ڈالر کی اونچی اُڑان نے معیشت کی بنیادیں ہلادیں

October 28, 2021

وفاقی دا ر الحکومت اسلام آ بادملک کے سیا سی منظر نامہ کے بارے میں قیاس آ رائیوں ‘ افواہوں اور بے یقینی کی زد میںہے۔ حکومت کے مستقبل کے بارے میں کئی سازشی تھیوریز زیر بحث ہیں۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کے استعفے کو سیا سی منظر نامہ میں تبدیلی کا نکتہ آغاز قرار دیا جا ر ہا ہے جو لاہور سے ہوکر اسلام آ باد تک پہنچے گا۔ وزارء سمیت حکومتی ممبران اسمبلی دو ہفتوں سے پیداہونے والی صورتحال کی وجہ سے پریشان نظر آتے ہیں جو اب بظاہر بہتر ہوگئی ہے ۔

پہلی مرتبہ ایسا ما حول خود حکومت کی جانب سے اپنائے گئے ایک موقف کی وجہ سے پیداہوا ہے جس نے منقسم اوربے ضرر اپوزیشن میں جان ڈال دی ہے ۔اسی صورتحال کا فائدہ کا لعدم مذہبی تنظیم نے بھی اٹھایا اور اسلام آ باد کی جانب لانگ مارچ کا اعلان کردیا۔ یہ لانگ مارچ جمعہ کو لاہور سے چلناتھا لیکن راولپنڈی اور اسلام آ باد کی انتظامیہ نے جمعرات کو ہی جڑواں شہر کو کنٹینرز کا شہر بنادیا بالخصوص صدر سے فیض آ باد تک مری روڈ کو بند کردیا۔

رابطہ سڑکیں بھی بند کردیں اور فیض آباد کا مرکزی پوائنٹسیل کردیاگیا جہاں سے اسلام آ باد کا داخلہ ممکن ہے۔ اس طرح گزشتہ ہفتے جڑواں شہر کے مکینوں کو شدید مشکلات کا سا منا کرنا پڑا۔حکومت نے با لا ٓ خر تنظیم کی قیادت سے مذاکرات کئےجو منطقی بات ہے لیکن سوال یہ ہے کہ مذاکرات کا آپشن پہلے کیوں استعمال نہیں کیا گیا پہلے کیوں یہ بڑھکیں ماری گئیں کہ ریلی کو لاہور سے نہیںنکلنے دیں گے۔ سیا سی ایشوز کو جب بھی انتظامی انداز سے حل کرنے کی کوشش کی گئی تو انسانی جانوں اور املاک کا نقصان اٹھانا پڑا ۔مارچ کے اعلان کے بعد ہی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کرکٹ میچ کیلئے چھٹی پر جانے کا اعلان کیا تھا۔

وزیر مذہبی امور پیر نور الحق قادری کراچی گھوم رہے تھے۔ وزیر اعظم عمران خان خود لاہور کے دورے پر تھے۔وزیر اعظم نے بھی صورتحال بگڑنے پر ہفتہ کے روز شیخ رشید احمد اور نور الحق قادری کو مذاکرات کا ٹاسک دیا۔اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ تحریک لبیک کا کوئی سیا سی مطالبہ نہیں ہے۔ وہ تو حکومت کی جانب سے کئے گئے تحر یری معاہدہ پر عمل درآ مد کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔حکومت نے یہ تسلیم کیا تھا کہ فرانس کے سفیر کو ملک بدر کیا جا ئے گا۔ عملی طور پر یہ ممکن نہیں اسلئے یہ مطالبہ تسلیم کرنا ہی حماقت سے کم نہیں تھا۔

بعد ازاں حکومت نے کہا کہ حکومت اس معاملہ کو پارلیمنٹ میں لے کر جا ئے گی لیکن اس وعدہ کی بھی پا سداری نہیں کی گئی ۔ تحریک لبیک 2018کے الیکشن میں ایک نئی سیا سی قوت کے طور پر سامنے آئی جس نے مسلم لیگ ن کے کئی امیدوراں کی شکست میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کی سرپرستی مقتدر حلقوں کی جانب سے کی گئی ۔ ن لیگ کی حکومت میں جب اس تنظیم نے فیض آ باد دھرنا دیاتھا تو پی ٹی آئی کی قیادت نے اس میں شرکت کی اور ان کے مطالبات کی حمایت کی تھی ۔ یہ حالات کا جبر ہے یا فرینڈلی فائر مگر دو نوں آج آ منے سامنے ہیں ۔

بہر حال یہ تو طے ہے کہ اس تقرری نے ایک پیج کو ضعف پہنچایا ۔ اعتماد کی جگہ بد گمانیوں نے لے لی۔ فاصلوں نے جنم لیا۔ اپوزیشن کا بھی یہ عالم ہے کہ وہ اچانک متحرک ہوگئی گویا انہیں اسی دن کا انتظار تھا کہ وزیر اعظم اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اختلاف پیدا ہو اور ان کی جگہ بنے ۔ یہ تنازعہ 6اکتوبر کو شروع ہو ااور اس کا ڈراپ سین 26 اکتوبر کو ہواجب چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باوجوہ نے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کی ۔ ملاقات میں ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری پر تفصیلی مشاورت کے بعد وزیر اعظم نے لیفٹنٹ جنرل ندیم احمد انجم کو نیا ڈی جی آئی ایس آئی مقرر کرنے کی منظوری دی ۔ وزیر اعظم آفس نے ان کی تقرری کا نو ٹیفیکیشن بھی جا ری کردیا ۔

اسلام آ باد کے باخبر حلقوں نے بتایا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان پر دبائو بڑھانے کیلئے جہانگیر ترین کو ٹا سک دیدیا گیا ہے۔ وہ لندن پلان بنا نے میں مصروف ہیں ۔ پنجاب اسمبلی اور قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کیلئے رابطے شروع کردیے گئے ہیں ۔ وزیر نج کاری محمد میاں سومرو کا نام اگلے وزیر اعظم کیلئے زیر غور ہے۔ چوہدری پر ویز الہیٰ کا بھی کلیدی سیا سی کردار ہوگا۔ وزیر اعظم عمران خان بہرحال ابھی تک پر اعتماد ہیں ۔ سعودی عرب کا دورہ کرکے آئے ہیں ۔

انہیں بہرحال مہنگائی کا چیلنج در پیش ہے۔ کور کمیٹی کے اجلاس میں بھی ان کے رفقاء نے کہا کہ ہمیں اپنے حلقوں میں عوامی تنقید کا سامنا ہے۔ مسلم لیگ ن ‘ پیپلز پارٹی اور جما عت اسلامی کی جانب سے ملک کے شہروں میں مہنگا ئی کے خلاف ریلیاں نکال رہے ہیں ۔ڈالر جس تیزی سے اوپر گیا ہے اس نے معیشت کی بنیادیں ہلا دی ہیں لیکن گورنر اسٹیٹ بنک رضا باقر نے عجیب منطق اختیار کی ہے کہ ڈالر کا ریٹ بڑھنے سے اوورسیز پا کستا نیوں کو فا ئدہ پہنچ رہا ہے۔

گویا 70لاکھ اوورسیز کو فائدہ دینے کیلئے 22کروڑ عوام کو مہنگائی کی چکی میں پیس دیا جائے۔پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس نومبر میں ہوگا۔ وزیر اعظم چاہتے ہیں کہ ا نتخابات کے ایک ایکٹ میں ترمیم ہوجا ئے ۔اوورسیز پا کستا نیوں کو ووٹ کا حق مل جا ئے اور ووٹنگ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذ ریعے ہو۔ ایم کیو ایم کا مطالبہ ہے کہ نئی مردم شماری کی جا ئے ۔ ان کے نتائج کی بنیاد پر نئی حلقہ بندیاں کی جا ئیں ۔ اس کا پراسیس شروع کردیا گیا ہے۔تاہم الیکشن کمیشن نے خبردار کردیا ہے کہ یہ کام بروقت کیا جا ئے کیونکہ حلقہ بندیوں کیلئے چھ ماہ کا وقت درکار ہوگا۔

بظاہر یہ ایک مشکل ٹاسک لگتا ہے لیکن وزیر اعظم کو اتحادی جماعت کے دبائو کا سامنا ہے۔الیکشن کمیشن کی جانب سے آنے والے دنوں میں کئی اہم فیصلے متوقع ہیں ۔ وفاقی وزراء اعظم سواتی اور فواد چوہدری کے الیکشن کمیشن کے بارے میں بیانات بلکہ الزامات کے کیس پر سخت فیصلہ متوقع ہے۔