• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’نیشنل بریسٹ کینسر فاؤنڈیشن‘‘ کے زیرِ اہتمام ہر سال دُنیا بَھر میں اکتوبر کا پورا مہینہ ’’بریسٹ کینسر آگہی‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے، تاکہ ہر سطح تک شعور و آگہی عام کرکے مرض کی بروقت تشخیص ممکن بنائی جاسکے۔دراصل بریسٹ کینسر اگرابتدائی مرحلے میں تشخیص ہوجائے تو علاج کی کام یابی کے امکانات بہت بڑھ جاتے ہیں۔ سو، ذیل میں اِسی مناسبت سے پاکستان کی معروف جنرل سرجن، بریسٹ کینسر اسپیشلسٹ، ڈاکٹر روفینہ سومرو کامعلومات پر مبنی ایک تفصیلی مضمون سوالاً جواباً شایع کیا جارہا ہے۔

س: بریسٹ کینسر دُنیا بَھر خصوصاً ایشیائی مُمالک میں اس قدر عام کیوں ہورہا ہے؟

ج: دُنیا بَھر سمیت ایشیائی مُمالک میں بھی بریسٹ کینسر عام ہونےکی کوئی ایک وجہ نہیں۔ تاہم ،عمومی طور پرکم عُمری ہی میں ماہ واری کا آغاز،طویل عُمر تک ماہ واری کا عمل جاری رہنا، بڑھتی ہوئی عُمر،30سال یا اس سے زائد عُمر میں پہلا حمل ٹھہرنا، نومولود کو اپنا دودھ نہ پلانا،بانچھ پَن ، ہارمون ری پلیسمینٹ تھراپی، مانع حمل ادویہ، موٹاپا، تمباکو نوشی، الکوحل کا استعمال، فاسٹ اور فروزن فوڈز، ناقص، غیر معیاری، ملاوٹ شدہ غذا یا دودھ کا استعمال، ماحولیاتی آلودگی اورفیملی ہسٹری میں بریسٹ کینسر شامل ہونا (مثلاً والدہ، بہن، نانی، دادی،خالہ، پھوپھی وغیرہ اس کا شکار ہوں) وغیرہ محرّکات بن سکتے ہیں۔

آج کل بچّیوں میں کم عُمری میں ماہ واری کی شرح بڑھ رہی ہے، جس کا مطلب ہے کہ ان کے ہارمونز وقت سے پہلے ایکٹی ویٹ ہو رہے ہیں۔ تو ایک رائے یہ بھی ہے کہ مرغیوں کی تیز نشوونما اور بھینسوں سے وافر مقدار میں دودھ حاصل کرنے کے لیے جو مخصوص ہارمونز، فیڈ یا انجیکشن کے ذریعے انہیں دئیے جاتے ہیں، تو یہ بھی بچّیوں میں وقت سے قبل ماہ واری کی وجہ ثابت ہورہے ہیں۔ اس کے علاوہ اب ہمارا رہن سہن مغربی مُمالک جیسا ہوتا جارہا ہے، تو ایشیائی مُمالک میں اس مرض کے پھیلاؤ کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔

س: ’’نیشنل بریسٹ کینسر فائونڈیشن‘‘ کے زیرِ اہتمام ایک تھیم منتخب کرکے اکتوبر کا پورا مہینہ ’’بریسٹ کینسر آگہی ماہ‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے،امسال کا تھیم،"Give Hope Save Lives" ہے،تو اس تھیم کے انتخاب کی وجہ؟

ج: دراصل رواں برس کا تھیم بریسٹ کینسر سے متاثرہ خواتین میں اُمید کی جوت جگانے کے لیے منتخب کیا گیا ہے کہ عموماً بریسٹ کینسر کی تشخیص کے بعد خواتین شدید نفسیاتی دبائو کا شکار ہو کر علاج سے پہلے ہی ہمّت ہار بیٹھتی ہیں۔ایسے میں ہم اُنہیں یہ اُمید دلارہے ہیں کہ یہ مرض قابلِ علاج ہے اور وہ بعداز علاج ایک بَھرپور زندگی گزار سکتی ہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ بریسٹ کینسرتب ہی قابلِ علاج ہے، جب بروقت تشخیص بھی ہو۔ چوں کہ بیرونِ مُمالک میں ابتدائی مرحلے ہی میں بریسٹ کینسر تشخیص کرلیاجاتا ہے، تو وہاں صحت یابی کا تناسب بھی زیادہ ہے۔

مغربی مُمالک میں ایسی بے شمار خواتین موجود ہیں، جو بریسٹ کینسر کے علاج کے بعد 10، 15سال سے ایک بَھر پور زندگی بسر کررہی ہیں، لہٰذا اگر آپ کے خاندان یا ملنے جلنے والوں میں بریسٹ کینسر سے متاثرہ کوئی خاتون موجود ہے، تو خدارا اُسے زندہ رہنے کی اُمید دلا کراس کی جان بچائیں۔اُس کے اندر مرض کو شکست دینے کی لگن پیدا کریں، تاکہ وہ زندگی سے نااُمید نہ ہو۔

س: پاکستان میں اس مرض کے پھیلائو کی کیا شرح ہے، نیز، کیا ہر سال بریسٹ کینسر آگہی ماہ منانے کے نتیجے میں مرض کی شرح میں کچھ کمی واقع ہورہی ہے؟

ج: پاکستان میں ہر آٹھ میں سے ایک خاتون میں بریسٹ کینسر لاحق ہونے کا امکان پایا جاتا ہے، جب کہ اوئیرنیس منتھ کا مقصد شرح میں کمی لانے سے زیادہ آگہی عام کرکے مرض کو ابتدائی مرحلے میں تشخیص کرنا ہے، تاکہ بروقت اور مکمل علاج ممکن ہوسکے۔

س:بریسٹ کینسر میں موروثیت کا کس حد تک عمل دخل ہے اور کیا مینوپاز بھی مرض کی وجہ بن سکتا ہے؟

ج: بریسٹ کینسر لاحق ہونے کی ایک وجہ موروثیت ہے۔ لیکن اگر والدین میں سے کسی ایک کے مخصوص جین BRCA (یعنی Brca1 اور Brca2)میں گڑبڑ بھی ہوجائے توبھی فیملی میں بریسٹ کینسر کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔جن خاندانوں کی ہسٹری میں بریسٹ کینسر پایا جاتا ہے،اُن کا شمار ہائی رسک فیملیز میں کیا جاتا ہے۔ بیرونِ مُمالک میں زیادہ ترہائی رسک خواتین بریسٹ کی سرجری کروا لیتی ہیں، تاکہ سرطان سے محفوظ رہ سکیں۔ مینو پاز ایک فطری عمل ہے ،لیکن اگر ایک خاص عمر کے بعد ماہ واری بند نہ ہو تو اس صُورت میں مرض لاحق ہونے کےامکانات بڑھ جاتے ہیں۔

س: بریسٹ کینسر کی کتنی اقسام ہیں اور ان میں سے کون سی شدید، درمیانے درجے کی یا معمولی نوعیت کی ہے؟

ج: بریسٹ کینسر کی کئی اقسام ہیں، جن میں سے بعض کی نوعیت شدید، تو بعض درمیانے درجے کی یا معمولی نوعیت کی ہیں۔ سب سے عام قسم Ductal ہے۔ اگر یہ بروقت تشخیص ہوجائے ،تو علاج ممکن ہے، بصورتِ دیگر جسم کے دیگر حصّوں تک پھیل کر شدید نوعیت اختیار کرلیتی ہے۔ دیگر اقسام میں Tubular ، Mucinous وغیرہ شامل ہیں، جو جسم میں زیادہ نہیں پھیلتیں۔

بریسٹ کینسر کی ان تمام اقسام کی تشخیص بائیو آپسی ہی کے ذریعے کی جاتی ہے۔ایسی خواتین،جن کی بائیو آپسی رپورٹ میں "Her2"پازیٹیو آئے، تواس سے دفاع کے لیے شعبۂ طب میں اب مؤثر ادویہ موجود ہیں۔ اگر بریسٹ کینسر میں ای آر (ER) اور پی آر (PR)پازیٹیو ہوں، تو علاج کے اچھے نتائج ظاہر ہوتے ہیں، لیکن نیگیٹو ہونے کی صُورت میں کئی مسائل یا پیچیدگیاں جنم لے سکتی ہیں۔ اِسی طرح جن خواتین میں ای آر، پی آر اور Her2 تینوں ہی نیگٹیو ہوں، تو یہ شدید ترین نوعیت تصوّر کی جاتی ہے۔

س: مرض کی تشخیص کے لیے سب سے موثر طریقۂ کار کون سا ہے، میموگرام ٹیسٹ کن خواتین کو اور کس عُمر میں کروانا چاہیے؟

ج: مرض کی تشخیص کے لیےپہلا طریقہ خود اپنا معائنہ کرنا ہے ،جس میں بریسٹ کے سائز اور شیپ میں فرق ، گلٹی ،نِپل یا کھال کا اندر کی طرف دھنس جانا وغیرہ جانچا جاسکتا ہے۔ دوسرا طریقہ معالج سے معائنہ کروانا ہے۔ تیسرا طریقہ الٹرا سائونڈ اور میمو گرام ہے۔ واضح رہے، اگر مریضہ کی عُمر 35 سال سے کم ہو تو الٹرا ساؤنڈ، جب کہ اس سے زائد عُمر کی خواتین کے لیے میموگرافی تجویز کی جاتی ہے۔

میمو گرافی اس لیے بھی اسکریننگ کا مؤثر طریقۂ کار تسلیم کیا گیاہے کہ اس کے ذریعے ہاتھ سے محسوس کی جانے والی گلٹی کی بھی تقریباً دو برس قبل تشخیص ہوجاتی ہے۔ حتمی تشخیص کے لیے بائیو آپسی کی جاتی ہے، تاکہ یہ پتا چل سکے کہ گلٹی سرطان زدہ ہے بھی یا نہیں، اگر کینسر ہے، تو اس کی قسم کون سی ہے،نوعیت کیا ہے۔ اس کے علاوہ بائیو آپسی ہی کی رپورٹ کے ذریعےPR،ER اورHER2 وغیرہ کا بھی پتا چلتا ہے اور ان ہی معلومات کی بنیاد پر اونکولوجسٹ ٹیم بہترین ٹریٹ منٹ پلان بناتی ہے۔

س: اس وقت علاج کے کون کون سے جدید طریقے رائج ہیں اور سب سے مستند طریقۂ علاج کون سا ہے؟

ج: بریسٹ کینسر کا علاج اس کی قسم اور مراحل کے مطابق کیا جاتا ہے۔مرض کے پہلے اور دوسرے مرحلے میں سرطان بریسٹ یا پھر قریبی غدود تک محدود ہوتا ہے، جب کہ تیسرے اور چوتھے مرحلے میں جسم کے دیگر اعضا تک پھیل جاتا ہے ۔ بریسٹ کینسر کے علاج کے ضمن میں سرجری، کیموتھراپی، جین ٹارگٹ تھراپی اورریڈی ایشن تھراپی مستعمل ہیں۔ بعض کیسز میں سرجری کے ذریعے صرف ٹیومر نکالا جاتا ہے، تو بعض اوقات پوری بریسٹ ہی ریموو کرنی پڑتی ہے۔ کیموتھراپی میں مخصوص طاقت ور انجیکشنز ڈرپ میں شامل کرکے لگائے جاتے ہیں۔ اس علاج کا دورانیہ عموماً 5سے 6ماہ پر مشتمل ہوتا ہے۔

اگرچہ کیموتھراپی کے ضمنی اثرات بھی مرتّب ہوتے ہیں، لیکن یہ وقتی ہوتے ہیں۔ ایک طریقۂ علاج ریڈی ایشن کہلاتا ہے، جو شعاؤں کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ریڈی ایشن کا فیصلہ بائیوآپسی کی رپورٹ پر کیا جاتا ہے۔ بعض کیسز میں ہارمونل دوا تجویز کی جاتی ہے، جو تقریباً دس سال تک باقاعدگی سے استعمال کرنی پڑتی ہے، تاکہ طویل عرصے تک مرض پر قابو رہے۔ بعض کیسز میں ٹارگٹ یا جین تھراپی کی جاتی ہے۔

چوں کہ اس مرض میں قوتِ مدافعت کم زور پڑ جاتی ہے، تواس کے لیے بھی کئی مؤثر ادویہ دستیاب ہیں۔ مجموعی طور پرماضی کی نسبت اب ایسی جدید ادویہ متعارف کروائی گئی ہیں ،جن کے استعمال سے بریسٹ کینسر قابلِ علاج مرض بن چُکا ہے، بلکہ شدید نوعیت ہونے کی صُورت میں مرض کنٹرول میں بھی رہتا ہے۔

س: پاکستان نے بریسٹ کینسر کے علاج کے ضمن میں کس حد تک ترقّی کی ہے؟

ج: ہمارے پاس بریسٹ کینسر کے علاج کے جدید طریقے دستیاب ہیں، لیکن یہ خاصے منہگے ہیں، جن کے اخراجات متموّل افراد ہی برداشت کرسکتے ہیں۔ تاہم، یہ اچھی بات ہے کہ بعض کمپنیز اپنی جانب سے نادار مریضوں کو علاج کی مکمل سہولتیں فراہم کررہی ہیں۔

بعض اوقات مریض علاج کے ایک کورس کے لیے خود ادویہ خریدتا ہے، تو دوسرے کورس کی سہولت کمپنی مفت فراہم کردیتی ہے۔ اس کے علاوہ سرکاری طور پر بیت المال کے ذریعے بھی منہگی ادویہ دسترس میں ہیں، تو بعض فلاحی ادارے اور مخیّر افراد بھی ہر ممکن مدد کررہے ہیں، لیکن ہر مریض تک رسائی مشکل امر ہے،البتہ مجموعی طور پر متعدّد مریض علاج کی جدید سہولتوں سے مستقید ہو رہے ہیں۔

س: اگر دورانِ حمل بریسٹ کینسر تشخیص ہوجائے، تو علاج کا کیا طریقۂ کار ہوگا؟

ج: دورانِ حمل چوں کہ قدرتی طور پر بریسٹ میں تبدیلیاں واقع ہورہی ہوتی ہیں، تو مرض تاخیر سے تشخیص ہوتاہے،لہٰذا اگر حاملہ حمل کے دوران کوئی غیر معمولی تبدیلی محسوس کرے، تو فوری طور پرگائناکولوجسٹ کو مطلع کیا جائے۔ بعض کیسز میں دورانِ حمل سرجری اور مخصوص ادویہ کے ذریعے کیموتھراپی بھی کی جاتی ہے، لیکن ریڈی ایشن نہیں کرتے۔ ہاں، بعد از زچگی شعاؤں کے ذریعے علاج کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ 

دورانِ حمل بریسٹ کینسرجس مہینے اور مرحلے پر تشخیص ہوتا ہے، اُس کی مناسبت سے طریقۂ علاج اختیارکیا جاتا ہے۔جیسا کہ مَیں نے خود ایک کیس ڈیل کیا، جس میں حاملہ میں بریسٹ کینسر تشخیص ہوا، تو اس کے یہاں جڑواں بچّوں کی پیدایش متوقع تھی۔ دورانِ حمل کیمو تھراپی کے ذریعے علاج کیا گیا اور الحمد اللہ اُس کی زچگی اپنے وقت پر ہوئی اور کسی قسم کی کوئی پیچیدگی بھی نہیں ہوئی۔ماں اور جڑواں بچّے ہر اعتبار سے صحت مند ہیں اور اس بات کو اب دو برس کا عرصہ گزر چُکا ہے۔

س: عُمر کے کس حصّے میں بریسٹ کینسر کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے؟

ج: ویسے تو 20سال کی عُمر کے بعد کبھی بھی بریسٹ کینسراپنا شکار بناسکتا ہے، لیکن مختلف تجربات کی روشنی میں بیرونِ مُمالک میں50 سے60 سال کے درمیان، جب کہ پاکستان میں40سے50سال میں بریسٹ کینسر کا زیادہ امکان پایا جاتا ہے۔ یعنی مغربی مُمالک کی نسبت ہمارے یہاں اوسطاً 10سال قبل خواتین میں یہ مرض تشخیص ہو رہا ہے۔

س: اگر بریسٹ کینسر کی مریضہ کووِڈ کا بھی شکار ہوجائے، تواس صُورت میں علاج کا کیا طریقۂ کار اپنایا جاتا ہے؟

ج: اگر مریضہ کی سرجری تجویز کی گئی ہے اور وہ کووِڈ کا شکار ہوجاتی ہے، تواس صُورت میں کورونا وائرس کی رپورٹ نیگیٹو آنے تک سرجری ملتوی کر دی جاتی ہے۔ عموماً15 دِن میں رپورٹ نیگیٹو آجاتی ہے اور اس عرصے میں مرض پیچیدہ نہیں ہوتا ، لیکن کیمو تھراپی کے کورس کے دوران کورونا وائرس خطرناک ثابت ہوسکتا ہے کہ کیمو کی وجہ سے پہلے ہی قوّتِ مدافعت کم زور پڑجاتی ہے، لہٰذا کیموتھراپی روک کر مریضہ کی بَھرپور دیکھ بھال کی جاتی ہے،جب تک کہ وہ کووِڈ سے صحت یاب نہ ہوجائے۔

بعد ازاں، جب حالت اس قابل ہوجائے کہ کیمو تھراپی برداشت کی جاسکے، تو پھردوبارہ شروع کردی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کیمو تھراپی کروانے والے مریضوں کوخاص طور پر ایس او پیز پر عمل کی سختی سے ہدایت کی جاتی ہے۔

س: ایک بار سرجری کے بعد بھی دوبارہ مرض لاحق ہونے کے خطرات ہوتے ہیں، اگر ہاں، تو وجوہ کیا ہیں؟

ج: یہ وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ علاج کے بعد مرض پلٹنے کے امکانات سِرے سے ختم ہوجاتے ہیں۔ تاہم، اگر مرض ابتدائی مرحلے میں تشخیص ہو اور علاج کا دورانیہ بھی مکمل کرلیا جائے تو دوبارہ مرض ہونے کے امکانات کم سے کم ہوجاتے ہیں، لیکن اگر مرض آخری مرحلے میں تشخیص ہو اور اسی مناسبت سے علاج بھی کروایا جائے، تو اس صُورت میں مرض لوٹ آنے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر علاج میں کوئی کوتاہی برتی جائے تو بھی مرض ریورس ہوسکتا ہے یا اگر ایک طرف سے کینسر کا علاج ہو چُکا ہو، تو دوسری طرف سے متاثر ہونے کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔

س: کیا پاکستان میں ہر سطح تک علاج معالجے کی سہولتیں دستیاب ہیں؟

ج: جی بالکل دستیاب ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جدید سہولتوں سے لیس یہ سینٹرز نہ صرف بڑے شہروں میں واقع ہیں، بلکہ تعداد میں بھی کم ہیں، جب کہ مریضوں کی تعداد کی نسبت تربیت یافتہ سرجنز، اونکولوجسٹس اور ریڈیالوجسٹس کی بھی خاصی کمی ہے۔ 

پھر میمو گرام کی سہولت بھی صرف بڑے شہروں ہی تک محدود ہے۔ ریڈی ایشن کی مشینیں اس قدر کم ہیں کہ مریضوں کو اپنی باری آنے کا مہینوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ترجیحی بنیادوں پر مُلک بَھر کے تمام چھوٹے بڑے شہروں کے سرکاری اسپتالوں میں سرطان کے علاج معالجے کی جدید سہولتیں فراہم کرے کہ آج سرطان کا علاج بے حد منہگا ہو چُکا ہے۔

س: کس طرح کی احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں کہ مرض سے محفوظ رہا جاسکے اور اگر خدانخواستہ کوئی خاتون اس عارضے کا شکار ہو ہی جائے، تو پیچیدگیوں سے بچاؤ ممکن ہوسکے؟

ج: ہر سطح تک بریسٹ کینسر سے متعلق شعور و آگاہی فراہم کی جائے۔ خواتین ہر ماہ اپنا معائنہ خود کریں اور اگر معمول سے ہٹ کر کوئی علامت محسوس کریں، تو فوری طور پر معالج سے رابطہ کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کی جائے۔ جنرل فزیشنز پر بھی یہ ذمّے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ خود سے گلٹی کو بے ضرر تصوّر کرکے اینٹی بائیوٹیکس تجویز نہ کریں۔ بہتر تو یہی ہے کہ کیس انکولوجسٹ کے پاس ریفر کردیا جائے۔ مرض تشخیص ہونے کی صُورت میں خوف زدہ نہ ہوں، بلکہ معالج سے بَھرپور تعاون کریں ۔ دیکھا گیا ہے کہ اکثر خواتین ڈرتی ہیں کہ اگر سرطان تشخیص ہوگیا، تو پھر کیا ہوگا۔ تو خدارا ڈر ڈر کر اپنا مرض لاعلاج نہ ہونے دیں۔ 

جن خواتین کی فیملی ہسٹری میں بریسٹ کینسرشامل ہو، وہ جینیٹک اسکریننگ ضرور کروائیں۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو ہر مہینے خود معائنہ کریں اور معالج سے سالانہ معائنہ کروائیں۔ جب عُمر40سال ہوجائے، تو ہر دوسال بعد میمو گرام ضرور کروائیں۔ نومولود کو مقررہ مدّت تک لازماً اپنا دودھ پلائیں، وزن، خصوصاً مینو پاز کے بعد نہ بڑھنے دیں، ایکسٹرنل ہارمونز استعمال نہ کریں۔ چہل قدمی کو معمول کا حصّہ بنالیں۔ متوازن غذا خاص طور پر تازہ پھل اور سبزیاں زیادہ سے زیادہ استعمال کریں۔

بعض خواتین مینوپاز سے قبل جب Hot Flashes کا شکار ہوجاتی ہیں، تو ان میں سے اکثریت ہارمونز کی ادویہ طویل عرصے تک استعمال کرتی ہیں، لہٰذا بہتر ہوگا کہ یہ ادویہ معالج کے مشورے سے ایک خاص مدّت تک ہی استعمال کریں۔ (مضمون نگار،پروفیسر آف سرجری، لیاقت نیشنل اسپتال اینڈ میڈیکل کالج، کراچی کے شعبہ جنرل سرجری کی سربراہ ہیں اور طویل عرصے سے بطور کنسلٹنٹ، بریسٹ سرجن فرائض سر انجام دے رہی ہیں)

تازہ ترین