ترک ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں عمران خان نے انکشاف کیا کہ ہم کالعدم تحریک طالبان کے چند گروپوں کے ساتھ افغانستان میں مذاکرات کر رہے ہیں۔ کالعدم تحریک طالبان ہتھیار ڈال دے توہم انہیں معاف کر دیں گے۔مذاکرات ہی مسائل کا حل ہیں۔
ہم بلوچ عسکریت پسندوں کے ساتھ بھی بات چیت کر رہے ہیں اور ان میں سے جو گروپس مفاہمت کے خواہش مند ہیں ہم ان سے سیاسی مفاہمت کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ افغان طالبان ان مذاکرات میں مصالحانہ کردار ادا کر رہے ہیں، ہم نہیں جانتے کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ بات چیت نتیجہ خیز ہوگی یا نہیں۔
انہوں نے بتایا کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے کچھ گروپس پاکستانی حکومت سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں تاہم حکومت پاکستان ان کو غیر مسلح کرنے کے لیے ان سے بات چیت کر رہی ہے، پاکستانی طالبان اگر ہتھیار ڈال دیں تو انہیں معاف کردیں گے۔ٹی ٹی پی کے جنگجو ہتھیار ڈال کر ملک میں عام شہری کی طرح رہ سکتے ہیں۔
اگرچہ عمران خان نے کالعدم ٹی ٹی پی اور بلوچ عسکریت پسندوں کے ساتھ مشروط بات چیت کا اعادہ کیا ہے جس کے لئے ان ملک دشمنوں کو پہلے مرحلے میں ہتھیار ڈالنا ہوں گے،تاہم ان دہشت گردوں کی طرف سے اس پیش کش کے جواب میں کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔
بلوچ علیحدگی پسند ہوں یا پھر کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے عسکریت پسند دونوں پرہی ہمارا ازلی دشمن بھار ت نوٹ نچھاور کررہا ہے۔
بعض بلوچ قائدین تو فرار ہوکر بیرون ملک عرصہ دراز سے سکونت حاصل کئے ہوئے ہیں جو گاہے گاہے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے رہتے ہیں۔
اس میں کیا شبہ ہے کہ جس قدر پاکستان کو کالعدم ٹی ٹی پی اور کالعدم بلوچ عسکریت پسندوں نے نقصان پہنچایا ہے اتنا نقصان تو پاک بھارت جنگوں میں بھی نہیں ہوا تھا۔
ہائبرڈ وار کا سخت اور مہلک وار بھی جاری ہے، سوشل میڈیا پر بیرون ملک سے آپریٹ ہونے والے پاکستان دشمن نام نہاد لبرلز کے اکاؤنٹس بھی رات دن زہر افشانی میں مصروف ہیں جن کا بھولے بھالے اور جذباتی پاکستانی نوجوان شکار بن کر ان کی پوسٹیں آگے بڑھاکر انکے دست و بازو بنے ہوئے ہیں۔
ماہانہ ہزاروں روپے تنخواہ پانے والے یہ عناصر قانون کی گرفت میں نہیں آرہے ہیں اور ان کے اکاؤنٹس اس قدر زیادہ تعداد میں ہیں کہ نہ تو انکی موثر مانیٹرنگ کی جاسکتی ہے اور نہ ہی انہیں بلاک کیا جاسکتا ہے اگلے روز ہی یہ نیا رنگ و روپ دھار کر نئے نام سے فیس بک،ٹوئیٹر،انسٹا گرام اور دوسرے محاذوں پر آجاتے ہیں کہ کر لو جو کرنا ہے ہم پھر آگئے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اگر یہ دہشت گرد تنظیمیں چلانے والے بھارت کو اس قدر اپنا ہمدرد اور خیر خواہ سمجھتے ہیں تو اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ نئی دہلی منتقل ہوجائیں اور وہاں جاکر دیکھیں کہ ان کے ’’محسن‘‘ ان کے ساتھ دوسرے مسلمانوں کی طرح کا ’’شاندار‘‘ سلوک کرتے ہیں۔ پاکستان میں کرائے کے بھارتی قاتل کا کردار ادا کرنے والے اگر حکومت کے ساتھ ہتھیار چھوڑ کر مذکرات کرتے ہیں اور قومی دھارے میں آتے ہیں تو انہیں اپنے جرائم کا ضرور حساب دینا ہوگا۔
اے پی ایس کا سانحہ ہو یا اس جیسے دوسرے درجنوں دلدوز واقعات، ان کے ہاتھ پاک لہو سے رنگے ہوئے ہیں۔ان کے جرائم ناقابل معافی ہیں۔ وزیر اعظم نے ہمیشہ کہا ہے کہ افغانستان کا سیاسی حل نکالنے کی ضرورت ہے۔
ان کا موقف ہے کہ دہشت گردی کا حل ڈرون حملے نہیں،سوال یہ نہیں کہ امریکا طالبان کو کب تسلیم کرے گا کیونکہ صرف پاکستان کے طالبان کو تسلیم کرنے سے فرق نہیں پڑتا۔امریکہ، یورپ، چین اور روس کو بھی افغان طالبان کو تسلیم کرنا ہوگا۔
بات اتنی سی ہے کہ امریکہ افغانستان میں ذلت آمیزشکست کے نتیجے میں فرار کی ہزیمت کے بعد یقینی طور پر پاکستان کیخلاف افغان جنگ کا بدلہ اقتصادی، معاشی اور دفاعی پابندیوں کی شکل میں لینے کے لئے پر تول رہا ہے اور وہ پاکستان کو عالمی سطح پر تنہائی کا شکار کرنے کے درپے ہے۔
واشنگٹن سے آنے والی خبریں اور اطلاعات اِس بات کا مظہر ہیں کہ وہ پاکستان کیخلاف اقدامات کو عملی شکل دینے میں مگن ہیں اور جہاں تک طالبان کی افغان حکومت کو تسلیم کئے جانے کا سوال ہے تو امریکہ اور یورپی ممالک کی پالیسی ایک ہے وہ اپنا نفع و نقصان دیکھے بغیر اس حکومت کو تسلیم نہیں کریں گے۔
افغان قیادت کو بھی چاہئے کہ وہ دنیا سے امداد لینے کی بجائے اپنے دست و بازو اور ملکی وسائل کو استعمال کر کے انہیں بڑھانے کی تدبیر سوچے۔ اس کے پاس سی پیک میں عملی شمولیت کا بہترین آپشن بھی موجود ہے۔
وہ اس منصوبے کا عملی شراکت داربن کر اپنی اقتصادیات کو بہتر بناسکتا ہے۔ افغانوں کی تاریخ گواہ ہے کہ افغانستان نے کبھی بیرونی طاقتوں کو قبول نہیں کیا۔ افغان کبھی غیر ملکی تسلط تسلیم نہیں کرتے۔
اب اگر کسی عالمی اقدام سے افغانستان میں افراتفری پھیلی تو اس کا سب سے زیادہ نقصان جہاں افغان شہریوں کو ہوگا وہاں دوسرے بھی محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔
وزیراعظم اس ساری صورتحال کے تناظر میں اگر کوئی فیصلہ کریں تو سوچ سمجھ کر کریں،تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیں، بالخصوص اپوزیشن کو کسی صورت بھی نظر انداز نہ کریں۔
سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن حساس قومی معاملات میں سب سے مشاورت ضروری ہے، اسی سے قومی یکجہتی پیداہو گی۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)