محرم کے مہینے کی دسوِیں تاریخ یعنی حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے یوم ِ شہادت کو بعض لوگ عاشورہ لکھتے ہیں ، یہ درست نہیں ہے۔ اسے عاشور لکھنا چاہیے ۔اسے عاشوراء (یعنی الف کے بعد ہمزہ) بھی لکھا جاسکتا ہے ۔ اس کا ایک اوراملا عاشوریٰ (یعنی الف بشکل ِ ’’ ی ‘‘)بھی درست ہے، لیکن عاشورہ (یعنی آخر میں ہاے مختفی ) غلط املا ہے۔
مستند اہل قلم کے ہاں اس کا املا ’’عاشور ‘‘ہی ملتا ہے۔ اردو لغت بورڈ نے بھی اپنی لغت میں ’’عاشور‘‘ کی اسناد شاہ نصیر ، استاد ذوق اور میر انیس جیسے مسلّمہ اساتذہ کے کلام سے دی ہیں۔ بلکہ شاہ نصیر کے شعر میں تو’’مغفور ‘‘کا قافیہ ’’عاشور‘ ‘ہے اور اسے ’’عاشورہ‘‘ پڑھیں تو بحر سے بھی خارج ہوجائے گا اور قافیہ بھی درست نہیں رہے گا۔ ملاحظہ ہو:
لخت ِ جگر شہید ِ مغفور ہے ہمارا
اور زخم ِ دل ہلالِ عاشور ہے ہمارا
ذوق کہتے ہیں:
تیغ ِ قاتل سے رہے جو قتل کے دن بے نصیب
عید کے دن کونہ کیوں عاشو ر کا وہ دن کرے
ایک ترکیب عاشور خانہ بھی رائج ہے جس کے معنی ہیں عز ا خانہ یا امام بارگاہ۔ البتہ لغت بورڈ نے درست املا ’’عاشور‘‘ کے ساتھ غلط املا ’’عاشورہ ‘‘بھی لکھ دیا ہے اور بعض اہل قلم کی اسناد بھی اس ضمن میں دے دی ہیں ۔ لیکن غلط املا کو سند بنانا صحیح نہیں ہے۔
٭… زکی یا ذکی ؟
زکی (زے سے ) اور ذکی (ذال سے ) دونوں درست ہیں مگر معنی میں فرق ہے۔
زکی (زے سے ) کے معنی ہیں پاک، صاف ، نیک ۔اس کی جمع ہے ازکیاء ۔ جبکہ ذکی (ذال سے) کے معنی ہیں ذہین ، فہیم، تیز۔اور اس کی جمع ہے اذکیاء ۔ذکی کی مؤنث ذکیہ ہے۔ ذَکا وت (ذال پر زبر) کے معنی ہیں ذہن کی تیزی، تیز فہمی۔
ڈاکٹر غلام مصطفی خاں صاحب نے لکھا ہے کہ لوگ ز کی (زے سے) کے موقعے پر بھی ذکی (ذال سے) لکھتے ہیں ، مثلاً زکی الدین کو ذکی الدین لکھ دیتے ہیں۔ اگر کسی کا نام ہو تو زکی الدین یا محمد زکی (زے سے) لکھنا چاہیے کیونکہ ذکی (ذال سے ) ایک برے معنی میں بھی آتا ہے۔
٭…آزُوقہ یا آذُوقہ؟
زے اور ذال والی غلطی لفظ آزُوقہ میں بھی ہوجاتی ہے۔آزُوقہ کے معنی ہیں قلیل غذا ، تھوڑا سا کھانا۔ اس کے ایک معنی چوگا بھی ہیں۔ چوگا یعنی وہ دانہ یا غذا جو پرندے اپنی چونچ سے اپنے ننھے بچوں کو کھلاتے ہیں۔ آزوقہ فارسی زبان کا لفظ ہے اور اس کے املا میں ذال(ذ) نہیں زے (ز)ہے ۔ اس کا ایک املا آزُقہ (یعنی بغیر واو کے ) بھی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ پلیٹس نے اپنی لغت میں آزُوقہ (واو کے ساتھ) کو آزُقہ (بغیر واو ) سے رجوع کرایا ہے اور آزقہ کو آزوقہ سے رجوع کرادیا ہے۔ معنی لکھنا دونوں جگہ بھول گئے ۔ خیر اس طرح کی فروگزاشت لغات میں ہوجاتی ہیں ۔
علمی اردو لغت کے مطابق آزوقہ کی اصل’’ آب و زُقّہ ‘‘ ہے ۔ آب یعنی پانی اور زُقّہ ۔لیکن جو دوسرالفظ ’علمی نے لکھا ہے یعنی ’زُقّہ‘‘اس کا تلفظ اسٹین گاس نے اپنی لغت میں ’’زَقّہ ‘‘دیا ہے، یعنی زے (ز) پر پیش کے بجاے زبر ہے۔ زَقّہ کے ایک معنی ہیں وہ دانہ جو پرندہ اپنے ننھے بچے کو دیتا ہے، دوسرے معنی ہیں ایک قسم کی دوا جو نومولود بچوں کو دی جاتی ہے۔
گویا آب و زقہ میں وقت کے ساتھ تصرف ہوگیا اور وہ آزوقہ بن گیا لیکن خود زقہ میں بھی زے (زے) ہے اس لیے آزُوقہ یا آزُقہ میں بھی زے (ز) ہے اور اس کے املا میں ذال (ذ) لکھنا درست نہیں ہے۔