2018 میں بین الاقوامی کامن ویلتھ کا ایوارڈ بھی اپنے نام کرچکے ہیں اور فوربز سوشل انٹرپرینور انڈر 30 فہرست میں بھی شامل ہیں، صرف یہ ہی نہیں اس کے علاوہ بھی وہ بہت سے ملکی و غیر ملکی اعزازات اپنے نام کر چکے ہیں۔

گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے 29 سالہ زین مغل اشرف نے 2013 میں یونیورسٹی آف میامی سے انٹرپرینیور کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد پاکستان واپس آئے اور یہ ہی وہ وقت تھا کہ جب ان کے اندر یہ احسا س بیدار ہو اکہ نوجوانوں میں موجود محرومیوں کو ہر صورت ختم کرنا ہے۔ غربت کے خاتمے کے مشن کو اپناتے ہوئے’ سیڈ آؤٹ‘ کے نام سے این جی او تشکیل دی تھی جو غربت میں زندگی گزارنے والے افراد کو بلاسود سرمایہ فراہم کرکے اپنا کاروبار شروع کرنے میں مدد کرتی ہے۔ 

وہ اس تنظیم کے تحت ملک سے غربت کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں ، اسی تصور کو انہوں نے عملی جامہ پہنایا ۔ سیڈ آؤٹ( seed out )کے حوالے سے پاکستان میں غربت کے خاتمے کی کوشیشیں کرنے پر بھی ان کو 2017 میں اعلیٰ ایوارڈ سے نوازا گیا۔ زین اشرف مغل جہاں دنیا بھر میں پاکستانی نوجوانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے ملک کا نام روشن کر رہے ہیں ، وہیں وہ برطانوی شہزادے پرنس ولیم کے ساتھ راونڈ ٹیبل میٹنگ میں بھی شرکت کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ایشیاء اور ہارڈیز پاکستان میں اعلیٰ عہدوں پر فائض رہے۔ ان کا نام عالمی شہرت یافتہ فوربز میگزین کی جاری کردہ سالانہ ٹاپ 30 انڈر 30 سوشل انٹرپرینیورز لیڈر شپ کی فہرست میں بھی شامل کیا گیا، وہ ممبر پرائم منسٹر نیشنل یوتھ کونسل بھی ہیں۔

پاکستانی نوجوان طالب علوں کی ایک کثیر تعداد ہے جو اپنے کارناموں کے باعث امریکا کے اقتصادی جریدے فوربز میں شامل رہ چکے ہیں۔ 2020 کی فہرست میں چار پاکستانی نوجوان شامل تھے ،جن میں ایک دانش دھمانی بھی ہیں، جنہوں نے سافٹ ویئر پروگرامنگ پڑھے بغیر تعلیم کی دنیا میں ایک حیرت انگیز ایپ بنائی۔ جس کے ذریعے انسان اپنی گفتگو، بات چیت، پریزنٹیشن کو بہتر بنانے کے لیے آرٹیفیشنل انٹیلی جینس کے ذریعے رہنمائی لے سکتا ہے۔ اسی فہرست میں 29 سالہ ثنا خان نے گیمز کی کیٹگری میں اپنے آپ کو منوایا۔ اس سے قبل 2016، 2018 اور 2019 میں بھی پاکستانی نوجوان اس فہرست میں منتخب ہو چکے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے نوجوانوں کو مزید مواقع فراہم کیے جائیں تا کہ وہ اپنی کامیابیوں کے ساتھ پاکستان کے دیگر نوجوانوں میں عظم و حوصلہ پیدا کریں ۔

متوجہ ہوں!

قارئین کرام آپ نے صفحہ ’’نوجوان‘‘ پڑھا آپ کو کیسا لگا؟ ہمیں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔ اگر آپ بھی نوجوانوں سے متعلق موضوعات پر لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں۔ ہم نوک پلک درست کرکے شائع کریں گے۔

ہمارا پتا ہے:

صفحہ ’’نوجوان‘‘ روزنامہ جنگ، میگزین سیکشن،

اخبار منزل،آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔

تازہ ترین