پرندوں کی آوازیں وادی مہران کا ملکوتی حسن ہے،فضا میں اڑتے ہوئے پرندے اس کی خوب صورتی اور دل کشی میں اضافہ کرتے ہیں ۔ یہاں ہر سال دنیا بھر سے مہمان پرندے بڑی تعداد میں آتے ہیں، لیکن مقامی پرندے بھی ان کے مقابلے میں کسی طور بھی کم نہیں ہیں۔سندھکا کالا سندھی تیتر خوبصورتی اور آواز کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہے۔کہا جاتا ہے کہ دنیا کی ہر شے شجر و حجر، چرند پرند اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرتے ہیں ۔
بہت سے پرندوں کو تو یہ انفرادیت حاصل ہے کہ وہ جب بولتے ہیں تو ان کی آواز سن کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ اللہ کی بڑائی بیان کررہے ہوں۔ اسی قسم کی خوبیاں کالے تیتر میں بھی پائی جاتی ہیں۔ سندھ میں پایا جانے والا کالا تیتر جسے ’’سندھی تیتر‘‘ بھی کہتے ہیں، خطے کا قدیم پرندہ ہے۔اس کا وزن 200 سے 400 گرام ہوتا ہے، لیکن جب یہ مختصرالوجود پرندہ بولتا ہے تو اس کی آواز، کئی سو میٹر تک سنائی دیتی ہے۔
اس کی قدامت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ تقریباً ڈیڑھ سو سال قبل 1874ء میں ایک انگریز فوجی افسر ’’رچرڈ فرانسس برٹن‘‘ نے سندھ میں اپنی تعیناتی کے دوران کراچی سے شکارپور تک کے علاقوں کا سروے کیا۔ اس نے اپنی کتاب میں لکھا کہ ’’سندھ کے ہر علاقے میں کالے تیتر کی بہتات ہے۔صبح اور شام کے وقت اس پرندے کی آوازیں ماحول کو سحر انگیز بناتی ہیں۔ اگرچہ شکاریوں کی وجہ سے بہت سے پرندے نایاب ہوتے جارہے ہیں لیکن اس کی سحر انگیز آواز آج بھی سنائی دیتی ہے۔
سندھ کے باشندوں کو زمانہ قدیم سے ہی مختلف جانوروں کے ساتھ پرندے پالنے کا بھی شوق تھا۔چند عشرے قبل تک گھروں کی چھتوں پر نایاب نسل کےپرندوں اور کبوتروں کے پنجرے بنے ہوئے تھے۔ لوگ گھرکے صحنوں میں طوطے اور مرغیاں بھی پالتے تھے۔اندرون سندھ کے باسیوں میں یہ رجحان آج بھی پایا جاتا ہے بلکہ پہلے سے زیادہ اس میں اضافہ دیکھا جارہا ہے۔سرد ممالک سے ہجرت کرکے آنے والے پرندے اگر شکاریوں کے ہاتھوں سے بچ جائیں تو لوگ انہیں پکڑ کر گھروں میں پالتے ہیں۔
گزرے زمانے میں زیادہ تر گھروں میں جنگلی یا پہاڑی طوطے ہوتے تھے، جنہیں ’’مٹھو بیٹا‘‘ کہہ کر پکارتےتھے۔لوگ انہیں انسانوں کی بولیاں سکھاتے تھے اور ان سے باتیں کرکے خوش ہوتے تھے۔لیکن آج پہاڑی یا جنگلی طوطوں کے ساتھ دیہی و شہری علاقوں کے گھروں میں مختلف اقسام کے جمائیکن اور آسٹریلین طوطے اور لوو برڈز بڑے بڑے پنجروں میں اڑتے ہوئے ملیں گے۔ لوگ ان کی افزائش نسل کرکے انہیں ذریعہ معاش کے طور پر بھی استعمال کرتے ہیں۔ کراچی سمیت سندھ کے شہری علاقوں کے بازاروں میں ان کی خریدوفروخت عام ہے۔
سندھ و پنجاب کے زیادہ تر گھروں میں مرغیاں اور بطخیں پالنے کا رجحان عام تھا۔ لیکن اب دیسی کی جگہ فارمی مرغیوں نے لے لی ہے جب کہ پولٹری فارمز کی تعداد بڑھنے کے بعد گھروں میں صحن کے خاتمے کے بعد مرغیاں اور بطخیں پالنے کا رجحان کم ہوگیا ہے کیوں کہ پولٹری فارمنگ باقاعدہ ملک کی اہم صنعت کا درجہ اختیار کرچکی ہے اور لوگ دیسی کی بجائے فارمی مرغیوں کے گوشت اور انڈوں کی خریداری کرنے پر مجبور ہیں۔ دیہی علاقوں کے گھروں اور جھونپڑوں میں لوگ آج بھی مرغیوں سمیت مختلف پرندے پالتے ہیں، ان کا گوشت اور انڈے بازار میں فروخت کرتے ہیں لیکن فارمی مرغی اور اس کے انڈے دیسی مرغیوں کی بہ نسبت سستے ہوتے ہیں۔
پرندے پالنے کے شوق نے اب کاروبار کی صورت اختیار کرلی ہے۔ پہلے لوگ گھروں میں تفریح طبع کے لیے مختلف اقسام کے پرندے پالتے تھے، آج پرندوں کی افزائش نسل کر کے انہیں فروخت کیا جاتا ہے۔ سندھ میں ہزاروں افراد اس کاروبار سے وابستہ ہیں جو دن میں چند گھنٹے پرندوں کی دیکھ بھال سے معقول اضافی آمدنی حاصل کررہے ہیں۔بڑے شہروں میں پرندوں کی نا صرف مارکٹیں اور دکانیں قائم ہیں بلکہ جمعہ اور اتوار بازار بھی لگائے جائے ہیں۔ سکھر میں گھنٹہ گھر چوک اور طارق روڈ پر پرندوں کی خرید و فروخت کی جاتی ہے۔
پاکستان کا قومی پرندہ چکور کو کہا جاتا ہے لیکن ملک کے تمام صوبوں میں تیتر کو اہمیت حاصل ہے۔سندھ کا نایاب کالا تیتر ملک کے دیگر صوبوں کے مقابلے میں زیادہ اہمیت اور قدر و قیمت رکھتا ہے اسی لئے اسے’’برڈ آف سندھ‘‘ کا لقب دیا گیا ہے۔ سندھ میں پیدا ہونے والے کالے تیتر کو ’’سندھی تیتر‘‘ بھی کہتے ہیں عام طور پر کالا تیتر جنگلات ، کھیتوں اور باغات میں رہتا ہے۔ آج اس کا انتہائی بے دردی سے شکار کیا جاتا ہے ۔
لوگ اس سے تیار کیے ہوئے پکوان انتہائی ذوق و شوق سے کھاتے ہیں ۔دعوتوں میں بڑے فخریہ انداز میںاس کی ڈش یہ کہہ کر پیش کی جاتی ہے ’’یہ کھائیے کالا تیتر بنایا ہے‘‘۔ اس کا گوشت بہت طاقتور اور لذیذہوتا ہے۔ تیتر کا گوشت کھاکر مہمان اور میزبان دونوں ہی خوش دکھائی دیتے ہیں خاص طور پر اکثر مہمان دعوت کے بعد دوستوں میں تیتر کے کھانے کا فخریہ انداز میں تذکرہ کرتے ہیں۔
یوں تو کالا تیتر دنیا کے مختلف ممالک میں بھی پایا جاتا ہے لیکن سندھ کے کالے تیتر کو ملک کے دیگر صوبوں اور شہروں کی بہ نسبت خاص اہمیت حاصل ہے ۔سندھ میں نایاب نسل کے کالے تیتر پائے جاتے ہیں،جو ضلع خیرپور کی تین تحصیلوں نارا، رانی پور، ٹھری میرواہ میں ہوتے ہیں۔ عام طور پر کالے تیتر کا وزن 200 سے 400 سو گرام اور سائز 10 سے 14 انچ تک ہوتا ہے، پیدائش کی وقت ان کا وزن 12 سے 15 گرام ہوتا ہے۔ اس کی مادہ سال میں تین مرتبہ انڈے دیتی ہے۔ اس کی چونچ موٹی ہوتی ہے، آسمانی رنگ کی ٹانگیں اور پتلی اورگہری کتھئی رنگ کی ہوتی ہیں۔ نر کے پر چمکدار اور کالے ہوتے ہیں جب کہ اس کی چونچ بھی سیاہ ہوتی ہے۔
مادہ سرخی مائل بھوری ہوتی ہے،اس کا دہانہ سفیدی مائل ہوتا ہے اور پیٹ اور چونچ گہرے کتھئی رنگ کے ہوتے ہیں۔ نر کے مقابلے میں مادہ کی جسامت چھوٹی ہوتی ہے۔ پالتو پرندے کے طور پر کالا تیتر شوق سے پالا جاتا ہے ۔یہ بہت خوبصورت پرندہ ہے جب یہ اپنی دیکھ بھال اور ہر وقت خیال رکھنے والے شخص سے مانوس ہو جاتا ہے تو اپنے مالک سے باتیں بھی کرتا ہے۔ تیتر مخصوص آواز نکالتا ہے، جو سیٹی سے مماثلت رکھتی ہے۔ اس کا رکھوالا بھی اس سے ملتی جلتی آوازیں نکلتا ہے ، کچھ ہی عرصے میں تیتر اور اس کا مالک ایک دوسرے کی آوازوںسے مانوس ہوجاتے ہیں۔اسےگھروں میں رکھنے کے لئے مخصوص قسم کا گول پنجرا بنوایا جاتا ہے۔
شوقین حضرات تو اس کی رہائش کے لیے خوب صورت اور آرام دہ پنجرے تیار کرانے کی کوشش کرتے ہیں جن کے چاروں اطراف رنگین موتیوں کی لڑیاں لگی ہوتی ہے اور اس کی بناوٹ میں اسٹیل کا استعمال کیا جاتا ہے۔ پنجرے کا کڑا پیتل کا ہوتا ہے جس پر سونےکا پانی پھروایاجاتا ہے اور اس کی قیمت ہزاروں روپے میں ہوتی ہے۔تیتر کو پنجرے میں بند کرکےاونچی جگہ پر لٹکایا جاتا ہے یا اسے کپڑے سے ڈھانپ دیا جاتا ہے تاکہ تیتر کی نظر بلی پر نہ پڑے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اگر کالا تیتر بلی کو دیکھ لے تو اتنا خوفزدہ ہوجاتا ہے کہ کئی روز تک اس کی آواز نہیں نکلتی۔
شوقین حضرات اس کی آرام و آسائش کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ پنجرے کے فرش پرکپڑے کی گدی بچھائی جاتی ہے،جسے روزانہ صبح صاف یا تبدیل کیا جاتا ہے۔ کچھ لوگ ہر روز نئی گدی کا استعمال کرتے ہیں تو کچھ استعمال شدہ گدی کو دھو کر دوبارہ استعمال میں لاتے ہیں، جبکہ پنجرے کے اندر ایک یا دو پیالیاں بھی رکھی جاتی ہیں۔بعض پنجروں میں مٹی سے بنی اشیا اور مٹی کا ڈھیر رکھا جاتا ہے کیونکہ یہ پرندہ ریت میں بہت خوش ہوتا ہے۔ چوہدری محمد رمضان گوندل جنہیں تیتر پالنے کا شوق ہے، ان کا کہنا ہے کہ کالے تیتر کو بچوں کی طرح پالا جاتا ہے۔ صبح شام اسے دال، بھنے ہوئے چنے ، بادام کا مغز، الائچی، اور دیگر مقوی اشیاء کھانے کے لیے دی جاتی ہیںجب کہ اس کے دوا علاج کا بھی خاص خیال رکھا جاتا ہے۔
کالا تیتر اتنا حساس پرندہ ہے کہ اگر اس کی نگہداشت میں ذرا سی بھی لاپروائی ہوجائے تو یہ ناراض ہوجاتا ہے پھر اسے بچوں کی طرح منایا جاتا ہے ۔ اس کا پالنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں ہے ۔لوگوں کا کہنا ہے کے جب صبح کے وقت یہ بولتا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ ’’سبحان تیری قدرت ‘‘ کہہ رہا ہو اور یہ آواز ایک فرلانگ سے زیادہ فاصلے تک سنائی دیتی ہے۔
محکمہ وائلڈ لائف سکھر کے ڈپٹی کنزویٹر عدنان خان نے نمائندہ جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ سندھ کا نایاب کالا تیتر جسے سندھی تیتر بھی کہتے ہیں یوں تو سندھ کے مختلف اضلاع میں پایا جاتا ہے لیکن نایاب نسل کے کالے تیتر، خیرپور ضلع کی تحصیل نارا، رانی پور اور ٹھری میرواہ میں ہی موجود ہیں۔ اس کی نسل معدومیت سے دوچار ہے اس لیے اس کا شکار ممنوع ہے ۔لیکن شکاری موقع پاکر اسے پکڑ کر لے جاتے ہیں اور اسے فروخت کرکے پیسے کماتے ہیں ۔
اس کے صرف بچے کی قیمت ہی 8 سے 10 ہزار روپے ہے پھر اس بچے کو پال پوس کر بڑا کیا جاتا ہے جس کے بعد اس کی قیمت خوبصورتی اور آواز کی وجہ سے لاکھوں روپے ہوجاتی ہے۔۔ شہری علاقوں میں یہ 10 ہزار سے 15 لاکھ تک ہوتی ہے۔ وائلڈ لائف کے افسر کے مطابق ویسے تو ملک کے ہر علاقے کے جنگلات میں تیتر ہوتے ہیں لیکن سندھ کے کالے تیتر کی نسل سب سے بہترین سمجھی جاتی ہے۔اسے پالنے کے شوقین اور اس کے بیوپاری یہاں سے کالے تیتر کے بچے لے جاتے ہیں اور پالتے ہیں ۔ محکمہ وائلڈ لائف کی جانب سے اسے پالنے کی فیس 200 روپے سالانہ ہے اور جس ضلع کے لئے لائسنس بنا ہوتا ہے وہ وہیں کار آمد ہوتا ہے،اسے دوسرے شہر لے جانا ہو تو اس کے لیے پرمٹ لینا ہوتا ہے، جو بغیر کسی اٗضافی فیس کے جاری کیا جاتا ہے۔
سندھ میں کالے تیتر کے بولنے کا مقابلہ کرایا جاتا ہے جسے کہیں ’’چکری‘‘ ، ’’جوڑ‘‘، تو کہیں ’’بولی‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔سندھ میں تیتر بولنے کے ٹورنامنٹ بھی منعقد ہوتے رہتے ہیں۔ مقابلے میں شریک تیتروں کے پنجرے مختلف درختوں پر لٹکا کر ان کے درمیان ایک شخص کو امپائر بنا کر بٹھایا جاتا ہے جو امپائرنگ کمیٹی کے اراکین کے ساتھ تیتروں کی بولیاں لکھتا ہے کہ مقررہ ٹائم میں کس کے تیتر نے کتنی بولیاں بولیں، جو بھی تیتر مقابلے میں زیادہ بولتا ہے وہ جیت جاتا ہے۔