بالآخر پی ڈی ایم ایک طویل وقفے کے بعد متحرک اور فعال ہوگئی۔ کافی عرصے سے محسوس کیا جا رہا تھا کہ مہنگائی اور دیگر عوامی مسائل آگے جا رہے ہیں اپوزیشن کی سرگرمیاں اس کے برعکس بہت پیچھے رہ گئیں، آخر کار برف نے پگھلنا شروع کردیا۔ احتجاج کے لئے اپوزیشن کو اس سے ساز گار موسم اور ماحول میسر نہ آئے گا، مہنگائی کے باعث عوام کی چیخیں نکل گئی ہیں آئندہ تین ماہ کے دوران بجلی، پٹرول اور اس کے باعث دیگر اشیا کی قیمتیں اور بڑھنے کا خدشہ ہے۔
گزشتہ ہفتے مولانا فضل الرحمٰن لاہور تشریف لائے یہاں ان کی کمر کی درد میں مبتلا کئی روز سے صاحب فراش اور سیاسی سرگرمیوں سے بے نیاز شہباز شریف سے ملاقات ہوئی اس ملاقات کے نتیجے میں شہباز شریف کی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز ہوگیا۔ مولانا فضل لرحمٰن کی یہ ملاقات مفاہمتی بیانیے کے سرکردہ رہنما شہباز شریف سے ہوئی جبکہ دوسری جانب مزاحمتی بیانیے کی علامت مریم نواز نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپنی رٹ پٹیشن اور گفتگو میں مزاحمتی بیانیے کو مزید آگے بڑھا دیا بقول پرویز رشید اب مزاحمتی بیانیہ عدالت میں بھی پہنچ گیا۔
مولانا فضل الرحمٰن اور شہباز شریف نے ملاقات کے بعد نئے انتخابات کا مطالبہ کردیا اور دبائو بڑھانے کے لئے مختلف بڑے چھوٹے شہروں میں احتجاجی جلسےجلوسوں کا پروگرام بھی مرتب کیا گیا دونوں رہنمائوں کی یہ موو بروقت اور حکمت سے بھرپور ہے، حالیہ بڑی تبدیلیوں کے بعد اپوزیشن دیکھنا چاہتی ہے کہ کونسی طاقتیں کدھر کھڑی ہیں؟
آزمانے کا یہ بہترین وقت ہے، دوسری جانب مریم نواز سخت موقف اپنا کر ہوائوں کا رخ دیکھنا چاہتی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) مزاحمتی ، مفاہمتی بیانیے کے چکر میں پڑی ہے بہت سے اس کے اہم رہنما سمجھتے ہیں کہ تحریک انصاف مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہم ہی اس کا حقیقی متبادل ٹھہر سکتے ہیں ، قوتوں سے لڑنا بے سود اور خود کو خوار کرنا ہے، راستہ دیا جائے اور راستہ بنایا جائے۔
یہ لوگ شہباز شریف کے موقف، بیانیے کے حامی ہیںلیکن ان کونواز شریف اور ان کے بیانیے کی طاقت جاذبیت سے بھی انکار نہیں، یہ سب گومگو اور ابہام کا شکار ہیں۔ خواجہ سعد رفیق نے گزشتہ ہفتے اپنی رہائش گاہ پر اپنے کچھ ساتھیوں کو مدعو کیا تھا جس کے بعد میڈیا میں یہ خبریں آئیں کہ اس اجلاس میں نواز شریف سے اپیل کی گئی کہ بیانیے کا ابہام دور کیا جائے لیکن خواجہ سعد رفیق اور ان کےساتھی اس خبر کو آفیشلی اوون نہ کرسکے البتہ اس اجلاس میں موجود پرویز رشید نے اس خبر کی زبردست تردید بلکہ مذمت کی اور کہا کہ بیانیے میں کوئی ابہام موجود نہیں۔ بیانیہ آئین اور پارلیمینٹ کی بالادستی پر سٹینڈ کرتا ہے۔
میاں جاوید لطیف نے ایک اور مضبوط دلیل دی کہ درجن کے قریب مسلم لیگ (ن) کے ڈویژنل کنونشن ہوئے ہیں کسی ایک رہنما یا کارکن نے وہاں وڈیو لنک پر موجود قائد نواز شریف سے استفسار نہیں کیا کہ بیانیے کا ابہام دور کیا جائے یا ہمیں اس سے تکلیف ہو رہی ہے۔ دراصل بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) میں نواز شریف کی بڑی گرفت اور طاقت ہے ووٹ ان کا ہی ہے، دوسری جانب شہباز شریف عجلت پسندی کی سوچ کے حامل ہیں وہ زمینی حقائق پرزیادہ یقین رکھتے ہیں۔
لندن سے این سی اے سے کلین چٹ ملنے اور کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات میں کامیابی کے بعد ان میں نیا اعتماد پیدا ہوا ہے۔ ان کی سرگرمیاں عوامی سے زیادہ رابطوں اور آنے والے دنوں میں غیبی امداد پر زیادہ منحصر ہیں۔ بہرحال یہ طے ہے کہ ووٹر ان بیانیوں سے بے نیاز مسلم لیگ (ن) کےساتھ کھڑا ہے اس کا فی الحال کوئی ٹھوس موقف نہیں وہ ملک اور اپنے مسائل کا حل چاہتا ہے اس کا راستہ جیسے مرضی نکلے۔
حمزہ شہباز کا دورہ جنوبی پنجاب بھی اسی راستے کی عکاسی کرتا ہے، دورہ جنوبی پنجاب ایسے مرحلے اور موقع پر بے حد اہمیت کا حامل ہے جب کہ کنٹونمنٹ بورڈ میں پیپلز پارٹی کا پنجاب میں مکمل صفایا ہوگیا اس سے پہلے بہت شور و غوغا تھا کہ بلاول بھٹو کو آگے لایا جا رہا ہے لیکن وہ آگے آنے کی بجائے پیچھے چلے گئے۔ حمزہ شہباز اور ان کا خاندان لندن سے منی لانڈرنگ کے الزامات سے کلین چٹ ملنے کے بعد زیادہ اعتماد محسوس کر رہا ہے حمزہ شہباز نے جنوبی پنجاب میں جا کر کافی ہلچل مچائی۔ پیپلز پارٹی کے اور مسلم لیگ (ن) سے جانے والے ارکان جوق در جوق مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوئے، حمزہ شہباز کی خوبی یہ ہے کہ وہ کام بہت سلیقے اور نظم و ضبط کے ساتھ کرتے ہیں اب اس دورے سے ان کا قد سیاسی طور پر اور بھی بڑھ گیا ہے۔
پنڈورا پیپر کے معاملے پر مسلم لیگ (ن) نے اس قدر واویلا اور شور نہیں مچایا جس قدر پاناما لیکس آنے پر تحریک انصاف آپے سے باہر ہوئی تھی شاید اس وقت اس کو ہر طرف سے دیدہ و نادیدہ سپورٹ حاصل تھی اب ایسا نہیں ہے، سپورٹ دینے والے خود پھنسے ہوئے ہیں۔ نیب کے چیئرمین کے معاملے پر بھی اپوزیشن کھل کر سامنے نہیں آئی حکومت نے من مانی کر لی سب دیکھتے رہ گئے ملکی سیاست کا یہ افسوسناک پہلو ہے کہ آئین و قانون کے تحت نیب کے چیئرمین کو عہدے پر مزید توسیع نہیں دی جاسکتی اور نئے چیئرمین کے لئے اپوزیشن لیڈر سے مشاورت ضروری ہے مگر وزیر اعظم ایسا نہ کرنے پر بضد ہیں لیکن ہر کوئی بے بس ہے۔
میاں جاوید لطیف نے پارٹی کے چند رہنمائوں پر الزام عائد کیا کہ وہ اسائنمنٹ پر ہوتے ہیں، جن پر الزام آتا تھا وہ بہت طیش میں آئے ان کو اظہار وجوہ کا نوٹس دیا گیا۔ دراصل یہ ہی مفاہمتی و مزاحمتی کی جنگ تھی جو کہ پارٹی میں در پردہ چل رہی تھی میاں جاوید لطیف نے چند ارکان کے بارے میں اپنے اظہار وجوہ کے نوٹس میں جواب دینے کا فیصلہ کیا لیکن چند رہنما افہام و تفہیم کرانے کے لئے سرگرم ہوگئے ان کا معاملہ گفت و شنید کے ذریعے فی الحال حل ہوگیا۔ شہباز شریف نے بھی معاملے کی نزاکت کو سمجھا اور بڑے بھائی نواز شریف کی بات سے اتفاق کیا۔