• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن


بعض مہینے اور تاریخیں کسی قوم کی زندگی میں خاص اہمیت اختیار کر جاتی ہیں جن کا بار بار تذکرہ ہوتا رہتا اور حوالہ دیا جاتا ہے۔ ہماری سیاسی تاریخ میں 5جولائی عروج و زوال کا ایک استعارہ بن گئی ہے۔ آج سے چالیس برس پہلے یہی وہ تاریخ تھی جب عوام کے اندر انتہائی مقبول سیاسی قائد کے اقتدار کا سورج غروب ہورہا تھا۔ پورے ملک میں شدید ہنگاموں اور انتظامی مشینری کے مفلوج ہو جانے کے باعث فوج نے عنانِ حکومت سنبھالی۔ بدقسمتی سے دوسال بعد جناب ذوالفقار علی بھٹو دار پر لٹکا دیے گئے اور 5جولائی 2017ء کی صبح ایک نئے انداز میں طلوع ہوئی جس نے پاکستان میں پورے اعتماد اور کامل وجاہت کے ساتھ ایک طرحدار سیاسی شخصیت کا ظہور دیکھا جو مستقبل میں ایک متبادل سیاسی قیادت ثابت ہوسکتی ہے۔ مشترکہ تفتیشی ٹیم نے محترمہ مریم نواز کو طلب کر کے دراصل اُن کی تقریبِ پذیرائی کا اہتمام کیا ہے۔ عجب رنگ ڈھنگ ہیں زمانے کے۔ ایک سیاسی بحران میں بیحد طاقتور حکمران زمیں بوس ہوا جبکہ آج کے قانونی اور سیاسی بحران میں ایک نئی قیادت سیاسی اُفق پر نمودار ہو چکی ہے جو پاکستان میں جمہوریت کی صحت مند نشو و نما کا مژدہ سنا رہی ہے۔
پاناما پیپرز کیس نے گزشتہ آٹھ مہینوں میں کئی نازک موڑ کاٹے ہیں جن سے عجب طرح کی انہونیاں وجود میں آئی ہیں اور ہمارے بعض آئینی اور حکومتی ادارے کٹھن آزمائش سے گزر رہے ہیں۔ غیب کا علم رکھنے کے دعویدار دور دور کی کوڑیاں لانے میں شب و روز سرگرداں ہیں۔ وہ ’صاحبانِ نظر‘ جن کی بے شمار پیشین گوئیاں اُن کا منہ چڑا رہی ہیں، ان کا ارشاد ہے کہ دس جولائی کی تاریخ انقلاب کی تاریخ ثابت ہو گی کہ اس دن جے آئی ٹی اپنی حتمی رپورٹ سپریم کورٹ کے مخصوص بنچ کے رُوبرو پیش کرے گی اور اسی لمحے وزیراعظم نوازشریف نااہل قرار دے دیے جائیں گے۔ کچھ ایسی ہی آوازیں ٹی وی کے ٹاک شوز میں بلند ہو رہی ہیں جن کے بالعموم اپنے اپنے ایجنڈے اور اپنے اپنے اہداف بتائے جاتے ہیں۔ اقتدار کی کشمکش اور ذاتی حرص و ہوس میں مبتلا بعض سیاسی لیڈر اشتعال انگیز باتیں کر رہے اور آستینیں چڑھائے بیٹھے ہیں۔ حکمراں جماعت میں بھی خاصے بڑبولے پائے جاتے ہیں جن کی زبان کے ساتھ ساتھ اُن کا دہن بھی بگڑنے لگا ہے۔ بیشتر قانون دان ورطۂ حیرت میں ہیں کہ اصل معاملے پر توجہ مرتکز رکھنے کے بجائے دونوں طرف سے لایعنی گفتگو ہو رہی ہے اورکچھ فاضل جج صاحبان اپنے منصب کے وقار اور احترام سے فروتر ریمارکس دے رہے ہیں۔ سنجیدہ طبقے اس بات پر انگشت بدنداں ہیں کہ جس شخص کا نام پاناما پیپرز میں شامل ہی نہیں، اسی کو تختۂ مشق بنایا جا رہا ہے اور انہی کے خاندان کے افراد باربار جے آئی ٹی میں طلب کیے اور ان کی عزتِ نفس پر چرکے لگائے جا رہے ہیں۔ جے آئی ٹی کی تشکیل اور اس کا تحکمانہ طریقِ تفتیش اپنے آغاز ہی سے تنقید اور شکوک و شبہات کی زد میں ہیں اور شکایات آ رہی ہیں کہ وہ گواہی کیلئے پیش ہونے والوں پر وعدہ معاف بن جانے کی ترغیب اور دھمکیاں دیتی ہے اور معزز شخصیات کو گھنٹوں انتظار کراتی ہے۔ جے آئی ٹی نے عدالتِ عظمیٰ میں رپورٹ پیش کرتے ہوئے بعض سرکاری اداروں پر ریکارڈ میں ٹمپرنگ کرنے اور ضروری دستاویزات کی فراہمی میں لیت ولعل سے کام لینے کے الزامات لگائے جن کے متعلقہ اداروں نے مسکت جواب دیئے۔ اب اخبارات میں یہ رپورٹ بھی شائع ہو چکی ہے کہ سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی کی طرف سے جو 3رپورٹیں پیش کی گئی ہیں، ان پر بیشتر ارکان نے پڑھے بغیر دستخط کیے ہیں۔
ان تمام شکایات، اعتراضات اور تحفظات کے باوجود ہمیں دس جولائی کے ساتھ کسی بہت بڑی تبدیلی کی خواہشات وابستہ کر لینا حماقت ہو گا۔ ابھی یہ دیکھنا ہو گا کہ جے آئی ٹی قطری شہزادے کا انٹرویو ریکارڈ کرنے دوحا جاتی ہے یا نہیں۔ چار جولائی کو اس کے دو ارکان دبئی گئے اور ٹی وی چینلز پر یہ خبر نشر ہوئی کہ وہاں سے وہ دوحا جا رہے ہیں، مگر وہ دوحا گئے بغیر واپس چلے آئے۔ اس اقدام سے یہ تاثر قائم ہوا کہ قطری شہزادے کا شریف خاندان کی منی ٹریل میں جو بنیادی کردار ہے، اسے نظرانداز کرنے کی دانستہ کوشش کی جا رہی ہے۔ اگر ایسا ہے تو عوام کی نظر میں جے آئی ٹی کی تفتیش نامکمل اور ناقابلِ اعتبار قرار پائے گی۔ ان تمام باتوں کے باوجود بہتر یہی ہو گا کہ آئین اور انصاف کے دائرے میں رہتے ہوئے جے آئی ٹی کے ساتھ پورا تعاون کیا جائے اور جو تفتیشی عمل شروع ہو چکا ہے، اسے منطقی انجام تک پہنچنے دیا جائے۔ میں تفتیشی کمیٹی کے سربراہ جناب واجد ضیاء کے بارے میں حُسنِ ظن رکھتا ہوں کہ وہ حتمی رپورٹ تیار کرتے وقت اپنی شہرت اور پیشہ ورانہ مہارت کا پورا پورا خیال رکھیں گے، کسی قسم کا دباؤ قبول نہیں کریں گے اور عوام کے ذہنوں میں کلبلانے والوں سوالات کے اطمینان بخش جواب دیں گے۔ جب دس جولائی کو حتمی رپورٹ سپریم کورٹ کے خصوصی بنچ کے روبرو پیش ہو گی، تو وہ باریک بینی سے اس کا جائزہ لے گا اور اس امر کا قوی امکان ہے کہ اس پر فریقین کے وکلا جرح کر کے اس کی قانونی اور واقعاتی حیثیت کے تعین میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ اگر کسی مرحلے پر یہ محسوس ہوا کہ فاضل بنچ کو ایڈریس کرنے سے گریزاں ہے، تو عدالتِ عظمیٰ کا فل کورٹ بنچ ازسرِنو سماعت کر سکتا ہے۔یہ نکتہ قابل غور ہے کہ پیپلز پارٹی دور حکومت کے اٹارنی جنرل جناب عرفان قادر اس پورے عمل کو غیر قانونی قرار دے رہے ہیں۔ پاکستان کے قانونی حلقوں نے فاضل چیف جسٹس سے فل کورٹ بنچ تشکیل دینے کا مطالبہ بھی کر دیا ہے۔
پاناما کیس جو اہمیت اختیار کر گیا ہے اس کا فیصلہ صادر کرنے میں عدالتِ عظمیٰ کو غیر معمولی احتیاط سے کام لینا اور اپنی درخشندہ روایات کو مستحکم کرنا ہو گا۔ ہماری تاریخ میں وہ عدالتی فیصلے سیاسی باب سمجھے جاتے ہیں جن میں چیف جسٹس منیر نے گورنرجنرل غلام محمد کے دستور ساز اسمبلی توڑ دینے کے اقدام کو جائز قرار دیا تھا اور بعدازاں نظریۂ ضرورت ایجاد کر ڈالا تھا۔ اِسی نظریۂ ضرورت کے تحت ایوب خاں کے مارشل لا کو سندِ جواز عطا کی گئی تھی، مگر یہ ساٹھ سال پرانی باتیں ہیں جو جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے غیر آئینی ’ٹیک اوورز‘ کو آئینی جواز فراہم کرتی رہی ہیں۔ اسی طرح جب مسٹر بھٹو کے خلاف مقدمۂ قتل میں مروجہ قانونی ضابطے اور مراحل نظر انداز کیے گئے، تو عدالتی فیصلے متنازع بن گئے۔ اب زمانہ تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے اور اعلیٰ عدالتوں کے لیے من مانی کرتے رہنا محال نظر آتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ادارے اپنے حدود میں رہتے ہوئے اپنا کردار بجالاتے رہیں گے۔ ہماری پوری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ جمہوری نظام کا تسلسل قائم رہے اور پُرامن انتقالِ اقتدار کی روایت اس قدر مستحکم ہو جائے کہ کسی بھی مہم جو کے لیے کوئی جائے پناہ موجود نہ رہے۔ حالیہ بحران میں جناب نوازشریف قانون کی بالادستی کے علم بردار اور مضبوط اعصاب کے مالک حکمران ثابت ہوئے ہیں۔ جے آئی ٹی نے ان کی بیٹی مریم نواز کو سیاست کے میدان میں اُتار کر ہماری سیاسی تاریخ کو ایک نیا رُخ دے دیا ہے۔ اب انہیں اپنے اندر اعلیٰ سیاسی قیادت کے اوصاف کو فروغ دینے کے لیے بڑی استقامت سے کام لینا، اہم اداروں کے مابین توازن قائم رکھنا، مکالمے کی تہذیب کو فروغ دینا اور حقوق العباد کی موثر ادائیگی کا خاص خیال رکھنا ہو گایہی سیاست کے بنیادی مقاصد ہیں۔

تازہ ترین