• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک پروفیسر صاحب نےکلاس کے اختتام پر طالب علموں سے کہا،’’کل ہر ایک طالب علم پلاسٹک کا ایک شفاف تھیلا اور ٹماٹر ساتھ لائے۔

اگلے دن جب طلباء تھیلا اور ٹماٹر لے کر آئے،تو پرو فیسر نے کہا،’’ اب ہر طالب علم اس فرد کے نام پرجسے آپ نے کبھی معاف نہیں کیا، ایک ایک ٹماٹر چن لے، اور اس ٹماٹر پراس فرد کا نام اور تاریخ لکھ کر اسے اپنے پلاسٹک کے تھیلے میں ڈال دے۔‘‘

سب طلباء نے ایسا ہی کیا۔ پروفیسر صاحب نےکلاس پر نظر ڈالی،تو دیکھا، بعض طالب علموں کے تھیلے خاصے بھاری ہوگئے ہیں۔ چند لمحوں بعد پروفیسر صاحب نےطالب علموں سے کہا،’’یہ آپ کا ہوم ورک ہے،آپ ان تھیلوں کو اپنے ساتھ رکھیں، رات کو سوتے وقت بھی اسے اپنے بیڈ کے سرہانے رکھیں، جب کام کر رہے ہوںتو اسے اپنی میز کے برابر میں رکھیں۔ دو دن آپ کی چھٹی ہے، اس کے بعد جب کالج آئیں تو ان تھیلوں کو ساتھ لے کر آئیں گےاور بتائیں گے کہ آپ نے کیا سبق سیکھا۔‘‘

دو دن بعد، جب سب طالب علم کالج آئے،تو اُن کے چہرے پر پریشانی کے آثار نمایاں تھے۔ پروفیسر کے کچھ پوچھنے سے قبل سب طلباء نے یک زباں ہوکر کہا،’’ سر ایک دن بعد ہی تھیلے کو ساتھ ساتھ گھسیٹتے پھرنا ایک آزار ہوگیا تھا۔ قدرتی طور پر ایک دن بعد ہی ٹماٹر پلپلے اور بدبودار ہوگئے تھے۔ تعفن نے مزید پریشان کر دیا تھا‘‘۔

پروفیسر صاحب نےمسکراتے ہوئے کہا، "اس ایکسرسائز سےآپ نے کیا سبق سیکھا‘‘؟

سب طلباء خاموش رہے، تو پروفیسر صاحب نے کہا،’’ اس ایکسر سائز سے یہ واضح ہوا کہ ہم اپنے آپ پرکتنا غیر ضروری وزن لادے پھر رہے ہیںاور ہم اپنی تکلیف اور اپنی منفی سوچ کی کیا قیمت چکا رہے ہیں؟ ہم اکثر یہ سوچتے ہیں کہ کسی کو معاف کردینا، کسی پر احسان کرنا،اس شخص کے لیے اچھا ہے،لیکن درحقیقت دوسرے کو معاف کرکے ہم خود اپنے لیے لاتعداد فوائد حاصل کرتے ہیں۔ جب تک ہم کسی سے ناراض رہتے ہیں، اس کے خلاف بدلہ لینے کے لیے سوچتے ہیں، اس وقت تک ہم کسی اور کا نہیں بلکہ خود اپنا خون جلاتے ہیں۔اپنے آپ کو اذیت اور مشقت میں مبتلا رکھتے ہیں۔

یاد رکھیں بدلے اور انتقام کی سوچ، گلے سڑے ٹماٹروں کی طرح ہمارے باطن میں بدبو پھیلانے لگتی ہے۔ معاف نہ کرنا ایک بوجھ بن کرہمارے اعصاب کو تھکا دیتا ہے۔ اس لئےسوچیے اور دوسروں کو معاف کرنے کی عادت اپنائیے۔‘‘

آج کل کے نوجوان کچھ زیادہ طیش میں آجاتے ہیں اور وہ کچھ کر بیٹھتے ہیں جو نہیں کرنا چاہیے، پھر دل میں بات رکھ کر ساتھی سے بات کرنا چھوڑ دیتے ہیں، ایسا کر کے خود اپنے پر ظلم کرتے ہیں۔ اس لیے بات کو جتنا جلد ختم کردیں گے اُتنا ہی بہتر ہوگا اور یہ سب اُسی وقت ممکن ہو گا جب آب سوچیں گے کہ ہم سے بھی غلطیاں ہو سکتی ہیں۔ دوسرے ہمیں معاف کر سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں۔

پرو فیسر صاحب نے کلاس پر اُچٹتی سی نظر ڈالی۔ طلباء کے چہروں پر پشیمانی صاف نظر آرہی تھی۔ نگاہیں جھکی ہوئی تھیں۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا،’’اچھا آج کے لیے اتنا ہی سبق کافی ہے۔ میری بھی کسی بات سے ، کسی جملے سے آپ کو تکلیف پہنچی ہو تو مجھے بھی معاف کر دینا۔‘‘

یہ سن کر تمام طلباء کھڑے ہوگئےاور نہایت ادب سے کہا،’’سر آپ نے ہمیں جینے کا ایک نیا سبق پڑھایا ہے یہ ہمارے ذہنوں پر نقش ہو گیا ہے۔ ‘‘

پروفیسر مسکراتے ہوئےکلاس روم سے یہ کہتے ہوئے گئے کہ ’’ میرے بچوں تم نے میرا دل خوش کردیا ہے۔ (ایک طالب علم)

تازہ ترین