میں نے ڈاکٹر چوہا کو دل ہی دل میں اس کے شان دار علاج پر خوب شاباش دی ۔
ڈاکٹر چوہا کے مشورے نے علاج کا کام کیا تھا ۔بے شک ہر بیماری کا علاج دوا نہیں ہوتی ۔دوا کے علاوہ بھی کچھ طریقوں سے بعض بیماریوں کا علاج ہو جاتا ہے ۔اب میری طبیعت بہت حد تک بہتر ہو گئی تھی ۔جسم میں درد کا نام و نشان بھی نہیں رہا تھا۔طبیعت ہشاش بشاش ہو جائے تو خود بخود گنگنانے کو دِل کرتا ہے ۔میں بھی مست ہو گیا ۔مستی میں موم پھلی کا گیت گنگنا نے لگا ۔
’’ موم پھلی کی گاڑی میں
موم پھلی کے دانے تھے
کچھ بچا کر رکھنے تھے
باقی رات کو کھانے تھے
موم پھلی کی گاڑی میں
موم پھلی کے دانے تھے
ابھی میں گیت گا ہی رہا تھا کہ اچانک مجھے کسی کی آواز سنائی دی ۔
’’ اے ۔۔۔ کہاں جا رہے ہو تم ۔۔۔؟‘‘
آواز سن کر میں اچھل گیا ۔آواز بالکل قریب ہی سے آئی تھی ۔کسی نے مجھے ہی پکارا تھا۔ مجھ ہی سے مخاطب ہو اتھا ۔ میں نے جواب دیا:
’’ میں ایک ضروری کام سے جا رہا ہوں۔۔۔‘‘
آواز آئی :’’ کون سا ضروری کام ۔۔۔؟‘‘
میں نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے جواب دیا:
’’میری طبیعت خراب تھی ۔۔۔ مجھے ڈاکٹر نے کہا کہ طویل سفر پہ روانہ ہو جاؤ۔۔۔ اس سے بیماری دور ہو جائے گی۔۔۔نصیب اچھا ہو جائے گا ۔۔۔سمجھو میں اچھے نصیب کی تلاش میں جا رہا ہوں ۔۔۔کسی چمتکار کی تلاش ہے مجھے ۔۔۔لیکن تم کون ہو ۔۔۔؟‘‘
جواب میں کوئی دکھائی نہیں دیا ،صرف آواز سنائی دی :
’’ سمجھو میں تمہارا دوست ہوں ۔۔۔‘‘
میں نے چاروں طرف نظر دوڑائی ،مگرکوئی نظر نہیں آیا۔صرف آواز سنائی دے رہی تھی ۔بولنے والا دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔میں نے پوچھا:’’ تم ہو کون میرے دوست ۔۔۔مجھے دکھائی کیوں نہیں دے رہے ۔۔۔تم ہو کہاں۔۔۔سامنے تو آؤ ۔۔۔؟‘‘
جواب میں اس نادیدہ دوست کی آواز سنائی دی ۔
’’ میں سامنے نہیں آسکتا دوست ۔۔۔میری آنکھیں بہت کم زور ہیں ۔۔۔سورج کی روشنی میری آنکھیں جھیل نہیں سکتی ہیں ۔۔۔اگر میں روشنی میں آیا تو میری آنکھیں ضایع ہو جائیں گی ۔۔۔میں اندھا ہو جاؤں گا ۔۔۔اس لیے میں اس کھوہ میں چھپا ہوا ہوں۔۔۔سورج ڈھلنے کا انتظار کر رہا ہوں ۔۔۔سورج کی روشنی ختم ہو گی تو میں باہر آؤں گا ۔۔۔ ورنہ اندھا ہو جاؤں گا ۔۔۔‘‘
میرے لیے یہ بات بڑی حیرانی کی تھی ۔بھلا سورج کی روشنی سے بھی کوئی اندھا ہو تا ہے ۔ پھرمجھے اپنی بیماری اور ڈاکٹر چوہا کا عجیب علاج یاد آیا ۔سورج کی روشنی میں مسلسل چلنے سے مجھے اپنے مرض میں افاقہ ہوا تھا۔میں سمجھ گیا کہ شاید وہ ٹھیک کہہ رہا ہے ۔
میں نے سوچتے ہوئے کہا :’’ اوہ ۔۔۔ تو ایک کام کرو ۔۔۔ اپنی عینک لگا کر باہر آجاؤ ۔۔۔ عینک پہن کر سورج کی تمازت سے بچا جا سکتا ہے ۔۔۔ باہر آؤ گے تو ملاقات کرلیں گے ۔۔۔تم نے مجھے دوست کہا۔۔۔دوست سے ملنا چاہیے ۔۔۔‘‘ساتھ ساتھ میں اس آواز کو پہچاننے کی کوشش کر رہا تھا۔مجھے محسوس ہو اکہ یہ آواز میں نے پہلے بھی سنی ہے۔کبھی ذہن میں آتا کہ یہ آواز دریائی بگلے کی ہے۔
دریائی بگلے کی آواز اس سے ملتی جلتی ہے ۔یا پھر یہ چچا مکھن کی آوازہے ۔چچا مکھن ہمارے علاقے میں رہنے والے ایک بکرے کا پیار کا نام تھا۔ میں نے انکار میں سر ہلایا :’’ نہیں۔۔۔یہ دریائی بگلا بھی نہیں ہے ۔۔۔نہ ہی یہ چچا مکن ہے ۔۔۔
بگلے کی آنکھیں کم زور نہیں ہیں ۔۔۔اور چچا مکھن بھلا اپنے گھر سے دور یہاں کیا کر رہے ہیں ۔۔۔یہ ضرور کوئی اور ہے ۔۔۔‘‘
اسی وقت وہی آواز سنائی دی :
’’ نہیں دوست ۔۔۔اصل میں میری عینک خراب ہو گئی تھی۔۔۔میں نے وہ بننے کے لیے دکان پہ بھیجی ہوئی ہے ۔۔۔اگر میری عینک میرے پاس ہوتی تو ظاہر میں باہر ہی ہو تا ۔۔۔لیکن اگر تم واقعی اپنے اچھے نصیب کی تلاش میں ہو۔۔۔کوئی چمتکار کھوج رہے ہو ۔۔۔ تو میں بتا سکتا ہوں تمہیں یہ کہاں مل سکتا ہے ۔۔۔‘‘
میں اچھل گیا ،بے تابی سے بولا :’’ واقعی ۔۔۔کیا واقعی تم جانتے ہو ۔۔۔؟‘‘
’’ ہاں ۔۔۔میں جانتا ہوں ۔۔۔‘‘
’’ تو پھر بتاؤ نا ۔۔۔کہاں ملے گا مجھے اچھا نصیب ۔۔۔؟‘
جواب میں کہا گیا :
’’ یہیں ۔۔۔اسی کھوہ میں ۔۔۔جہاں میں موجود ہوں ۔۔۔‘‘
’’ کیا مطلب ۔۔۔؟‘‘
’’ بھئی مطلب یہ کہ میں یہاں جس کھوہ میں چھپ کے بیٹھا ہوں ۔۔۔اس کھوہ کی تہہ میں ہر قسم کا نصیب پڑا ہوا ہے ۔۔۔طرح طرح کے چمتکاروں کا ڈھیر ہے یہاں ۔۔۔تم یہاں اندر آجا ؤ۔۔۔دیکھ لو تمہیں کس قسم کے نصیب کی ضرور ت ہے ۔۔۔اپنی مرضی کا نصیب تلاش کرلو ۔۔۔‘‘
میں ایک سیدھا سادا سا بھالو تھا ۔یہ بات سن کر خوش ہو گیا ۔دل ہی دل میں سوچنے لگا :’’ ارے واہ ۔۔۔ اس کھوہ میں ہر قسم کا نصیب موجود ہے۔۔۔یہ تو بہت اچھی بات ہے۔‘‘ میں نے پرجوش لہجے میں کہا:
’’آپ نے یہ اہم معلومات دے کر میرا دل خوش کردیا۔۔۔میں اچھے نصیب کی تلاش میں طویل سفر پر نکلا ہوں۔۔۔یہ بتائیں کیا اس کھوہ میں ۔۔گٹھیا کی بیماری کا مکمل علاج موجود ہے ۔۔۔میرا مطلب ہے ۔۔۔ کیا گٹھیا کی بیماری سے مکمل نجات کا چمتکار مل جائے گا مجھے یہاں سے ۔۔۔؟‘‘
جواب میں آواز آئی :’’ ارے یہ تو معمولی سی بات ہے ۔۔۔میں نے کہا نا یہاں ہر قسم کا نصیب موجود ہے ۔۔۔گٹھیاکی بیماری نصیب سے ٹھیک ہو تی ہے ۔۔۔یہاں ایسا نصیب بھی موجود ہے جس کے سبب تمہیں اس بیماری سے مکمل نجات مل جائے گی ۔۔۔ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ۔۔۔‘‘
میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا۔اسی وقت آواز سنائی دی ۔
’’ گٹھیا تو بہت معمولی بیماری ہے میرے دوست ۔۔۔اس کھوہ میں تو ایسا چمتکار بھی موجود ہے جس کے ذریعے ، پولیو ،کالی کھانسی ،خسرہ ۔۔۔
حتیٰ کہ کینسر اور کورونا وائرس سے بھی نجات مل سکتی ہے ۔۔۔اگر تمہارے جاننے والے ،رشتے داروں یا دوستوں میں کوئی بھی کسی قسم کی خطرنا ک بیماری کا شکار ہو تو تم انہیں یہاں میرے پاس بھیج دو ۔۔۔
یہاں موجود چمتکار کے ذریعے ان کی جان اس بیماری سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوٹ جائے گی ۔۔۔‘‘
میں نے خوش ہو کر کہا:
’’ تم بہت نیک دل اور ہم درد ہو ۔۔۔تمہاری آواز مجھے جانی پہچانی اور سنی سنی سی محسوس ہو رہی ے ۔۔۔مگر میں پہچان نہیں پا رہا ہوں ۔۔۔کاش مجھے معلوم ہو سکتا کہ تم کون ہو۔۔۔تمہارانام کیا ہے ۔۔۔؟‘‘
جواب میں کہا گیا :’’ تم اندر آؤ گے ۔۔۔ مجھے دیکھو گے تو ایک ہی لمحے میں پہچان جاؤ گے کہ میں کون ہوں ۔۔۔تم ایک کام کرو ۔۔۔ آگے بڑھو ۔۔۔یہ سامنے ہی کھوہ ہے ۔۔۔ا س میں اندر آجاؤ۔۔۔مجھ سے ملاقات ہو جائے گی ۔۔۔میں گھٹیا سے نجات کاچمتکار تمہیں دے دوں گا ۔۔۔پھر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تمہیں اس موذی بیماری سے نجات مل جائے گی ۔۔۔‘‘
مجھے کسی تاریک کھوہ میں جانا پسند نہیں تھا ۔ میں تو اپنے علاج کے لیے روشنی میں طویل سفر پر نکلا تھا ۔اب معلوم ہواکہ مجھ کو اس کھوہ میں گٹھیا سے نجات کا چمتکار مل سکتا ہے تو میں نے سوچا کھوہ میں جھانک کر دیکھنا چاہیے ۔میں دھیرے دھیرے قدم اٹھاتے ہوئے کھوہ کے قریب پہنچا اور ا س کے کنارے کھڑے ہوکر نیچے کی جانب جھانک کر دیکھا،مگر کھوہ ا س قدر تاریک تھی کہ جیسے اندر سوائے کوئلے کے کچھ نہ ہو ۔ایک لمحے کو میں سوچ میں پڑگیا ۔ پھر میں نے ایک طویل سانس لے کر خود سے کہا:
’’ ڈاکٹر چوہا نے کہا تھا کہ گٹھیا کے مرض سے نجات کے لیے طویل سفر پر جانا ہو گا ۔۔۔طویل مہم سر کرنا ہوگی ۔۔۔کوئی چمتکار ہی اس مرض سے نجات دلا سکتا ہے ۔۔۔شاید وہ یہی جگہ ہے جہاں سے مجھے چمتکار مل سکتا ہے ۔۔۔ٹھیک ہے ۔۔۔مجھے اس چمتکار کے لیے اس کھوہ میں جا کر دیکھنا چاہیے ۔۔۔ممکن ہے یہیں مجھے ایسا چمتکار مل جائے جس سے مجھے گٹھیا سے نجات مل جائے ۔۔۔‘‘
میں نے تاریک کھوہ میں جانے کا فیصلہ کرلیا۔اپنی چھڑی زمین پہ ٹیکتے ہوئے احتیاط سے کچھ آگے بڑھا اور کھوہ کے اندر داخل ہو گیا۔باہر سے کچھ چھوٹی محسوس ہونے والی کھوہ اندر سے خاصی کشادہ تھی ۔گھپ اندھیرے کی وجہ سے مجھے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا ،مگر اندر داخل ہو تے ہی میں ایک دم ،جھٹکے سے نیچے کی جانب پھسلتا چلا گیا۔ پھسلتے ہوئے مجھے محسوس ہو اکہ میرا جسم کسی نرم اور روئیں دار چیز سے ٹکرایا ہے ۔مجھے لگا کوئی اونی کمبل ہے جس سے رگڑ کھا کرمیںنیچے کی طرف گیا ہوں۔
میں سنبھل ہی نہیں سکاتھا۔ مدھڑام سے کھوہ کی تہہ میں میں جا گرا ۔تب معلوم ہوا کہ یہ کھوہ دراصل ایک بڑا سا تاریک غار ہے۔میں ایک غار کی تہہ میں پہنچ گیا تھا ۔
اسی وقت مجھے وہی آواز سنائی دی ۔
’’ آہا ۔۔۔ شکر ہے تم میرے جھانسے میں آگئے ۔۔۔مجھے کب سے شدید بھوک لگ رہی تھی ۔۔۔میں دُعا کر رہا تھا کہ کوئی میرے جال میں آجائے اور میرے ڈنرکا بند و بست ہو جائے ۔۔۔شکر ہے میرے ڈنر کا بندو بست ہوگیا ۔۔۔‘‘
میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے ۔
اب وہ آواز اتنی میٹھی اور نرم نہیں تھی جیسی شروع میں محسوس ہوئی تھی ۔اب تو یہ آواز بے حد بھیانک اور غراتی ہوئی محسوس ہو ئی تھی ۔
اب میں نے صاف پہچان لیا ۔
وہ کالے ریچھ کی غراتی ہوئی آواز تھی ۔
اس کے ساتھ ہی کالا ریچھ دھپ سے میرے سامنے آگیا۔
اپنے سامنے اتنے بڑے ریچھ کو دیکھ کرمیری کی سٹی گم ہو گئی ۔ہکلا کر رہ گیا۔خوف کے مارے کچھ بول ہی نہیں پایا۔
کالے ریچھ نے مجھے پکڑ کر غار میں موجود ایک کوٹھری میں ڈال دیا۔کوٹھری کادروازہ بند کردیا۔
میں کالے ریچھ کے شکنجے میں آگیا تھا ۔ا س کی کوٹھری میں بند ہو گیا تھا ۔اس کی خوراک بننے والا تھا ۔
مجھے اپنی موت سامنے دکھائی دے رہی تھی ۔
میں نے اپنی آنھیں بند کر لیں اور دل ہی دل میں خدا کو یاد کرنے لگا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جی بچو ۔۔۔آپ سوچ رہے ہوں گے کہ پھر کیا ہوا۔۔۔؟
کیا کالے ریچھ نے خالو بھالو کو،یعنی مجھے کھا لیا یا میں خطرناک کالے ریچھ کے چنگل سے آزاد ہونے میں کام یاب ہو گیا ۔۔۔؟
یہ ہم آپ کو اگلی قسط میں بتائیں گے ۔
انتظار کریں۔